وزیراعظم عمران خان نے کراچی کے مسائل حل کرنے کیلئے وفاق کی جانب سے بھرپور مدد فراہم کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے گرین لائن بس منصوبے کیلئے گیارہ ارب روپے جاری کرنے کی ہدایت کی ہے۔ وزیراعظم نے کراچی کی نمائندگی کرنے والے اراکین اسمبلی سے ملاقات میں کہا کہ’’ سندھ کے حالات کرپشن کی وجہ سے خراب ہوئے۔ بلدیاتی نظام کراچی سمیت سندھ کے شہروں کے مسائل حل کرنے میں معاون ہو سکتا ہے‘‘۔ کراچی وہ بدنصیب شہر ہے جس کی ہزاروں خوبیوں کی بوٹیاں خونخوار گدھ نوچ رہے ہیں اور مدد کی آس لئے یہ شہر ہر سیاستدان، ہر سیاسی جماعت، ہر افسر اور ہر صاحب اختیار کی طرف دیکھتا ہے۔ ترقی کے سارے لوازمات یہاں موجود ہیں۔ ڈیڑھ کروڑ سے زائد آبادی کا کراچی، دنیا کے نمایاں شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ بندرگاہ پر روزانہ اربوں روپے کا سامان ملک میں آتا اور جاتا ہے۔ محنت مزدوری، دفتری کام، مشاورتی خدمات، بروکری، صنعت کاری، تعمیرات، ٹرانسپورٹ جیسے کتنے ہی ذرائع ہیں جہاں سے ہر شخص کو اس کی قابلیت اور صلاحیت کے مطابق روزگار میسر آ جاتا ہے۔ پھر پورے ملک سے روزگار کے متلاشی افراد ہیں جو مسلسل کراچی چلے آ رہے ہیں۔ اگر شہر کی صنعتیں چالو رہیں، تعلیم اور صحت کے شعبے اطمینان بخش کارکردگی دکھاتے رہیں امن وا مان کی صورتحال تسلی بخش ہو تو شہر کی زندگی استحکام سے آشنا ہو۔ لندن، پیرس، ہانگ کانگ اور کوالالمپور جیسے شہروں کی طرف لوگ آتے ہیں مگر انتظامیہ کی منصوبہ بندی شہر کے امن اور معاشی استحکام کو خطرے سے دوچار نہیں ہونے دیتی۔ پاکستان قائم ہوا تو کراچی ایک اوسط حجم کا ساحلی شہر تھا۔ پرامن، کاروباری اور جدید روایات کا مالک شہر۔ اس شہر میں سندھی، بلوچی، پختون، گلگتی، پنجابی اور کشمیری پہلے سے رہ رہے تھے۔ لاکھوں اردو بولنے والے مہاجرین کے آنے سے کراچی کی شہری ثقافت مزید گل رنگ اور خوشنما ہو گئی۔ یہاں پاکستان کے مختلف علاقوں میں کاروبار کرنے والی کمپنیوں نے دفتر کھول لئے۔ کھیلوں اور تفریح کی جدید سہولیات فراہم ہونے لگیں اور ساتھ ہی کراچی سیاسی سطح پر تعلیم یافتہ شہری طبقات کی آواز بن کر ابھرا۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء نے کراچی کو جمہوری راستے سے ہٹا کر ایسے لوگوں کے چنگل میں دے دیا جن کے لئے یہاں کے لوگ ایک منڈی کا درجہ رکھتے تھے۔ غریب ہو یا امیر سب کسی نہ کسی صورت بھتہ دیتے۔ ریاستی اداروں کی جگہ بھتہ خور تنظیمیں طاقت پکڑ گئیں۔ عوامی بہبود کا کوئی سرکاری منصوبہ شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جاتا۔ کھیلوں کے میدان قبضہ مافیا کے ہاتھ میں آئے تو نوجوانوں نے قتل و غارت، سٹریٹ کرائم اور بیکاری کو کھیل بنا لیا۔ اس شہر نے بلدیہ ٹائون فیکٹری میں سینکڑوں محنت کشوں کو جلائے جانے سے لے کر حکیم سعید جیسی انسان دوست شخصیت کے قتل تک اتنے سانحے دیکھے ہیں کہ ان کا شمار بھی ممکن نہیں رہا۔ کراچی کے مسائل کم ہونے میں نہیں آ رہے۔ جرائم اور بدامنی کے بعد اب کوڑا کرکٹ نئی مصیبت بن چکا ہے۔ آوارہ کتے راہ چلتے لوگوں کو کاٹ رہے ہیں۔ سڑکیں گڑھوں کی شکل اختیار کر گئی ہیں۔ بارش ہوتی ہے تو شہر کی صورت سمندر جیسی ہو جاتی ہے۔ ٹریفک کا اژدھام ہے جسے کنٹرول کرنے اور منظم کرنے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ صحت و صفائی جیسے معاملات ضلعی حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن بیشتر مسائل کو حل کرنے کا اختیار اور وسائل کی فراہمی صوبائی حکومت کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔ سندھ میں 2008 ء کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی نے حکومت بنائی۔ 2013ء کے عام انتخابات ہوئے تو صوبائی حکومت پیپلز پارٹی کی بنی۔ 2018ء کے انتخابات کے بعد بھی صوبائی حکومت پیپلز پارٹی کی ہے۔ سندھ کے سارے صوبے کی حالت یوں تو قابل رحم ہے مگر کراچی چونکہ بڑا شہر ہے اس لئے زیادہ دیر تک کوئی مسئلہ حل نہ ہو سکے تو ڈیڑھ کروڑ کی آبادی کا دبائو اسے مزید سنگین بنا دیتا ہے۔ تین انتخابات میں مسلسل کامیاب ہونے والی پیپلز پارٹی کی کمزور گورننس کے باعث کراچی میں اس کا مینڈیٹ سکڑ رہا ہے۔ تحریک انصاف اور ایم کیو ایم اس شہر کی حالت بہتر کرنا چاہتی ہیں۔ دونوں جماعتیں وفاق میں اتحادی ہیں۔ اپنے ووٹرز کی درست نمائندگی کے لئے دونوں اتحادی جماعتوں کی خواہش ہے کہ وہ کراچی کو کوڑے سے پاک کریں۔ یہاں کے لوگوں کو جدید اور آرام دہ ٹرانسپورٹ سہولیات فراہم کریں، ہسپتالوں میں علاج معالجے کی سہولیات بہتر بنائیں لیکن آئینی پابندیاں وفاق کو ایک حد سے زیادہ فعال ہونے کی اجازت نہیں دیتیں۔ دوسری طرف صوبائی حکومت ہے جس کی کارکردگی پر کئی بڑے بڑے سوالیہ نشان لگے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ صوبے کے چیف ایگزیکٹو ہونے کے ناتے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنے کے لئے وزیراعظم کا استقبال تک کرنے سے کترا رہے ہیں۔ صوبائی حکومت نے کراچی کو بری طرح نظر انداز کرکے اسے اپنی قیادت پر کرپشن کے مقدمات سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ وزیراعظم تنازع کشمیر، معیشت کی بحالی اور خطے کی سلامتی سے متعلق معاملات میں خاصے مصروف ہیں تاہم وہ بارہا کراچی کے مسائل پر اپنی فکرمندی کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ حالیہ دورے کے موقع پر ان کی جانب سے برسوں سے التوا کے شکار گرین لائن منصوبے کے لئے فنڈز جاری کرنے کا اعلان خوش آئند ہے تاہم اس ضمن میں لاہور کی اورنج ٹرین اور پشاور کی ریپڈ بس منصوبے جیسی تاخیر ہوئی تو وفاق کی کراچی کیلئے دردمندی بیکار جا سکتی ہے۔ کراچی میں ہر نسل، رنگ اور علاقے کے پاکستانی رہتے ہیں۔ یہ منی پاکستان ہے اس کے مسائل حل کرنے کیلئے تمام اداروں اور سیاستدانوں کو خلوص نیت سے کردار ادا کرنا چاہئے۔