پاکستان اور بھارت نے مذاکرات میں کرتارپور راہداری کو آپریشنل کرنے کے لیے کام کی رفتار بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔ فریقین کے مابین خوشگوار ماحول میں مثبت پیشرفت سامنے آئی ہے۔کرتارپور راہداری پر پاک بھارت مذاکرات کے بعد مشترکہ متفقہ اعلامیہ کا اجراء دو بڑی ایٹمی طاقتوں کے درمیان خوش آئند ہے۔ پاکستان شروع سے ہی مسائل بات چیت کے ذریعے حل کرنے کا خواہاں ہے لیکن بھارت ہمیشہ اکٹھے بیٹھنے سے بھاگتا رہا ہے۔ خطے کی کشیدہ صورتحال کے بعد دو ممالک کے وفود اگر کرتارپور راہداری پر بات چیت کر سکتے ہیں تو پھر کشمیر اور پانی سمیت دیگر ایشوز پر کیوں نہیں؟ مودی سرکار نے اپریل سے شروع ہونے والے الیکشن میں سکھ ووٹرز کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے کرتارپور راہداری پر مذاکراتی کارڈ کھیلا ہے انہیں اپنے منصوبے میں کامیابی ملتی ہے یا نہیں لیکن سرحدوں پر منڈلاتے خطرات کے بادل وقتی طور پر چھٹ گئے ہیںاگر بھارت سرکار اسی طرح غربت کے خاتمے،کشمیریوں کے حق خود ارادیت، سندھ طاس معاہدے سمیت دیگر ایشوز پر آگے بڑھتی ہے تو یقینی طور پر یہ خطہ امن و امان کا گہوارہ بن سکتا ہے لیکن انتہا پسندوں کی عقل پر پردہ پڑا ہوا ہے، وہ مسائل صرف طاقت کے زور پر حل کرنے کے خواہاں ہیں،جس کے باعث مسائل بگڑتے جا رہے ہیں۔ پاکستان نے بھارتی وفد کی پورے ہفتے کے لیے روزانہ 5ہزار یاتریوں کی آمد کے مطالبہ کو تسلیم کر لیا ہے۔ جبکہ دیگر امور پر بھی اتفاق رائے پیدا ہوا ہے۔بہتر ہو گا بھارتی سرکار پاکستان کی طرح کھلے دل سے دیگر ایشوز پر مل بیٹھے تا کہ خطے کے مسائل باہمی افہام و تفہیم سے حل کیے جا سکیں۔