کراچی پاکستان کا پہلا دارالخلافہ ہی نہیں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی جنم بھومی بھی ہے۔ شہر قائد پاکستان کا معاشی حب ہے ۔ اس شہر کی ایک روشن تاریخ ہے ۔ اس شہر کو ’’عروس البلاد‘‘ کہا جاتا تھا لیکن آج یہ شہر گندگی اور غلاظت کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا ہے۔ کراچی اپنی جغرافیائی کیفیت اور اس شہر کی معاشی و اقتصادی نمو کی وجہ سے آج بھی پاکستان کو چلانے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے لیکن اس کے بدلے اس شہر کو کیا مل رہا ہے؟یہ وہ سوال ہے جس پر ہمارے حکمران چپ سادھ لیتے ہیں۔ ملک کو 70فیصد ریونیو فراہم کرنے والا شہر کھنڈرات میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے اور ارباب اختیار ’’نیرو ‘‘ کی طرح چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔ اس شہر نے ہمیشہ بلا امتیازہر کسی کو اپنی گود میں پناہ دی ہے۔ شاید ہی کسی رنگ نسل قومیت اور فرقے سے تعلق رکھنے والا کوئی ہو جو اس شہر میں نہ بستا ہو۔ اسی شہر میں وقت نے کچھ اس طرح کروٹ بدلی ہے کہ وسیع میدانوں پارکوں کھلی سڑکوں چوڑی گلیوں کشادہ دالانوں کے حامل اس شہر میں آج چند گز کی جگہ بھی ملنا محال ہے۔ ایک زمانہ تھا جب یہاں کچرا بھی بکتا تھا۔ صاحب اختیار لوگوں نے کچرے کے ساتھ اس شہر کو بھی بیچ ڈالا اور اسے ایک بڑی کچرا کنڈی کی شکل دے کر لاوارث چھوڑ دیا۔یہاں تقریباً ہر سیاسی جماعت کو حکمرانی مل چکی ہے مگر روشنیوں کا شہر وقت ڈھلنے کے ساتھ ساتھ تاریکی کی جانب بڑھتا گیا۔ آج یہاں ہر جانب آپ کو بدبو‘گٹروں کا پانی‘ سڑکیں‘ اڑتی مٹی‘ گاڑیوں کا شور‘ دھواں ‘ فٹ پاتوں پر قبضے اور تجاوزات کی بھرمار دکھائی دے گی۔ پارکوں‘ سڑکوں‘فٹ پاتھوں‘ گھروں ‘گلیوں اور یہاں تک کہ سرکاری زمینوں پر بھی کھلے عام قبضے کر لئے گئے۔حکومت نام کی کوئی چیز یہاں زمین پر کم ہی پائی جاتی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب اس شہر میں تفریح گاہیں ہوا کرتی تھیں۔برا ہو ان کا جنہوں نے اس شہر میں ایک جانب چائنا کٹنگ‘کے ذریعے ان پارکوں کو اجاڑا تو دوسری جانب عوام کی تفریح گاہوں کو برباد کر دیا۔ کہتے ہیں کہ جرم کی پرورش جن معاشروں میں کی جاتی ہے وہ اخلاقی طور پر دیوالیہ ہو جاتے ہیں۔ اس شہر کے ساتھ یہ المیہ بھی رہا کہ اس کی روایات اور ثقافت کو جان بوجھ کر ختم کیا گیا۔ آج صورت حال یہ ہے کہ یہاں چلنے کو جگہ نہیں‘ گاڑیاں سڑک پر دوڑنے کے بجائے رینگ کر چلتی ہیں‘ ٹریفک کی میلوں طویل قطاریں لگی رہتی ہیں۔ گنجان آباد علاقوں کی کسی گلی میں بھی 2گاڑیاں بیک وقت نہیں جا سکتیں۔یہاں رہنے والوں نے گھروں کی توسیع کر کے گلیوں اور بازاروں کو چھوٹا کر دیا ہے۔یہ سب کچھ اچانک ہوا اور نہ ہی یکطرفہ بلکہ ہر دور میں سرکاری اداروں میں رشوت لینے اور عوام میں رشوت دینے کے رجحان نے آج اس شہر کو کنکریٹ اور زہریلے دھوئیں سے بھرے جنگل میں تبدیل کر دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب یہ شہر اپنی روایات اور روشن ماضی سے دور ہو رہا تھا اس وقت ہمارے حکمران اور اس شہر کے کرتا دھرتا کیا کر رہے تھے؟ اس شہر کے عوام کی حالت ساغر صدیقی کے اس شعر کی مانند رہی ہے کہ ؎ زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں کراچی دنیا میں ناقابل رہائش شہروں کی فہرست میں پانچویں نمبر پر آ گیا ہے۔ کراچی کی بربادی میں ’’غیروں‘‘ کے ساتھ ساتھ اپنوں کا بھی ہاتھ ہے۔ حکمران کچھ بھی کہتے رہیں کے الیکٹرک گیس کی کمی اور بجلی کی چوری کا بہانہ بنا کر شہر کراچی میں اس وقت بدترین لوڈشیڈنگ کر رہی ہے جبکہ بعض علاقوں میں کئی کئی گھنٹوں کے لئے تکنیکی خرابی کے نام پر بجلی کی فراہمی معطل کردی جاتی ہے۔ شدید گرمی میں بجلی کے لوڈشیڈنگ سے کراچی میں بحران خوفناک حد تک جنم لے رہا ہے۔ کراچی میں بیشتر علاقوں میں اعلانیہ اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا سلسلہ بے رحمی کے ساتھ جاری ہے۔ صفائی کا نظام تو اس شہر سے جیسے ختم ہی کر دیا گیا ہے۔سرکاری کاغذات میں آج بھی بڑی تعداد میں خاکروب پائے جاتے ہیں۔سرکاری خزانے سے انہیں تنخواہیں بھی ادا کی جاتی ہیں لیکن وہ کہاں ہوتے ہیں اور کام کیا کرتے ہیں یہ معلوم کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ گلیاں اور میدان کچرا منڈی میں تبدیل ہوتے جا رہے ہیں لوگ اپنی مدد آپ کے تحت تھوڑی بہت صفائی کروا لیتے ہیں اس میں بھی ان کی جیب پر جو بوجھ پڑتا ہے وہ انہیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ کچرے کو اس کے اصل مقام تک پہنچا سکیں۔ہمارے بلدیاتی ادارے اپنی ذمہ داری ادا کرنے سے یکسر انکاری ہیں۔یہی وجہ ہے کہ شہر میں جگہ جگہ کچرے کے پہاڑ بن چکے ہیں جو اپنے تعفن اور گندگی سے مختلف بیماریاں پھیلانے کا سبب بھی بن رہے ہیں۔ پینے کا صاف پانی تو شہر سے عنقا ہو چکا ہے۔ پوش علاقوں کے مکین منرل واٹر پی کر گزارہ کر رہے ہیں جبکہ مضافاتی علاقوں میں جو تھوڑا بہت پانی فراہم کیا جاتا ہے وہ اکثر سیوریج زدہ ہوتا ہے جسے غریب لوگ پینے پر مجبو ہوتے ہیں اور اس کے نتیجے میں مختلف امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایک جانب یہ کہا جاتا ہے کہ دستیاب پانی ضرورت کے مقابلے میں کم ہے اس لئے قلت کا سامنا ہے۔یہ منطق اس وقت عقل سے بالاتر ہو جاتی ہے جب آپ کو اپنی ضرورت کے مطابق معاوضے پر پانی’’ٹینکروں کے ذریعے‘‘ہر وقت دستیاب ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو پانی ٹینکروں کے ذریعے فراہم کیا جاتا ہے وہ لائنوں کے ذریعے کیوں فراہم نہیں کیا جا سکتا۔ لاقانونیت کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جو اس شہر میں جاری ہے۔ اس شہر میں جس طرح طاقتور کو روکنے والا کوئی نہیں ہے اسی طرح سرکاری سطح پر غریب کی داد رسی کا کوئی ذریعہ بھی دستیاب نہیں ہے۔ ہر طرف جنگل کا قانون چل رہا ہے نئی نسل کو دانستہ تباہی کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کراچی والوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اس شہر کو ایسے حکمران ملیں جو بلا امتیاز اس کی خدمت کرتے ہوئے اسے ایک بار پھر عروس البلاد بنائیں۔ یہاں روشنیاں جگمگائیں اور یہاں بسنے والے ماضی کی طرح پرسکون زندگی کے مزے لوٹ سکیں۔ خدا جانتا ہے کہ اس شہر کے باسی بہت دکھ جھیل چکے ہیں اب ان کے زخموں پر مہم رکھنے کا وقت آ گیا ہے۔ بقول افتخار عارف ؎ مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے