وہ تصویرغالبا کراچی کے ایک پیدل برج کی ہے جس پر قطار سے جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کے پرچم اس ترتیب سے لگے ہوئے ہیں کہ ایک پرچم ایم کیو ایم اور ایک جماعت اسلامی کا ،پل کی پرچم بردار ریلنگ پرجماعت اسلامی کا ایک بڑا سا بینر بھی آویزاں ہے جس پر جلی لفظوں میں تحریر ہے ’’ ہم تین کروڑ ہیں ڈیڑھ کروڑ نہیں ،جعلی مردم شماری نامنظور‘‘یہ تصویر کراچی کے بدل جانے والے سیاسی موسم کا پتہ دے رہی ہے ورنہ ایک ہی صف میں ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کے پرچم کیسے لگ سکتے تھے اگر لگ بھی جاتے توسلامت کہاں رہتے ۔بھلاایم کیو ایم یہ کیسے قبول کرتی! یہ الگ بات ہے کہ ایم کیو ایم کوکراچی پر قبضے کے بعد بھی جماعت اسلامی کی یہ بغاوت کسی نہ کسی طور برداشت کرنا پڑی تھی کراچی والے جانتے ہیں کہ جماعت اسلامی نے اسکی بھاری قیمت ادا کی ہے، اس بغاوت کا اعلان سید منور حسن مرحوم نے نائن زیرو میں الطاف حسین سے ملاقات میں کیا تھا،یہ ان دنوں کی بات ہے جب ایم کیو ایم کراچی کو’’ فتح‘‘ کر چکی تھی ہر طرف ایم کیو ایم کا طوطی بول رہا تھا۔ایم کیو ایم سے پہلے جماعت اسلامی کراچی کا بڑا نام تھا اور یہاں ’’صبح منور شام منور۔۔۔ روشن تیرا نام منور‘‘ کے نعرے گونجا کرتے تھے تب نوجوان سید منور حسن مرحوم کراچی کے پوسٹر بوائے تھے۔ اب اس پوسٹر کی جگہ الطاف حسین کاپوسٹر لے رہا تھا دوقوتوں میں اختیار کی کشمکش تھی۔ ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کے کارکنوں میں جھٖڑپیں ہونے لگی تھیں ،صورتحال کشیدہ تھی اور مزید کشیدہ ہورہی تھی ۔جماعت اسلامی کی قیادت بھی متفکر تھی اورایم کیو ایم کے بعض صلح جو رہنما بھی یہ سب نہیں چاہتے تھے،الطاف حسین کے بعد ایم کیو ایم کے سب سے بڑے رہنما مرحوم عظیم احمد طارق کا تقریبا سارا خاندان جماعت اسلامی سے تھاوہ اس صورتحال سے وہ ناخوش تھے اور یہ کشیدگی کم کرانے کے لئے آگے بڑھے ان کی کوششوں سے نائن زیرو پر الطاف حسین اور جماعت اسلامی کی قیادت کے درمیان ملاقات رکھی گئی ،ملاقات میں جماعت اسلامی کی طرف سے منور حسن شریک تھے بلکہ اس چھوٹے سے وفد کی قیادت کررہے تھے ،ملاقات میں الطاف حسین نے جماعت اسلا می سے دوٹوک لفظوں میں مطالبہ کیا کہ وہ کراچی میں اپنا سیاسی اور دعوتی کام لپیٹ لیں کیوں کہ اب کراچی کے فیصلے ایم کیو ایم کرے گی ۔الطاف حسین نے ملاقات ہی کے دوران کسی کو آواز دے کر ایک پرچہ منگوایا جس میں مختلف علاقوں میں جماعت اسلامی کے اجتماعات اور درس قرآن کی نشستوں کی تفصیلات موجود تھیں الطاف حسین نے ہدایت دی کہ جماعت کی یہ سرگرمیاں بند ہوجانی چاہیئں،الطاف حسین کا یہ مطالبہ نہ صرف غلط تھا بلکہ غلط بندے سے کیا گیا تھا۔منور حسن نے اسی وقت صاف انکار کردیا جس کے بعد ملاقات جاری رہنے کا کوئی جواز نہ تھا ،اس ناکام ملاقات کے اگلے روز اسلامی جمعیت طلباء کے تین مقتول کارکنوں کے لاشے ان کے کاندھوں پر تھے،اس دن سے ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کے درمیان اینٹ اورکتے کا بیر دیکھنے کو ملا۔ایم کیو ایم کے جلسوں میں جماعتی ٹھاہ کے نعروں کے ساتھ ساتھ گلیوں ،کالجوں میں ٹھاہ ٹھاہ کی اصل آواز کراچی والوں کی سماعتوں کے لئے معمول بن گئی اور یہیں سے کراچی کی بدقسمتی کا آغاز ہوا۔ 80ء کی دہائی میںکراچی والے چائنا کٹنگ کے نام سے واقف نہ تھے نہ ہی بجلی کی لوڈشیڈنگ سے متعلق کوئی خبر کسی اخبار میں کہیں ملتی تھی ،منرل واٹر کے نام پر بوتلوں میں پانی کی فروخت کا تصور نہ تھا،چند ایک واٹر ٹینکر بلدیہ عظمیٰ کی ملکیت ہوا کرتے تھے جس کے ڈرائیور عموما ٹرکوں میں سوئے ہوئے یا آس پاس گپ شپ لگاتے ملتے کہ پانی کی قلت ہی نہ تھی،کچرہ کنڈیا ں علیٰ الصباح خالی ہوجاتی تھیں ،سڑکیں ادھڑی ہوئی نہ تھیں میرے دوست سید شوکت سلطان کے مطابق انہوں نے اپنی آنکھوں سے ایم اے جناح روڈ دھلتے دیکھا ہے ،قانو ن کی عملداری ایسی تھی کہ سائیکل پر لائٹ نہ ہوتو ٹریفک کا سپاہی چالان کر دیتا تھا،اب وہ کراچی صرف یادوں میں کہیں بستا ہے ہمارے سامنے تو ادھڑا ہواکراہتا کراچی ہے جس کی روشنیاں گل ہوچکی ہیں اورمہیب اندھیرے جی جلانے کو موجود ہیں۔،العطش العطش کی آواز کیا اورنگی اور کیا کورنگی ہر سمت سے سنائی دیتی ہے ۔کراچی کی زبوں حالی جسے میں تباہی کہتا ہوں کی تحقیق کی جائے تو اداروں میں سب بڑا مجرم کے الیکڑک ملے گا ۔آج بھی یہ سطور لکھتے ہوئے کراچی میں لوڈشیڈنگ کا بھوت ناچ رہا ہے۔،کے الیکڑک اس ناخلف اولادکی مانند ہے جو کسی کے کنٹرول میں نہیں ۔سپریم کورٹ سے ایک موہوم سی آس تھی چیف جسٹس صاحب نے عدالت لگا کر کے الیکڑک والوں کو جھاڑ بھی پلائی وارننگ بھی دی مگر لوڈشیڈنگ کا مسلط عذاب ختم نہ ہوا۔ جماعت اسلامی ایک بار پھرشہر قائد کے حقوق کے لئے میدان میں نکلی ہے ،ستائیس ستمبر کو’’حقوق کراچی مارچ‘‘نکالی جارہی ہے جس کی بڑے پیمانے پر تیاریاں ہو رہی ہیں یہ مارچ ایک بدلے ہوئے کراچی میں ہورہا ہے ۔کراچی والے اب عاجز آئے لگتے ہیں ایک لاوا ہے جو لیاقت آباد سے لے کر کٹی پہاڑی اور ماڈل ٹاؤن سے لے کر ماری پور تک بلاتخصیص پک رہا ہے۔ سیاسی جماعتیں اس کی حدت سے باخبر ہیں اس لئے کراچی کے لئے لگنے والی آواز یں نظر انداز کرنا ان کے بس میں نہ ہوگایہی ’’مجبوری ‘‘پیدل برج پر جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کے پرچم ایک قطار میں ساتھ ساتھ دکھا رہی ہے ،وقت بدل چکا ہے اس بدلے ہوئے وقت میں اب اسلام آباد اور راولپنڈی کو کراچی کی کراہوں پر کان رکھنا ہوںگے،کراچی ملکی معیشت کا انجن ہے انہیں اس سے اٹھنے والی آوازیں سننا ہوں گی،کراچی ستر برسوںسے ایک شفیق باپ کی طرح پورے پاکستان کی ضرورتوں کا خیال رکھتا آیا ہے ۔اب حق تو یہ ہے کہ حقوق کراچی ریلی کے بعد کراچی کے لئے لاہور ،پشاور،کوئٹہ ،ملتان اور اسکردو سے کراچی کے لئے آواز اٹھے اور وہاں سے ریلیاں چلیںیہ صرف ایک شہر کا نہیںپورے ملک کا مسئلہ ہے۔ آج کراچی کو نہ سنا گیا تواب وہ شور مچے گا کہ کسی کی کان پڑی آواز سنائی نہ دے گی ۔