پختونخوا کے ایک صوبائی وزیر کو بظاہر کرپشن کے الزام میں برطرف کر دیا گیا۔ بظاہر اس لیے کہ سنا ہے، معاملہ کچھ اور ہے یعنی وزیر اعلیٰ کی پسند نا پسند کا ہے۔ خیر، معاملہ کچھ اور نہ ہوا اور کرپشن ہی کا ہوا تو جلد ہی نہ صرف موصوف کی وزارت بحال ہو جائے گی بلکہ پہلے سے بہتر عہدہ ملے گا۔ ’’تاریخ دو سالہ‘‘ یہی بتاتی ہے۔ ایک وزیر ہوا بازی ہیں ان کے خلاف بھی کرپشن کے حوالے سے تحقیقات ہو رہی ہیں۔ ثابت نہ ہوئی تو پتہ نہیں کیا ہو گا، ثابت ہو گئی تو انہیں بھی بہتر وزارت مل جائے گی۔ ویسے بھی انہوں نے پی آئی اے کے حوالے سے جو ’’خدمت‘‘ انجام دی ہے، اس کامول چکایا ہی نہیں جا سکتا۔ پی آئی اے اور اس کے اثاثوں بشمول نیویارک والے ہوٹل کے، کسی کو ’’بخشیش‘‘کرنے کا ارادہ ہے اس کے لیے ادارے کو ’’ٹکے ٹوکری‘‘ کرنا ضروری تھا۔ وزیر موصوف نے تو کمال مہارت سے ذمہ داری نبھائی اور اس کے اثاثے کوڑیوں کے بھائو زلف بخارا میں اٹکا دیئے جائیں گے، ممکن ہے قومی خزانے سے کچھ سلامی الگ سے بھی دی جائے۔ ٭٭٭٭٭ وزیر موصوف کے پاس تین تعلیمی ڈگریاں ہیں اور تینوں کی تینوں ’’اصلی‘‘۔ شاید اسی کو ہیٹ ٹرک کہتے ہیں۔ تین ڈگریوں سے یاد آیا، پختونخوا سے تعلق رکھنے والے ایک وفاقی وزیر نے ایک گھنٹے میں تین مضامین کے پرچے دیئے اور کامیاب قرار پائے۔ یہ ان کے جینئس فیس نہیں، ایکسٹرا سپر جینئس ہونے کا ثبوت ہے۔ پی ٹی آئی اصلی ڈگریوں کے حوالے سے خود کفیل ہے اس کے ایک اہم ڈاکٹر نے کینیڈا کی ایسی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی جس کا کینیڈا میں کوئی وجود ہی نہیں۔ دوم‘وجود سے وجود برپا کرنے والے اس صاحب تصرف ڈاکٹر کی روحانیت کے چرچے مدتوں سے لوگ سنا کرتے ہیں۔ ایک اور صاحب کراچی کے ہیں، کلام سے لگام کی شہرت رکھتے ہیں۔ محفل میں خواتین ہوں تو ان کی گرمی گفتار اور بھی حدت پکڑ لیتی ہے اور تپش سے خواتین کے کان سرخ ہو جاتے ہیں۔ مصدقہ ذرائع کہتے ہیں، ان کی ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی ’’اصلی‘‘ ہے۔ ٭٭٭٭٭ ایک اور وزیر جن کے خلاف انکوائری ہو رہی ہے۔ ثابت ہو گئی تو ان کی بھی ترقی ہو جائے گی جن کے دور میں گزشتہ حج کے موقع پر ڈیڑھ لاکھ حاجیوں کا تین وقت کا کھانا،پوری مدت حج کا ہڑپ ہو گیا۔ کل کھانے ملا کر دو کروڑ سے اوپر ہی بنتے ہیں سوچیے، اتنا زیادہ کھانا ہڑپ کرنے کے لیے کتنے کنال کا گودام درکار ہو گا۔ موصوف کی ایک تصویر کھانا کھاتے ہوئے کی دیکھی۔ لگا کوئی دعوت ہو گی لیکن میز کے ساتھ کرسی تو ایک ہی تھی جس پر صاحب تشریف فرما تھے۔ واللہ کیا ظرفِ معدہ ہے ع یہ معدہ وسیع ملا جس کو مل گیا ٭٭٭٭٭ ایک تاجر دوست کے صاحبزادے کچھ ماہ پہلے تک تبدیلی کے پرجوش ہی نہیں، غضب ناک حامی تھے۔ ذرا سی تنقید پر ناقد کو لینے کے دینے پڑ جاتے تھے۔ لیکن کچھ ہفتوں سے ان کے مزاج تبدیلی تاب میں تبدیلی آتے دیکھی۔ رفتہ رفتہ لہجہ بدلتا گیا۔ یہاں تک کہ پورا یوٹرن لے لیا۔ کل ہی فون آیا، بولے، انکل آپ ٹھیک کہتے تھے۔ بہت مایوس ہوں۔ اتنی زیادہ کرپشن ہو گئی ہے کہ پہلے دیکھی نہ سنی۔ اب تو لگنے لگا ہے کہ پی ٹی آئی اور کرپشن ایک ہی شے کے دو نام ہیں۔ خود ہی تفصیل بیان کرنے لگے۔ بی آر ٹی(پشاور میٹرو) کا ذکر کیا۔ بلین ٹری سونامی کو بلینز کرپشن سونامی کا نام دیا۔ پختونخوا کے ٹھیکوں کا ذکر کیا، پنجاب کے ’’بھولے میاں‘‘ کے جنوبی پنجاب میں زمینوں پر قبضہ کی مہمات کا بتایا، کراچی کے ایک وزیر کے جے آئی ٹی ٹیم کے گھپلوں کی ہوشربا داستانوں کا ذکر بھی چھیڑا، فیصل آباد میں سرکلر زمین پانچ کروڑ کی رشوت لے کر الاٹ کرنے والے ایم این اے کا نام بھی بتایا۔ دوائوں، آٹے، چینی، بجلی کے میگا بلکہ سپر میگا کرپشن سکینڈلز پر سرکار کی مہر تصدیق کرنے کا دکھ سے ذکر کیا۔ ایک لمبی فہرست تھی، ٹوکنا پڑا۔ میاں صاحبزادے روہانسے ہو چلے تھے، مزاج بحال کرنے کے لیے انہیں کہا کہ میاں ذرا کرپشن کے سپیلنگ تو سنائو، حیران ہو گئے اور پوچھا کہ کیوں، عرض کیا ارے سنائو تو سہی۔ رک رک کر سنانے لگے۔ سی او، آر آر یو، پی ٹی آئی،او این۔ پھر ذرا رکے اور ہنس پڑے، عرض کیا، میاں ’’جزولاینفک‘‘ اسی کو کہتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ جعلی حکومت نے سازش کے تحت ملک کی معیشت ختم کر دی۔ مولانا، سازش کا لفظ غیر پارلیمانی ہے۔ اس کے بجائے ’’منصوبہ‘‘ کہتے تو ٹھیک رہتا۔ اور یہ منصوبہ تھا تو پانچ سالہ لیکن صاحب والا کی لیاقت و قابلیت و محنت اور لگن و جستجو کے کیا کہیے، دو ہی سال میں ہدف پورا کر دکھایا۔ سراج الحق نے بھی اتفاق سے اسی روز اپنے بیان میں حکومت کے لیے ’’جعلی‘‘ کا لفظ استعمال کیا۔ یہ ’’توارد‘‘ بھی مزے کا ہے۔ لیکن گرائمر کی غلطی ان کے بیان میں بھی ہے۔ فرمایا، جعلی حکومت انگلی پکڑ کر چل رہی ہے۔ صحیح فقرہ یوں ہوتا، انگلی جعلی حکومت پکڑ کر چلا رہی ہے۔ ٭٭٭٭٭ اس کالم میں عزیر بلوچ کو ہمیشہ قومی اثاثہ لکھا۔ بعض مرتبہ کسی قاری نے پوچھا کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ عزیر بلوچ کے ساتھی حبیب جان نے، جنہیں وفاقی وزیر علی زیدی نے صادق و امین قرار دیا ہوا ہے۔ پی ٹی آئی سے ’’معاہدے‘‘ اور لیاری امن کمیٹی کے ’’تعاون‘‘ کے بارے میں جو انکشافات کیے ہیں، اس سے قومی اثاثے والی بات سمجھ آنے میں مدد ملی سکتی ہے۔ عزیر بلوچ ذوالفقار مرزا کے ’’بندے‘‘ تھے اور ذوالفقار مرزا کے قومی ’’اثاثہ‘‘ ہونے کے بارے میں کیا شک ہے۔ قومی اثاثوں کی بھی کیا بات ہے۔