میری یادوں کے اس پار کہیں اکتوبر 1971ء کی وہ سہ پہر پڑی ہے جب میں اپنے بابا کی گود میں اس کراچی کے کینٹ سٹیشن پر اترا تھا جس کی غریب پروری ضرب المثل بنتی جا رہی تھی۔ وہاں محض پہنچ جانا ہی برسرِ روزگار ہونے کی سند تھی اور اس خوبی نے اسے یہ امتیاز بخش رکھا تھا کہ وہ پاکستان کا واحد شہر تھا جہاں ملک کے ہر ضلع کے لوگ آ موجود ہوئے تھے اور یہی اس کے ’’منی پاکستان‘‘قرار پانے کا سبب بنا تھا۔ وہ عجیب ہی شہر تھا، اس کی گلیاں نفرت، کدورت، عناد اور حسد کے لئے نو گو ایریا تھیں۔ رحم، لطف اور کرم اس کے استعارے تھے۔ وہاں بیمار سو ہوتے تو انار دو سو ہوتے۔ وہاں دینے والے ہمیشہ لینے والوں سے زیادہ رہے، شائد یہی وجہ ہے کہ وہاں گدا گری بھی ایک مستقل پیشے کی شکل اختیار کر گئی۔ اگر آپ اسے انسانی شکل میں مجسم کر سکیں تو وہ انسان شباہت میں ضرور عبدالستار ایدھی کے بڑے بھائی کے طور پر ابھرے گا۔ اس شہر کا پہلا عبدالستار ایدھی وہ شہر خود تھا دوسروں نے تو بس اس کی اتباع کی۔ وہ شہر طبیب بھی تھا اور تیماردار بھی۔ مرہم بھی تھا اور درماں بھی۔ وہ استاد بھی تھا اور درسگاہ بھی۔ اس کی صبح نئے امکان کی روشنی تو شام مشکلات کے ڈھل جانے کی امید ہوتی۔ اس کے مشاعروں میں جون ایلیا مصرعوں سے بانکپن دکھاتا تو انور مقصود فقروں کا فقر مٹاتا۔ وہاں معین اختر تبسم کا خیر بانٹتا تو بشریٰ انصاری اس کا ہاتھ بٹاتی۔ وہاں دلاور فگار اکبر الہ آبادی کی یاد دلاتا تو مشتاق یوسفی ہنگاموں کا خیال بھلاتا۔ وہاں فاطمہ ثریا بجیا پورے شہر کی ماں ہوتی تو زبیدہ سارے شہر کی آپا۔ وہاں الن فقیر ’’ہو اللہ ! ! !‘‘ کی صدا بلند کرتا تو نہ نظر آنے والا خدا آس پاس ہی محسوس ہوتا۔ وہاں عابدہ پروین کی تان شاہ لطیف کے درد کو مجسم کر دیتی۔ وہاں وہ سعید تھا جو بدن اور روح دونوں کا طبیب تھا۔ وہاں وحید ظفر قاسمی کی نعتیں گونجتیں، وہاں شاکر قاسمی قرآن پرھتا۔ وہاں شاہ احمد نورانی نور اور یوسف بنوری نور علی نور ہوتا۔ ہاں جمیل جالبی ادیبوں کا رہنماء ہوتا اور وہاں ضیاء محی الدین داستاں گو ہوتا۔ وہاں اشرف طائی کراٹے سکھاتا اور ناصر بھولو اکھاڑہ سجاتا۔ وہاں ڈاکٹر محمد علی شاہ مزدور کو اس کی کٹ کر علیحدہ ہوجانے والی ٹانگوں پر پھر سے کھڑا کر کے دنیا کو حیران کرتا تو ڈاکٹر جمعہ خان کھوپڑی کھول کر دماغ کی بتیاں روشن کرتا۔ وہاں غریب کے ڈیرے سے سرِ شام ماہیے بلند ہوتے۔ وہاں مزدور کے پسینے سے خوشبو آتی۔ وہاں ہنر محنت کش کا نہیں بلکہ محنت کش ہنر کا فخر ہوتا۔ وہاں اردو کا ہر رنگ ہوتا، نارتھ ناظم آباد میں ’’ہم کہے دیتے ہیں‘‘ ناظم آباد میں ’’میں بول رہا ہوں‘‘قصبہ میں ’’اَم بولتا ہے‘‘ لیاری میں ’’اڑے اَم بولتا ہوں‘‘ کہا جاتا۔ وہاں صابری کی نہاری، سٹوڈنٹ کی بریانی، دہلی کی حلیم، بندوخاں کے کباب اور فریسکو کی ربڑی سجتی اور معدوں کو ان سے شکایت نہ ہوتی۔ پھر پتہ نہیں کیا ہوا شائد نظر لگ گئی ! شائد آسیب اترا ! شائد بندش کے تعویذ ہو گئے ! شائد جنات نے ڈیرے جما لئے ! شائد کالا جادو ہوگیا ! شائد حسد مار گیا ! شائد رشک کھا گیا ! شائد بڑا بول لڑ گیا ! شائد مسکین کی آہ مار گئی کہ وہ کراچی نہیں رہا ! غریب کے لئے کشش رکھنے والے شہر میں وہ شام اتری جس کی تاریکی میں امیر کو ہجرت کرنی پڑ گئی۔ روزگار کی سندیں بانٹنے والے کارخانے بند ہونے لگے۔ منی پاکستان سے پورے پاکستان میں لاشیں جانے لگیں۔ اس کی گلیوں میں نفرت، کدورت، عناد اور حسد کا راج ہو چلا۔ رحم، لطف اور کرم نامی تین اجنبی گھروں کا پتہ پوچھنے پر مجبور ہوئے۔ بیمار وہاں سو ہوگئے مگر انار ایک بھی نہ بچا۔ وہاں لینے والوں کی جگہ چھیننے والوں نے لے لی۔ اب اس شہر کو مجسم کرنے کا خطرہ مول نہیں لیا جا سکتا کہ دیو ہیکل ٹارگٹ کلر کو سنبھالے گا کون ؟ شائد اسی لئے ایدھی بھی کوچ کرگئے۔ طبیب خود مریض ہوا اور تیمار دار کوئی نہ رہا۔ مرہم ناپید، درماں عنقاء استادغائب، درسگاہ خالی۔ اس کی صبح اٹھتے ہی خون سے منہ دھونے لگی اور اس کی شام امیدوں کو دفن کرنے والی گورکن ہوئی۔ اس کے مشاعرے اجڑ گئے۔ جون ایلیا صدمے سے چل بسا اور انور مقصود صدموں کے لئے رہ گیا۔ معین اختر اور بشریٰ انصاری خود تبسم کے لئے ترسنے لگے۔ اکبر کی یاد دلانے والے دلاور فگار خود ایک یاد بن کر رہ گئے اور یوسفی زلیخہ کے ڈر سے گھر میں قید ہوگئے۔ فاطمہ ثریا کے بچوں پر مشکل وقت آگیا۔ لسانیت کے شور میں الن فقیر نے اک آخری بار ’’ہو اللہ ! ! !‘‘ پکارا اور اللہ کے پاس چل دیا۔ عابدہ پروین کی تان نے شاہ لطیف کے جس درد کو مجسم کیا تھا وہ بھی نامعلوم افراد کے ہاتھوں مارا گیا۔ حکیم سعید اپنی روح پر لگنے والے زخم دکھانے نکلا تو جسم بھی چھلنی کروا بیٹھا۔ وحید ظفر قاسمی کی نعت اور شاکر قاسمی کی تلاوت کانوں پر دستک دیتیں لیکن دلوں تک رسائی سے محروم ہوگئیں۔ شاہ احمد نورانی اور یوسف بنوری کا نور تاریکی سے ہارتا چلا گیا۔ جمیل جالبی نے قرطاس کو الفاظ کا قبرستان بنتے دیکھا اور ضیاء محی الدین کی داستانیں زخمیوں کی چیخ و پکار میں دبتی چلی گئیں۔ اشرف طائی کے کراٹے اور ناصر بھولو کی کسرت کشش کھو گئی۔ ڈاکٹر محمد علی شاہ قاتلوں کی صف میں جا کھڑا ہوا اور ڈاکٹر جمعہ کی جمعرات ہوگئی۔ محنت کش کے پسینے کی خوشبو بہتا خون چھین گیا۔ اب ہنر محنت کش پر فخر کرتا ہے اور نہ محنت کش ہنر پر۔ اردو کے سارے رنگ پھیکے پڑ چکے اب گولی کی بولی بول رہی ہے۔ پہلے قاتل یہ بولی بول رہا تھا اب قانون بول رہا ہے۔ صابری کی نہاری، سٹوڈنٹ کی بریانی، دہلی کی حلیم، بندو خاں کے کباب، اور فریسکو کی ربڑی کا ساتھ دینے شنواری کا نمکین گوشت اور سوغاتِ شیریں کی مٹھائیاں بھی آ چکیں مگر یہ سب اب معدوں کو راس نہیں آتا۔ وہ کراچی کب کا دفن ہو چکا جہاں تبسم صحت کی نمائندگی کرتا۔ لوگ مسکراتے اب بھی ہیں لیکن ان کا تبسم پاگل خانہ یاد دلا دیتا ہے۔ اس بیمار شہر کو سب بیمار لگتے ہیں۔ لوگ بن پوچھے کھانا بنا نمک، چائے بلا شکر اور پراٹھا بِدوں روغن پیش کر دیتے ہیں۔ اس شہر کے کالجز کی درسگاہوں کو اجڑے 31 برس ہو گئے سو یہاں نارمل پڑھے لکھے اب نہیں پائے جاتے۔ اب پورا شہر خود کو ارسطو سمجھتا ہے !