وزیراعظم عمران خان نے 5 ستمبر کو بارش سے شدید آفت زدہ شہر کراچی کا دورہ کیا۔انھوں نے وضاحت کے ساتھ کراچی کے مسائل پر گفتگو کی اور ان مسائل کے حل کے لئے گیارہ سو ارب روپے کے تاریخی ریلیف پیکج کا اعلان بھی کیا۔اس دورے کی سب سے اچھی بات یہ تھی کہ وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ بھی میڈیا کے ساتھ بات چیت کے دوران وزیر اعظم عمران خان کے ہمراہ سٹیج پر ان کے بائیں جانب موجود تھے۔کراچی کے مسائل کے حل کے لئے جو اعلی سطحی اجلاس بلا ئے گئے تھے وزیراعلی سندھ مراد شاہ ان میں بھی موجود رہے۔یہ فیصلہ بھی صائب ہے کہ کراچی کے مسائل کے حل کے لئے جو عمل درآمد کمیٹی بنائی گئی ہے اس کی سربراہی بھی وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ کریں گے۔وزیر اعظم عمران خان کا کراچی کے مسائل اور ان کے حل کے لئے وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ کو اعتماد میں لینے اور ان کو ذمہ داری سونپ دینا اس بات کی عکاس ہے کہ جمہوری معاشرے میں حکمران ،حزب اختلاف کے مینڈیٹ کا احترام کرتی ہے اور تمام ملکی اور قومی معاملات پر نہ صرف ان کو اعتماد میں لیتی ہے بلکہ جہاں کہیں ضروری ہو ان کو ان کے مینڈیٹ کے مطابق ذمہ داری بھی دی جاتی ہے۔کراچی کے مسائل کے حل کے لئے وزیر اعظم عمران خان نے جس فراخ دلی کے ساتھ سندھ میں حزب اختلاف کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر مسائل کے حل کے لئے قدم اٹھا ئے اس کا تقاضا ہے کہ وفاق میں بھی ملکی اور قومی مسائل کے حل کے لئے حزب اختلاف کے ساتھ مشاورت کا حوصلہ پیدا کر یں۔گزشتہ دو سالوں سے قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاسوں میں جو کچھ ہورہا ہے اس کے بارے میں اگریہ کہا جائے کہ ان دونوں مقدس ایوانوں کے اجلاس ملک و قوم کے وقت اور پیسے کا ضائع ہے تو بے جا نہ ہوگا۔وزیر اعظم عمران خان نے کراچی کے معاملات پر وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ کو اعتماد میں لے کر اور ان کو اہم ذمہ داری دے کر اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ پارلیمانی طرز حکومت میں حکمران چاہئے حزب اختلاف سے کتنا ہی نفرت کرے ،لیکن ملکی اور قومی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ نہ صرف اہم معاملات پر ان سے مشاورت کی جائے بلکہ عام حالات میں بھی ان کے ساتھ تعلقات قائم رکھنے چاہیں۔ اس حقیقت سے کوئی بھی پاکستانی انکار نہیں کرسکتا کہ شہر کراچی میں لسانی اور سیاسی عصبیت کے نام پر جوخون ریزی ہوئی وہ ملکی تاریخ کا ایک سیاہ ترین ،المناک اور ناقابل معافی جرائم ہیں،لیکن یہ شہر کراچی کا بڑا پن ہے کہ آج بھی انھوں نے پشتون، پنجابی، بلوچ،سندھی ،کشمیری اور ملک کے ہر کونے سے بسنے والوں کو اپنی آغوش میں جگہ دی ہے۔ایک دور تھا کہ شہر کراچی میں کارخانوں میں تین شفٹوں میں کام ہوتا تھا۔جامعہ کراچی میں پورے ملک سے طالب علم داخلہ لے کر ہاسٹل میں اقامت اختیار کرتے تھے۔دیگر علاقوں سے آئے ہوئے طالب علم صبح کے اوقات میں تعلیم حاصل کرتے تھے ۔ دوپہر یا رات کی شفٹ میں کسی کارخانے یا مارکیٹ میں ملازمت کرتے ۔ جامعہ کراچی میں ان کو سستی رہائش کی سہولت میسر تھی اور یوں دور دراز سے آئے ہوئے طالب علم اس شہر سے علم اور پیشہ دونوں حاصل کرتے تھے۔مگر افسوس کہ گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے اور پھر عروس البلاد شہر کراچی اندھروں کا شہر بن گیا۔کچھ غیروں کی شرارت تھی اور کچھ اپنوں کی کوتاہی۔لیکن شہرکراچی نے آج بھی قوم کو مایوس نہیں کیا۔یہ کراچی کا بڑا پن ہے کہ انھوں نے وزیر اعظم عمران خان کو اپنے شدید سیاسی حریف مراد علی شاہ کو اپنے ساتھ بٹھانے پر مجبور کیا۔ لیکن اس کے ساتھ اس سوال کا جواب تلاش کرنا بھی ضروری ہے کہ کیا وزیر اعظم عمران خان اور سندھ حکومت نے مل کر جو ریلیف پیکج اس شہر کے لئے اعلان کیا ہے ،کیا اس سے کراچی کے مسائل حل ہو سکیں گے؟جب ہم کراچی کے مسائل اور دیگر معاملات کا بغور جائزہ لیتے ہیں تو لگ ایسے رہا ہے کہ ایک مرتبہ پھر سیاسی عصبیت ،ذاتی مفاداور شہر کراچی پر قبضے کی کوشش ہورہی ہے۔کراچی کا بنیادی مسئلہ ریلیف پیکج نہیں بلکہ یہاں کی حیثیت اور نظام حکمرانی کا تعین کرنا ہے۔ گیارہ سو ارب روپے خرچ کرنے سے قبل ضروری ہے کہ شہر کراچی کا ماسٹر پلان ترتیب دیا جائے ، جس میں اس شہر کی حدود کا تعین ہو۔یہاں دنیا کے جدید ترین شہروں میں نافذ لوکل گورنمنٹ کا نظام نافذ کیا جائے۔ یہاں پر امن و امان کے لئے پولیس کا جدید نظام چاہئے جو تمام سیاسی اثرو رسوخ سے پاک ہو۔ اگر وفاقی اور صوبائی حکومت مل کر شہر کراچی کی حدود کا تعین کر کے یہاں جدید ترین لوکل گورنمنٹ کا نظام نافذ کرتی ہے اور یہاں پولیس کے جدید نظام سے سرمایہ کاروں ،کارخانہ داروں اور شہریوں کو تحفظ فراہم کرتی ہے تو پھر نالوں کی صفائی ،کچرا اٹھانے، نکاس کا نظام بہتر بنانے ، صاف پانی کی فراہمی ، صحت اور تعلیم ، روڈ اور ٹرانسپورٹ ،امن و امان اور دیگر مسائل کے حل کے لئے وزیر اعظم اور وزیر اعلی کو ریلیف پیکج دینے کی ضرورت نہیں پڑے گی ،بلکہ یہ شہر کما کر خود بھی کھائے گا اور وزیر اعظم اور وزیر اعلی کو ملک اور صوبے کے لئے سرمایہ اکٹھا کر کے دے گا۔ اس میں شک نہیں کہ پورا ملک شہر کراچی کا مقروض ہے ۔لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ اس شہر کے مسائل کا واحد حل ریلیف پیکج بھی نہیں۔ممکن ہے کہ اس ریلیف پیکج سے شہر کراچی کو سانس بحال ہونے کا موقع مل جائے لیکن بنیادی طور پر یہ شہر معاشی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کہ وہ بڑے شہر جو معاشی سرگرمیوں کا مرکز ہو وہ حکومتوں کے ریلیف پیکچ کا محتاج نہیں ہوتا بلکہ وہاں کی لوکل گورنمنٹ ،امن و امان کے لئے سیاسی مداخلت سے پاک پولیس کا نظام ،سرمایہ کاروں اور کارخانہ داروںکو دی جانے والی سہولیات اس شہر کی بقا اور مسائل کے حل کا ضامن ہوتی ہے۔شہر کراچی کے ساتھ بھی جب تک دنیا کے جدید شہروں کی طرح سلوک نہیں کیا جاتا اس وقت تک اس شہر کے مسائل کو کسی بھی ریلیف پیکج سے ختم کرنا حکومتوں کی خام خیالی ہوگی۔