محرم الحرام اکسٹھ ہجری میں کربلا کے مقام پر پیش آنے والے واقعہ کی متعدد تشریحات کی جاچکی ہیں اور کی جاتی رہیں گی۔ اسلامی تاریخ کا یہ دلدوز معرکہ اپنی اہمیت کے اعتبار سے اتنا اہم اور ایسی گہرائی کا حامل ہے کہ ہر عہد کربلا کی ایک نئی معنویت دریافت کرتا ہے۔ دور حاضر میں ہر مذہب‘ نسل اور قوم کا کچھ بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ اور احترام پر اتفاق ہے۔ آج سے ستّر برس پہلے دو بڑی ہولناک عالمی جنگوں میں کروڑوں افراد لقمہ اجل بن چکے تھے۔ انسانی ضمیر جنگوں کی تباہ کاریوں تلے سسکیاں لے رہا تھا۔ مغربی اقوام نے تحریک چلائی کہ ایسا عالمی منشور بنایا جائے کہ ان جنگوں ایسی تباہ کاریاں دوبارہ واقع نہ ہوں۔کوئی ہٹلرایسا حکمران نسلی یا سیاسی اختلاف کی بنا پر کسی ایک گروہ انسانی کی نسل کشی نہ کرسکے‘ دنیا کو آگ و خون میں نہ جھونک سکے۔ دنیا میں پائیدار امن قائم کرنے کی خاطر تمام اقوام چند بنیادی اقدار کی پاسداری پر متفق ہوجائیں۔ مختلف قوموں‘ تہذیبوں اور مذاہب کے لوگوں سے طویل مشاورت کے بعد انسانی حقوق کا اعلامیہ تیار کیا گیا جس پر اقوام متحدہ کے ارکان ممالک نے دستخط کیے۔ اس اعلامیہ میں انسانی جان کے تحفظ اور اس کے احترام کو ہر فرد کا بنیادی حق تسلیم کیا گیا۔ اس عالمی منشور کی ایک اہم شق اظہار رائے اور سیاسی اختلاف رکھنے کی آزادی ہے‘ ہر شخص کو بنیادی حق حاصل ہے کہ وہ اپنے ضمیر کے مطابق جو سیاسی نظریہ چاہے اختیار کرے اور حکومت سے اختلاف کا اظہار کرسکتا ہے۔گو اس اعلامیہ کی وقتاً فوقتاً خلاف ورزیاں بھی ہوتی رہی ہیں جیسا کہ موجودہ مقبوضہ کشمیر اور فلسطین میں ہورہی ہیں لیکن عمومی طور پر عالمی برادری کوشش کرتی ہے کہ بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ جہاں ان حقوق کی پامالی ہو اس پر دنیا کے بیشتر ممالک اپنی آواز اُٹھاتے ہیں۔ موجودہ دور میں ضمیر کی آزادی کی بات کرنا‘ سیاسی اختلاف رکھنا اور اسکے لیے تحریک چلانا ایک معمول کی بات ہے لیکن پندرہ سو برس پہلے جب حکومت وقت کی آمریت اور جبر ایک تسلیم شدہ امر تھا حضرت امام حسینؑ نے انتہائی جرأت سے یزید کی حکومت کو تسلیم کرنے اور تمام تر دباو کے باوجود اسکی بیعت کرنے سے انکار کیا۔ اس زمانے میں بیعت کا مطلب جدید اصطلاح میں کسی حکمران کو اعتماد کا ووٹ دینا تھا‘ اُس سے حلف وفاداری کرنا تھا۔ یزید کی حکومت مسلمان علاقوں پر قائم ہوچکی تھی‘ اسکے پاس وافر مالی اور عسکری وسائل تھے۔ مسلمانوں کی اکثریت حکومت سے تعاون کرنے پر مائل تھی یا اسکے سامنے خاموش تھی۔ امام حسینؑ کے بیعت نہ کرنے سے اس کی حکومت کو وقتی طور پر کوئی خطرہ نہیں تھا۔ یزید کے والد اور پیش رو امیر ِشام نے خاندان اہل بیت سے صلح نامہ پر دستخط کیے تھے اور اُن سے بیعت کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔ لیکن یزید نے امام حسینؑ سے بیعت لینے پر اصرار کیا کیونکہ اسکی حکومت اخلاقی جواز اور رضا کارانہ عوامی تائید سے محروم تھی۔ صرف امام حسینؑ کی بیعت ہی سے یزید کی حکومت کو اخلاقی اور سیاسی استحکام مل سکتا تھا۔ امام حسینؑ نے یزید سے حلف وفاداری کرنے اور اسے اعتماد کا ووٹ دینے سے صریحاً انکار کیا۔ وجوہات سے قطع نظر امام عالی مقامؑ اپنے اختلاف پر جم گئے۔ تاہم آپ کا راستہ اور طریق کار امن اور صلح جوئی کا تھا۔ آپ نے کربلا کے میدان میں یزیدی سپاہ کے سامنے مصالحت کی مختلف تجاویز رکھیں۔ ایک یہ پیش کش بھی کی کہ اُن سے بیعت کا مطالبہ نہ کیا جائے تو وہ عرب کی حدود سے باہر قبائلی علاقوں میں جا کر رہائش پذیر ہوجائیں گے اور تبلیغ دین میں مصروف رہیں گے۔ انہوں نے بیعت سے کم امن قائم رکھنے کی ہر کوشش کی لیکن یزیدی سپاہ حلف وفاداری کے مطالبہ پر مُصر رہی۔ امام حسینؑ کے پاس یزید کا مطالبہ ماننے کے کئی بہانے ہوسکتے تھے۔ مثلاّ یزید کے مقابلہ میں امام حسینؑ کا کُھل کر ساتھ دینے والوں کی تعداد بہت کم تھی لیکن اس قلت سے امام کے پائے استقامت میں لغزش نہ آئی۔ آپ اس عظیم پیغمبرانہ روایت کے امین تھے جس میں حق اور سچائی کی دعوت دینے والے ساتھیوں کی تعداد پر بھروسہ نہیں کرتے۔ انہیں معلوم تھا کہ ایک داعی کی کامیابی یہ نہیں کہ اسکی آواز پر لبیک کہنے والے زیادہ ہوں بلکہ اس کی فتح یہ ہے کہ وہ اپنے ضمیر کے مطابق دشوار راستوں پر چلتے ہوئے اپنا فریضہ ادا کردے۔ عرب کے پسماندہ‘ قبائلی معاشرہ میں جہاں طاقت کی زبان کا چلن تھا امام حسینؑ کا طاقتور حکمران کو انکار کرنا اور اس پرڈٹ جانا ایک بہت غیرمعمولی واقعہ تھا۔ امامؑ کے سامنے ہر وہ چیز خطرہ میں تھی جو کسی انسان کو بہت عزیز ہوتی ہے۔ آپکو معلوم تھا کہ جنگ میں آپکی اولاد‘ عزیز رشتے دار اور قریبی دوستوں کو قتل کردیا جائے گا اور اسکے بعد خانوادہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقدس خواتین اور بچے ظالم‘ شقی القلب یزیدی لشکر کے رحم و کرم پر ہوں گے‘ اُن سے توہین آمیز سلوک کیا جائے گا‘ انہیں اذیت ناک قید میں رکھا جائے گا۔ لیکن آپ نے اپنی آزادی اور اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ درحقیقت‘ امام حسینؑ کی ثابت قدمی نے ان کے مخالفین کی اخلاقی پستی اور بربریت کو ہمیشہ کے لئے بے نقاب کردیا۔ وہ متحارب فریق پر پانی بند کرنے‘ جنگ کے بعد لاشوں کو پائمال کرنے‘ متحارب فریق کے خیموں کوآگ لگانے‘ جنگی اسیروں سے بدسلوکی ایسے جنگی جرائم کے مرتکب ہوئے۔ امام حسین ؑ کی قربانی نے ہمیشہ کے لئے لوگوں پر ظاہر کردیا کہ یزید اور اسکے ساتھی بنیادی انسانی اقدار سے محروم تھے اور اسلام کے روشن اصولوں سے منحرف ہو چکے تھے۔ وہ بلاشبہ امام عالی مقامؑ کی بیعت لینے کے مستحق نہ تھے۔ سید الشہداؑ نے کربلا کے میدان میں جو قربانیاں دیں اس کا ایک بڑا نتیجہ یہ نکلا کہ اس واقعہ کے بعد کسی اموی حکمران نے اہل بیت کرامؑ سے بیعت کرنے کا مطالبہ نہیں کیا۔ امام حسینؑ کے بیٹے امام زین العابدینؑ اور ان کی اولاد در اولاد سے کسی اُموی یا عباسی حکمران نے زور زبردستی حلف وفاداری لینے کی سعی نہیں کی۔ یوں مسلمانوں کی مملکت میں ابتدائی دور سے ہی سیاسی اختلاف رائے اورحریت فکر کا بنیادی حق عملی طور پر رائج ہوگیا۔ تیرہ سو سال بعد اقوام عالم نے اِسے باضابطہ طور پر بنیادی انسانی حق تسلیم کیا۔