گزشتہ دنوں عزیز رشتے داروں کے ساتھ عید گزارنے کیلیے کراچی جانا ہوا۔ شہر میں پہنچتے ہی چاروں طرف کوڑے کچرے کے ڈھیر دیکھ کر یوں لگا کہ اس شہر میں گندگی نہیں ہے بلکہ گندگی پر شہر آباد ہے۔ جو کبھی اچھی خاصی مڈل کلاس آبادیاں تھیں وہ بھی کچرے سے اٹی پڑی ہیں۔ تعفن اٹھ رہا ہے۔ جگہ جگہ سڑکیں‘ گلیاں ٹوٹی پھوٹی ہیں۔ سیوریج کا گندا پانی گلیوں میں بہہ رہا ہے۔ گھریلو استعمال کا پانی اچھا برا‘ بدبودارجیسا بھی ہے ایک ہفتہ میں دو روز کچھ دیر کیلیے پائپ لائن میں آتا ہے۔ مکین انتظار میں رہتے ہیں‘ جیسے ہی پانی آتا ہے نعرہ بلند ہوتا ہے۔ ’پانی آگیا۔‘ اسے ٹنکی میں محفوظ کرنے کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ یہ خوش قسمتی شہر کے شمال میں رہنے والوں کی ہے کہ پائپ لائن سے کچھ پانی مل جاتا ہے۔ جنوب میں پانی ٹینکرز کے ذریعے مہنگے داموں خریدا جاتا ہے۔ شہر میں ٹریفک کا بے ہنگم اژدہام ہے۔ بہت سے لوگ ٹوٹی پھوٹی پرائیویٹ بسوں کی چھتوں پر سفر کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ صوبہ سندھ کا صدر مقام ہے جہاں پچھلے گیارہ سال سے پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت ہے۔ اس پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری آجکل پورے ملک کے لوگوں کو درس دیتے ہیں کہ دس ماہ پرانی تحریک انصاف کی حکومت نے مہنگائی کردی‘ عوام کی زندگی مشکل بنادی۔ کوئی ان حضرت سے یہ پوچھے کہ آپ کی صوبائی حکومت نے گیارہ برسوں میں اور آپکی وفاقی حکومت نے اپنے پانچ برسوں (2008-13ئ) میں ملک کے سب سے بڑے شہر کو جس بربادی سے دوچار کیا ہے‘ کیا ایسی ترقی آپ پورے ملک میں لانا چاہتے ہیں؟ اس ملک کے سیاستدان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ جب تک چاہیں جتا چاہیں ملک کو عوام کو اپنی لفاظی سے بے وقوف بناسکتے ہیں۔ کراچی وہ آئینہ ہے جس میں پیپلز پارٹی اپنی اصل شکل دیکھ سکتی ہے۔ چند روز پہلے سپریم کورٹ کے سینئیر جج جسٹس گلزار احمد نے کتنا صحیح کہا ہے کہ کراچی ملک کا بدترین شہر بن چکا ہے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے جج صاحب نوحہ کناں ہیں کہ گزرے زمانے میں وہ گھر سے دور جا کر کھیلتے تھے اور اب انکے بچے گھر سے باہر نہیں نکل سکتے۔ انہوں نے کہا کہ جو ترقی شہر میں ہوئی تھی اب وہ ختم ہورہی ہے۔ غالبا ان کا اشارہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں کیے گئے ترقیاتی کاموں کی طرف تھا جو شہر کے مئیر مصطفے کمال کی نگرانی میں مکمل کیے گئے تھے۔ کراچی اس ملک کا کماو پوت ہے۔ تجارتی و صنعتی مرکز ہے۔ پاکستان کی مجموعی قومی دولت کا ایک چوتھائی پیدا کرتا ہے۔ ریاست کو ملنے والے کل ٹیکسوں کا60 فیصد سے زیادہ حصہ اس شہر سے آتا ہے۔ عالمی ادارے اس شہر کو پاکستان کا سب سے زیادہ بزنس دوست شہر قرار دیتے ہیں۔ گو کہ کراچی پر اردو بولنے والے مہاجر آبادی کا غلبہ نظر آتا ہے لیکن حقیقت میں یہ شہر منی پاکستان ہے۔ مہاجر آبادی کا پچاس پچپن فیصد سے زیادہ نہیں۔ یہاں تیس چالیس لاکھ پٹھان آباد ہیں‘ لاکھوں کی تعداد میں سندھی‘ سرائیکی اور بلوچ ہیں۔ پنجابی بولنے والے بھی کم نہیں۔ جو شخص بھی محنت مزدوری کرکے دو وقت کی روٹی کمانا چاہتا ہے اس غریب پرور شہر کا رخ کرتا ہے۔ پاکستان کا بہترین ہیومن ریسورس اس بستی میں آباد ہے۔ لیکن شہری سہولتوں کے اعتبار سے یہ بدترین شہر ہے۔ نصف آبادی کچی بستیوں کی مکین ہے۔ اسکا مقابلہ لاہور سے کریں تو دونوں شہروں میں زمین آسمان کا فرق محسوس ہوتا ہے۔ لاہور کی سڑکیں کہیں بہتر حالت میں اور صفائی کا انتظام ہزار درجے بہتر ہے۔ پانی کی دستیابی تو خیر لاہور میں کبھی مسئلہ ہی نہیں رہی۔ ہم شریف خاندان پر کرپشن کے الزامات تو لگا سکتے ہیں لیکن یہ ایک بڑی حقیقت ہے کہ انہوں نے پنجاب کے سب سے بڑے شہر کو ترقی دینے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ حالانکہ شریف خاندان نے تعلیم اور صحت کے شعبوں کو ترقی نہیں دی۔ لوگ صرفٖ اسی بات پر انکے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے لاہور شہر میں بنیادی انفراسٹرکچر فراہم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی کیونکہ دوسرے شہروں میں یہ سہولتیں بھی نصیب نہیں۔ کراچی کے مسائل کی جڑ یہ ہے کہ صوبہ میں حکمران پیپلز پارٹی ایک متعصب لسانی سندھی جماعت میں تبدیل ہوچکی ہے۔ جب بھی سندھ میں اسکی صوبائی حکومت بنتی ہے یہ کراچی کے ساتھ بہت برا سلوک کرتی ہے کیونکہ وہ اسے سندھی زبان بولنے والوں کا شہر نہیں سمجھتی۔ صوبائی حکومت کی آمدن کا بیشتر حصہ اس شہر سے آتا ہے لیکن وہ اس پر خرچ نہیں کرتی۔ پیپلز پارٹی ووٹ بنک کی سیاست کررہی ہے۔ وہ ایسے شہر میں فنڈز خرچ نہیں کرنا چاپتی جہاں سے اسے الیکشن میں سیٹیں نہیں ملتیں۔ کراچی کی دشمنی میں پیپلزپارٹی اس حد تک آگے چلی گئی کہ اس نے ایسا بلدیاتی نظام متعارف کرادیا جس میں شہری حکومت کے پاس کوئی معمولی سا اختیار بھی نہ رہا۔ انہی زیادتیوں کے باعث مہاجر جماعت ایم کیو ایم وجود میں آئی تھی۔ اس بات کے باوجود کہ ایم کیو ایم پر تشدد سرگرمیوں میں ملوث ہوگئی‘ کراچی کے لوگ اپنی بقا کیلئے اس سے چمٹے رہنے پر مجبور رہے۔ اس بدقسمت شہر کے لوگ اپنے مسائل کے حل کیلیے جب الگ انتظامی صوبہ کی بات کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ ’مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں۔‘ الگ صوبہ قبول نہیں‘ بلدیاتی اختیارات قبول نہیں۔ خود آپ کچھ کرنا نہیں چاہتے۔ تو پھر اس گنجلک مسئلہ کا حل کیا ہے؟ سندھی رہنما مرحوم پیر پگارو شریف کہا کرتے تھے کہ کراچی کووفاق کے زیرانتظام علاقہ کا درجہ دے دیا جائے۔ ظاہر ہے موجودہ آئین میں ترمیم کے بغیر یہ بھی ممکن نہیں۔ وفاق کے حکمران یہ جرات بھی نہیں کرتے کہ چند برسوں کیلیے ایمرجنسی لگا کر اس شہر کا کنٹرول سنبھال لیں اور اسکے مسائل حل کریں۔ ایک افسوس ناک صورتحال ہے۔ پاکستان کی ریاست جتنی دیر تک کراچی کو نظر انداز کرے گی‘ صرف اس شہر کو ہی نہیں پورے ملک کو نقصان پہنچتا رہے گا۔ یہ شہر پاکستان کا معاشی انجن ہے۔ یہ چلے گا تو ملک آگے بڑھے گا۔