لاہور(رپورٹ: قاضی ندیم اقبال)کرتار پور راہداری کے معاملات میں مثبت پیشرفت ہوئی ہے کہ ویزا کے بجائے راہداری کارڈپرروزانہ کی بنیاد پر 5ہزار سکھ یاتریوں کی پاکستان آمد پر دونوں ممالک کے درمیان اتفاق رائے ہوگیا ہے ۔تاہم یاترا فیس اور پروٹوکول کے دیگر خدوخال آئندہ میٹنگ میں طے ہونے کی قوی توقع ہے ۔معتبر اور مصدقہ ذرائع کے مطابق کرتار پور راہداری کا سول ورکس فنشنگ کے مراحل میں داخل ہو گیا جو کہ شیڈول کے مطابق مکمل ہو جائیگا۔ کرتار پور راہداری کے حوالے سے پاکستان اور بھارت کے مابین یہ بات تقریباً فائنل ہو چکی ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر 5ہزار بھارتی سکھ یاتری پاکستان آئینگے ۔ایک روز کیلئے پاکستان آنیوالے یاتریوں کو ویزا جاری نہیں کیا جائیگا۔ ایک مخصوص مقام پر بھارتی شہریوں سے انکے پاسپورٹس وصول کر کے انہیں خصوصی بسوں میں سوار کر کے راہداری کارڈ فراہم کر دیا جائیگا۔یاتریوں کی کرتار پور گوردوارہ آمد اور واپسی انہی بسوں کے ذریعے ہوگی۔بھارتی یاتریوں کی آمد اذان فجر کیساتھ ہی شروع ہو جائیگی ، دوپہردو بجے کے بعد کوئی بھارتی شہری نہیں لیا جائیگا۔ بھارتی سکھ یاتریوں کو گورداوارہ کرتار پور کی حدود سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہو گی اور وہ اپنی مذہبی رسومات ادا کرنے کے بعد واپس روانہ ہو جائینگے ۔ بھارتی یاتریوں کی واپسی سورج غروب ہونے سے قبل ہر صورت ہوگی۔ واپسی پر ان سے راہداری کارڈ واپس لیکر پاسپورٹ واپس کر دیا جائیگا۔ذرائع کے مطابق بھارتی شہریوں سے فی کس 20ڈالر یاترا فیس لینے کی تجویز زیر غور ہے مگر ابھی فائنل نہیں ہوئی ۔ اس بارے میں حکومت پاکستان اور بھارتی حکومت کے مابین معاملات آنے والی ٹیکنیکل کمیٹی کی میٹنگ میں طے ہونا باقی ہیں۔جبکہ دیگر پروٹوکول خدوخال کے حوالے سے بھی پاک بھارت معاملات مثبت انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ بھارت سے آنیوالے سکھ یاتریوں کے قیام کے حوالے سے تمام تر سہولیات سے مزین ہالز گوردوارہ کرتار پور میں بنائے جا رہے ہیں۔ بھارتی سکھ یاتری کرتار پور کی حدود سے باہر نہیں جا سکیں گے ۔ تاہم حکومت پاکستان دوسرے مرحلے میں کرتار پور کے نواح میں فائیو سٹار اور سیون سٹار ہوٹلز بنانے کا ارادہ رکھتی ہے ۔ جہاں ماسوائے بھارتی یاتریوں کے امریکہ، لندن، کینیڈا اور دیگر ممالک سے آنیوالے سکھ یاتری قیام بھی کر سکیں گے ۔ مستقبل کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے پنجاب حکومت مجموعی طور پر 1493 ایکڑ رقبہ خرید رہی ہے ۔ تاہم ابھی یہ طے ہونا باقی ہے کہ مذکورہ رقبہ کی ملکیت (رجسٹری) وزارت مذہبی امور کے نام پر ہو گی یا متروکہ وقف املاک بورڈ کے نام پر زمین خریدی جائیگی، اس ضمن میں وفاقی اور پنجاب حکومت کے مابین معاملات زیر بحث ہیں۔