اس وقت جب کہ باغوں کا شہر لاہور تبدیلی حکومت کے زیر اثر کوڑے کے ڈھیروں میں بدل رہا تھا‘ روبن اپنی کرسمس کے روز ہی ایک بس سٹاپ کی صفائیاں کرنے میں مصروف تھا۔وہ ایک بس سٹاپ پر جہاں سے راولپنڈی اور دیگر شہروں کی لگژری کوچز چلتی ہیں۔ صفائی پر مامور تھا اور اس کے بے حس مالکان نے اسے اس کے تہوار کے روز ہی چھٹی نہیں دی تھی۔ دانیال کی ایک عادت ہے کہ وہ اکثر پبلک سروس پر مامور اپنے فرائض سرانجام دیتے اہلکاروں کو متوجہ کر کے ان کو ویو کرتا ہے ان کا شکریہ ادا کرتا ہے۔ مثلاً ٹریفک وارڈنز سکیورٹی گارڈز ‘ ٹول پلازہ پر ڈیوٹی دیتے لوگ اس کی توجہ کا خصوصی مرکز ہوتے ہیں پھر اس کی خواہش یہ بھی ہوتی ہے کہ جواباً وہ بھی مسکرائیں، اسے بھی ہاتھ ہلا کر رسپانس دیں۔گرمیوں کے موسم میں کبھی کبھی تو ٹھنڈا جوس بھی ٹول پلازہ پر مامور افراد کو پیش کر کے انہیں حیران کرتا ہے۔ اس روز بھی دانیال نے روبن کو صفائی کرتے دیکھا تو اسے مسکرا کر گڈ بوائے کہا۔ سترہ اٹھارہ سال کا لڑکا اس توجہ پر حیران مسکرانے لگا۔ پھر بولا۔ ہم جتنی بھی صفائی کر لیں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ لوگ ہماری صفائی کو صفائی رہنے ہی نہیں دیتے۔ ڈسٹ بن میں خالی ریپر ڈالنے کی بجائے ادھر ادھر پھینکتے ہیں اب ایک صفائی والے کو میں نے پاکستانی ہم وطنوں کی اس قومی بیماری پر بات کرتے دیکھا تو حیران ہو کر پوچھا۔ تمہارا نام کیا ہے۔ پڑھے لکھے لگتے ہو۔ اس کے بات کرنے کا طریقہ ہی ایسا تھا۔ تہذیب اور شائستگی والا۔ بولا میرا نام روبن ہے۔ہے۔ جی سات آٹھ کلاسیں پڑھا ہوا ہوں۔ پڑھنے کا شوق تھا مگر پھر گھر کے حالات بُرے تھے تو سکول چھوڑ دیا‘‘ روبن آج تو کرسمس ہے نا تمہاری ؟ میں نے پوچھا جی باجی‘‘ ! تم یہاں صفائیاں کر رہے ہو آج چھٹی نہیں ملی تمہیں۔؟ جی ہمیں آج چھٹی نہیں ملی تین دن کے بعد اکٹھی دو چھٹیاں ملیں گی۔ سچی بات ہے۔ مجھے اس وقت روبن پر رحم سا آیا کہ کرسمس اس کا تہوار ہے۔ آج کے دن چھٹی کرنا تو اس کا حق تھا اور پھر اس کی عمر دیکھو‘ ابھی سترہ اٹھارہ سال ہے۔ ایسی عمر میں تو ان تہواروں کو منانے کا شوق بہت زیادہ ہوتا ہے۔ میں نے کچھ پیسے نکال کر دانیال کو دیے کہ بیٹا یہ روبن کو دو یہ اس کی کرسمس کی عیدی ہے۔ دانیال کے ہاتھ سے ایسے کام کروانے کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنے ہاتھ سے دینا سیکھے اور یہ بھی سیکھے کہ ہماری زندگیوں کو آسان بنانے والے یہ کردار اپنی اپنی جگہ بہت اہم اور قابل عزت ہیں ۔ ان سے اچھا بول کر ان کے کام کی تعریف کر کے ہمیں یہ احساس انہیں دلانا چاہیے۔ کرسمس کی یہ غیر متوقع عیدی روبن کے لئے خوشگوار سرپرائز تھا۔اور میرے لئے حیرانی یہ تھی کہ وہ اپنے تہوار پر بھی۔ اس شہر کو صاف کرنے میں اپنا حصہ ادا کر رہا ہے جہاں کی 274یونین کونسلیں خاکروبوں کو تنخواہ نہ دینے کی وجہ سے کوڑے کے ڈھیر میں بدل رہی ہیں۔ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے ساتھ ترک کمپنی کے معاہدے کا خاتمہ اس شہر میں صفائی کے بدترین بحران کو جنم دے رہا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ ادارہ بھی وہی ہے ‘ صفائی والا عملہ بھی وہی ہے لیکن صرف ایک حکومت کے بدلنے سے اس کی کارکردگی خراب ہو چکی ہے۔ پہلے انہی کے ورکرز کو ہم نے ہمیشہ مستعدی سے سڑکوں کی صفائی میں مصروف دیکھا۔ گھر گھر نیلے رنگ کے گاربیج بیگ(garbag bag)بھی کوڑا ڈالنے کے لئے دیے جاتے تھے۔ سڑکوں پر کوڑے کے ڈھیر نظر نہیں آتے اگر کبھی کوتاہی یا کمی بیشی ہوتی تو ان کی ہیلپ لائن پر یا پھر ڈائریکٹ آفس میں شکایت درج کروا دیتے اس کا رسپانس بھی فوری آتا تھا۔ لیکن اب وہی لوگ ہیں، وہی ادارہ ہے لیکن ان سے کام نہیں لیا جا رہا۔ ہم جیسے لوگ کراچی کو کچراچی کہتے تھے کہ کچرے کا ڈھیر بن چکا ہے اب وہی صورت حال لاہور میں ہو رہی ہے۔ترک کمپنی کے ساتھ یہ معاہدہ 2020ء میں ختم ہو رہا ہے۔ ترک کمپنی کے تعاون سے لاہور شہر میں صفائی کا بہتر انتظام رہا ہے۔ لیکن اب جبکہ معاہدہ بھی اگلے برس ختم ہو رہا ہے اور تنخواہوں کی ادائیگیاں بھی خاکروبوں کو نہیں ہوتیں تو انہوں نے احتجاجاً کام کرنا چھوڑ دیا۔ جس سے شہر میں جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیر جمع ہونا شروع ہو گئے۔ ایک دن اگر شہر کا کوڑا ‘ خاکروب ٹھکانے نہ لگائیں تو یہاں سڑکوں کے کنارے جا بہ جا کوڑے کی ڈھیریاں بننے لگتی ہیں۔ یہ کریڈٹ شہباز حکومت کو دینا پڑتا ہے کہ ان کے دور میں صفائی کا انتظام ایک ڈسپلن سے چلتا رہا ہے۔شہر کی سڑکوں پر لگائے ہوئے آرائشی پودوں کو بھی پابندی سے پانی دیا جاتا تھا جس کی وجہ سے ٹریفک کے بہائو اور رش میں بھی شاہراہوں کے کناروں پر لگے پھول اور سبزہ ماحول میں خوب صورتی کا تاثر پیدا کرتے۔ اب ذرا فیروز پور روڈ اور لوئر مال کی طرف نکل جائیں تو عمودی گملوں میں لگائے سڑک کے کنارے پودے پانی نہ ملنے سے بالکل مرجھا چکے ہیں۔ یہ حکومت کی انتہائی نالائقی ہے کہ بنی بنائی چیزوں میں اپنی نااہلی کی وجہ سے بگاڑ پیدا کر رہے ہیں۔ ترک کمپنی کے ساتھ معاہدہ اگر ختم ہو رہا ہے تو صفائی کا اس معاہدے کے ختم ہونے سے پہلے ہی بہتر انتظام کر لینا چاہیے تھا اور تو اور اس کمپنی کو 3ارب پنجاب حکومت سے ادا کرنے ہیں جس میں سے ابھی صرف ایک ارب کی ادائیگی ہوئی ہے جس کی وجہ سے خاکروبوں کو کئی ماہ کی تنخواہیں نہیں ملیں تو انہوں نے احتجاجاً کام کرنا چھوڑ دیا۔ اب تو خیر کرسمس بھی گزر گئی مگر زندگی کی ضرورتیں تو ویسے ہی منہ کھولے کھڑی ہیں۔ احساس پروگرام شروع کرنے والے کچھ تو ان غربا کا احساس کریں۔ جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیر صفائی کا بنا بنایا نظام تلپٹ ہوتا۔ ایسے لگتا ہے جیسے پنجاب لاوارث ہے اور یہاں حکومت نام کی شے کا کوئی وجود نہیں۔ اگر ہم ذرا سا بھی حسن ظن رکھتے تو یہ درخواست ضرور کرتے کہ نمبر ایک ۔یہ جو روبن جیسے لوگ کرسمس پر بھی صفائی کرتے ہیں انہیں کم از کم ایک روز کی تہوار کی چھٹی ضرور دے دیا کریں۔ ہمدردی اور انسانیت کے نام پر۔ نمبر 2۔دوسری درخواست ہم یہ کرتے کہ خدا کے لئے باغوں کے شہر کو کوڑے کے ڈھیر میں بدلنے سے پہلے صفائی کا کوئی خاطر خواہ بندوبست کر لیں اور تیسری درخواست یہ ہوتی کہ سڑک کے کنارے عمودی گملوں میں لگے پودوں کو پانی ضرور دیا کریں۔ مرجھائے ہوئے پودے تبدیلی سرکار سے شکوہ کناں ہیں: ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ