دنیا کے اختتام سے پہلے برپا ہونے والی بڑی عالمی جنگ جس کی جانب اس وقت یہ پوری انسانیت انتہائی برق رفتاری سے رواں دواں ہے، اس کے محل وقوع، اور انجام کار پر تینوں ابراہیمی مذاہب، اسلام، عیسائیت اور یہودیت بہت حد تک متفق ہیں۔ اس جنگ کا نکتہ آخر، سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا اس دنیا میں واپس آکر بیت المقدس یعنی یروشلم کے شہر سے ایک عالمی حکومت کا قیام ہے۔ یہودی انہیں عبرانی زبان میں مشیاچ اور موشیاچ (Mashiach, Moshiach) کہتے ہیں اور عیسائی انہیں مسیح ناصری (Jesus of Nazareth) کہہ کر پکارتے ہیں۔ احادیث کے ذخیرے میں موجود پیشگوئیوں کے علاوہ قرآن پاک کا یہ اعلان کہ ''اور اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہیں جو عیسیٰؑ کی موت سے پہلے ان پر ضرور بالضرور ایمان نہ لائے (النساء 159)۔ یہ آیت اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کی موت واقع نہیں ہوئی اور دوسرا یہ اعلان بھی ہے کہ ابھی وہ وقت آنا اور وہ واقعہ ہونا ہے جب تمام اہل کتاب یعنی یہودی ان پر ایمان لے آئیں۔ کیونکہ باقی دو مذاہب کے لوگ تو سیدنا عیسیٰ ؑکی نبوت پر ایمان رکھتے ہیں۔ سیدنا عیسیٰؑ کے آخری معرکے کا میدان جنگ شام ہے اور شام میں گذشتہ سو سال سے اکثریتی طور پر دو مذاہب آباد ہیں۔ اسلام اور یہودیت۔ شام آج کی قومی ریاست کو نہیں کہتے بلکہ دراصل اس علاقے کا نام ہے جس میں یروشلم سے لے کر دریائے فرات تک ایک وسیع سرزمین شامل ہے۔ مسلمان اور یہودی گزشتہ ستر سال سے یہاں ایک دوسرے سے الجھتے، لڑتے اور جنگیں کرتے چلے آرہے ہیں۔ یہی دونوں کردار ہیں جو سیدنا عیسیٰؑ کی آمد سے پہلے اور ان کی آمد پر اختتام پذیر ہونے والی بڑی جنگ میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن ایک کمال سازش سے ایک کردار یعنی یہودیوںکو بحیثیت قوم اور امت متحد و متفق رکھا گیا اور اسے عالمی سطح پر تسلیم بھی کیا گیاہے۔ دو نومبر 1917ء کو ملکہ برطانیہ کی جانب سے برطانوی وزیر خارجہ بالفور کے لکھے جانے والے خط میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ پوری دنیا میں بسنے والے یہودی ایک قوم تصور ہوں گے اور انہیں ان کی ارض مقدس میں آباد ہونے کا پورا حق ہے اور اس کے لیے تاج برطانیہ پوری کوشش کرے گا۔ اس خط کو دنیا اعلان بالفور (Balfour Declaration) کے نام سے یاد کرتی ہے۔ یہ وہ تسلیم شدہ عالمی دستاویز ہے جسکے تحت یہودی، فرانسیسی ہو یا برطانوی، جرمن ہو یا روسی،کوئی بھی زبان بولے یا کسی بھی علاقے میں پیدا، وہ ہو ایک یہودی قوم کا حصہ تصور ہوگا اور اسے اپنی ارض مقدس فلسطین و شام میں رہنے کا پورا حق ہے۔ لیکن اس کے مقابلے میں دوسری قوم یا دوسری امت یعنی مسلمان، انہیں رنگ، نسل، زبان اور علاقے کی بنیاد پر قومی ریاستوں میں زبردستی بانٹ دیا گیا، تاکہ اگر کل یہ بڑی جنگ برپا ہوتی ہے تو اسوقت مسلمان بحیثیت امت اور بحیثیت قوم متحد نہ ہوں اور ایک دوسرے سے لڑتے لڑتے ہلکان ہو چکے ہوں۔ اسی سازش کے تحت عدن سے لے کر عرفہ تک پورا خطے کا نقشہ میز پر رکھ کر تقسیم کیا گیا ہے۔ اس علاقے میں نسلی اعتبار سے مشترک اور ثقافتی اعتبار سے اپنی صدیوں پرانی روایات پر آج تک قائم ہونے کے ساتھ ساتھ اسلام پر مر مٹنے کی درخشاں تاریخ رکھنے والا ایک ہی بڑا گروہ کردوں کا ہے اور یہ ساڑھے تین کروڑ افراد پر مشتمل ہے۔ قومیت کے نام پر گذشتہ ایک سو سالوں میں سب سے زیادہ فریب اسی قوم نے کھائے ہیں۔ اسلام سے پہلے کی سلطنتیں ہو یا اسلام کے بعد بننے والی حکومتیں سب آج تک انہی پر چڑھ دوڑتے رہے ہیں۔ ایران کے صفوی، ترکی کے عثمانی، شام کے نصیری، علوی، عراق کے بعثی، کون ہے جس نے کردوں کا خون نہیں بہایا اور کونسی عالمی طاقت ہے جس نے کردوں کو قومیت کا فریب دے کر انہیں تباہ و برباد نہیں کیا۔ اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ علاقہ جہاں آخری جنگ کا سب سے بڑا میدان سجنا ہے، وہاں اکثریتی طور پر کرد ہی آباد ہیں۔ رسول اکرم ﷺ نے اس جنگ کا محل وقوع تک بتا دیا ہے '' اہل روم اعماق یا دابق کے مقام پر پہنچ جائیں گے اور ان کی طرف سے ایک لشکر مدینہ سے پیش قدمی کرے گا جو اس زمانے کے بہترین لوگوں میں سے ہوگا (مسلم، ابن حبان)۔ اعماق اور دابق ان دو جگہوں کے نام ہیں جو حلب کے سامنے ایک وسیع و عریض میدان میں واقع ہیں جہاں اس وقت کرد آباد ہیں اور ان کی ترکی اور شام کی حکومت سے بیک وقت جنگ جاری ہے۔ دابق حلب سے 45 کلومیٹر ہے اور ترکی کی سرحد وہاں سے صرف 14 کلومیٹر ہے۔ اسی مقام پر اہل روم (مغرب) اسی جھنڈوں تلے حملہ آور ہوں گے اور ہر جھنڈے کے نیچے بارہ ہزار افراد ہوں گے یعنی نو لاکھ ساٹھ ہزار فوجی۔ اتنی بڑی تعداد میں انفنٹری آج تک بیک وقت کسی جنگ میں استعمال نہیں ہوئی۔ اس بڑی جنگ میں رسول اکرم ﷺ نے مسلمانوں کی پناہ گاہ بھی بتا دی ہے، فرمایا '' مسلمانوں کے لیے تین پناہ گاہیں ہیں، ملحمۃ الکبری یا جنگ عظیم جو اعماق (انطاکیہ) میں ہوگی اس میں پناہ گاہ دمشق ہے، دجال کے وقت پناہ گاہ بیت المقدس اور یاجوج ماجوج کے وقت کوہ طور (السنن الوردہ الفتن)۔ دمشق میں پناہ گاہ کے بارے میں اس لیے فرمایا کیونکہ اس جنگ میں امام مہدی کا ہیڈکوارٹر غوطہ میں ہوگا جو دمشق سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ آج یہی سرزمین جنگ کے شعلوں سے گرم ہے۔ تازہ ترین معرکہ جو ترکی اور کردوں کے درمیان برپا ہے وہ بھی صرف قومیت کی بنیاد پر لڑا جا رہا ہے۔ جس کا آغاز ایک سازش کے بے نقاب ہونے یا جان بوجھ کر بے نقاب کرنے سے ہوا، تاکہ لڑائی کی آگ بھڑک اٹھے۔ کردوں کی فوج کا کمانڈر فرحت عابدی سا ہین جسے''جنرل مظلوم عابدی''، کہا جاتا ہے اسکی امریکی پینٹاگون اور دفتر خارجہ کے افسران سے ایک گفتگو منظرعام پر لائی گئی جس میں وہ کہتا ہے، ''کیا تم امریکی یہ منصوبہ بنا رہے ہو کہ ترکی کو شام کے علاقے میں تیس کلومیٹر علاقہ قبضہ کروادیا جائے تاکہ ترکی وہاں شامی عرب مہاجروں کو آباد کر سکے۔ اگر ایسا ہے تو پھر ہم امریکہ کی بجائے روس سے مدد مانگ لیں گے۔ کیونکہ یہ ہمارے علاقے اور ہمارے شہر ہیں''۔ اس گفتگو کے منظر عام پر آنے کے بعد ترکی نے اس علاقے میں اپنی فوجیں اتار دیں اور جنگ شروع ہو گئی۔ جس کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کا وہ دھمکی آمیز خط ہے کہ جس میں اس نے اردوان کو کہا ہے وہ فورا جنرل مظلوم سے مذاکرات کرے ورنہ وہ آخری حد تک جائے گا۔ اس جنگ میں ایک جانب ترکی ہے جسے علاقائی سرحدکے تصور پر تقسیم کیا گیا ہے اوراسے عالمی سطح پر ریاست تسلیم کیا گیا ہے جبکہ دوسری جانب کرد ہیں جنہیں نسلی بنیاد پر متحد کیا گیا اور انہیں صرف نسلی بنیاد پر حکومت اور آزاد ملک کا خواب دکھا کر لڑوایا گیا۔ دونوں اس فتنہ وطنیت و قومیت کا شکار ہیں جسے اقبال نے ''غارت گر کاشانہء دین نبوی'' قرار دیا ہے۔ ان میں کوئی بھی اللہ کے لیے لڑ رہا ہے نہ جہاد فی سبیل اللہ کر رہا ہے۔ یہ اس خطے کو تباہ اور وہاں بسنے والوں کو برباد کرنے کا منصوبہ ہے جہاں آخری معرکہ برپا ہونا ہے۔ (ختم شد)