سندھ کی سیاست میں پیپلزپارٹی کے اثرات کو کم یا محدود کرنے کے لئے اس وقت کی فوجی حکومت کو ایک سیاسی متبادل کی ضرورت تھی ۔شہری سندھ کے حالات اس نئی سیاسی قوت کی تشکیل کے لئے موزوں تھے چنانچہ سیاسی اور غیرسیاسی ہر دو سطح پر اس کی کامیابی کے لئے اقدامات اور انتظامات کو یقینی بنایا گیا۔ شہری سندھ کے لوگ اپنی نمائندہ آواز کی تلاش میں تھے ۔اپنے دیرینہ مسائل کا حل چاہتے تھے ۔ دیگر سیاسی جماعتوں سے وہ مایوس ہو چکے تھے لہذا الطاف حسین کی قیادت میں انہیں اس تنظیم میں اپنا بہترسیاسی مستقبل نظر آیا اور لوگ جوق در جوق اس کا حصہ بنتے گئے۔2018 کے انتخابات میں کراچی کی سیاست میں ایک با ر پھر تبدیلی واقع ہوئی ۔متحدہ قومی موومنٹ سے مایوس ہو کر اہل کراچی نے پاکستان تحریک انصاف کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ۔کراچی کے لئے مختص اکیس قومی اسمبلی کی نشستوں میں سے تیرہ پر تحریک انصاف، چار پر متحدہ قومی موومنٹ( الطاف حسین سے علیحدگی کے بعد) اور چار پر پیپلزپارٹی نے کامیابی حاصل کی۔پاکستان تحریک انصاف کی وفاق میں حکومت ہونے اور کراچی سے واضح نمائندگی کے باوجود اس شہر کے دکھوں کا مداوا نہیں ہو سکا ۔ پاکستان کا سب سے بڑا شہر اورسندھ کا دارالحکومت ہونے کی حیثیت میں وفاق اور سندھ ہر دو حکومتوں کی اسے خصوصی توجہ کی ضرورت ہے مگر نامعلوم وجوہ کی بنا پر ایسا کرنے سے گریز ہی ہوتا رہا ۔فیصلہ سازوں کی دانائی پر حیرت ہوتی ہے جہاں توجہ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے وہاں اغماض برتا جاتا ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ بے چینی ،مایوسی ، ناامیدی اور مطالبات کے دائرے وسعت اختیار کر رہے ہیں مگر حکومت اور اس کے اداروں کو اس کی پرواہ نہیں ۔ سندھ میں حالیہ بلدیاتی انتخابات دو سال سے بھی زائد تاخیر کے بعد ہوئے ہیں۔ صوبائی حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود کراچی کی سطح پر ان انتخابات میں پیپلزپارٹی اکثریت حاصل کرنے کامیاب نہیں ہوسکی اور اسے شہر کی میئرشپ کے لئے بڑی مشکل کا سامنا ہے ۔نتائج کے مطابق میئرشپ کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی 98 ، جماعت اسلامی 89 اور تحریک انصاف 42 ووٹ کی حامل ہیں ۔17 ووٹ دیگر سیاسی جماعتوں اور آزاد اراکین کے ہیں۔ 246 کے ایوان میں کامیابی کے لئے 124 ووٹ درکار ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ چند سالوں میں جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمن نے کراچی کے مسائل کے لئے ہر سطح پر بھرپور لب و لہجے کے ساتھ آواز اٹھائی ہے اور یہ سمجھا جارہا تھا کہ اس بار بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمن میئر بننے میں کامیاب ہو جائینگے۔مگر انتخابات کے نتائج نے صورت حال کو پیچیدہ کر دیا ہے ۔اگر جماعت اسلامی تحریک انصاف کے ساتھ اشتراک کرتے ہوئے اپنا میئر لانے میں کامیاب ہو بھی جائے تو پھر صوبائی حکومت کے ساتھ مالیاتی وسائل پر کشمکش ناگزیر ہو گی اور اسے شہر میں ترقیاتی کام کرنے میں مشکلات کا سامنا رہے گا۔اس صورت حال میں اگر جماعت اسلامی پیپلز پارٹی کے ساتھ ملتی ہے تو اسے میئر شپ سے دستبردار ہونا پڑے گا۔شہر کی بہتری کے لئے مناسب تو یہی ہے کہ جماعت اسلامی میئر شپ کی قربانی دیتے ہوئے اس بار پپلز پارٹی کو یہ موقع دے اس طرح صوبائی حکومت اور شہری حکومت کے درمیان ایک اچھے تعلقات کارکی بنیاد رکھی جاسکتی ہے ۔اگر کراچی کو ایک منتخب اور با اختیار شہری حکومت مل جائے جسے اس کی اہمیت کے مطابق وسائل بھی میئسر ہوں تو نہ صرف شہر کے مسائل بھی حل ہونا شروع ہوسکتے ہیں۔ پاکستان بھر سے لاکھوںلوگ روزگار کی تلاش میں کراچی آتے ہیں ۔جنوبی پنجاب ہو یا خیبر پختون خوا،گلگت بلتستان ہو یا کشمیر ، افغانی ہوں یا بنگالی یا پھر برمی اور اراکانی کراچی میں بغیر کسی منصوبہ بندی کے آباد ہو چکے ہیں جس کے باعث شہری سہولیات بجلی ،پانی،گیس،ٹرانسپورٹ،صحت،تعلیم اور صفائی کی کمیابی شدت اختیار کر چکی ہے۔ پھر یہ کہ آباد ی کے بے ہنگم دبائو کے باعث یہاں ہر طرح کے جرائم کی شرح میں بھی خطر ناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے ۔ پولیس اور رینجر ز کی مستقل موجودگی کے باوجود شہریوں کو جان و مال اور عزت کے تحفظ کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔کراچی کے مستقل شہریوں کے لئے روزگار کے مواقع غیر یقینی اور محدود ہو چکے ہیں جس سے نوجوانوں میں ریاست اور اس کے اداروں سے متعلق یاسیت اور بیگانگی پیدا ہو رہی ہے ۔یہی وہ وقت ہے جب ریاست دشمن قوتیں اپنا کھیل شروع کرتی ہیں نوجوانوں میں موجود یاسیت کو ریاست کے خلاف استعمال کرتے ہوئے انہیں اپنے مذموم مقاصد کے استعمال کے لئے آمادہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں تو کیا ریاست اور اس کے اداروں کے لئے یہ سوچنے اور سمجھنے اور فیصلہ کرنے کا وقت نہیں ہے کہ وہ اپنے بہتر سیاسی اور انتظامی طرز عمل سے ان یاسیت زدہ نوجوانوں کے لئے روشن مستقبل کی امید پیدا کرتے ہوئے ریاست سے ان کے کمزور ہوتے تعلق کو ایک بار پھر مضبوط رشتے میں بدل دیں۔ریاست کے فیصلہ ساز یہ بات کیوں نہیں سمجھتے کہ جہاں اور جس وقت اس کے شہریوں کو ریاست کی توجہ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے وہاں اسی قدر غفلت کیوں اختیار کی جاتی ہے ۔بلوچستان، قبائلی علاقہ جات اور اب کراچی ریاست کے اسی طرز عمل کا شکار ہو رہے ہیں۔وقت تیزی سے گزر رہا ہے ،مسائل لا ینحل ہوتے جارہے ہیں ۔ وفاقی حکومت کو ریاست کے زخم خوردہ ( سیاسی اور انتظامی اعتبار سے ) علاقوں پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ آئینی تقاضوں کے مطابق منتخب شہری حکومت کے قیام کو ، اختیار اور وقار کے ساتھ ، یقینی بنایا جائے اور اس کے لئے خصوصی وسائل مختص کئے جائیں۔آبادی کے بے ہنگم پھلائو کو روکنے کے لئے مؤثر منصوبہ بندی کی جائے اورکچی آبادیوں کے قیام کی سختی کے ساتھ حوصلہ شکنی کی جائے۔ اسٹریٹ کرائم کی روک تھام کے لئے مقامی آبادی پر مشتمل خصوصی پولیس فورس قائم کی جائے۔شہر کے ترقیاتی پروجیکٹس اور سہولیات کی فراہمی کیلئے دیگر صوبائی حکومتوں کو بھی کراچی کی شہری حکومت کے وسائل میں اپنا حصہ شامل کرنا ضروری ہے۔یہ اور اسی طرح کے اقدامات سے کراچی کی سیاسی اور انتظامی محرومیوں کا ازالہ ممکن ہے۔شرط صرف یہ ہے کہ فیصلہ ساز اخلاص نیت کے ساتھ ایسا کرنا چاہیں۔کراچی کو سمجھے اور اپنائے بغیر اور اس کی سیاسی حرکیات کو تسلیم کئے جانے تک سندھ اور پاکستان کی ترقی کا خواب تعبیر نہیں پاسکے گا۔