لال سنگھ چڈھا بالی ووڈ کی اس نئی فلم کا نام ہے جس میں بنیادی کردار اس اداکار کا ہے جس کو فلمی میڈیا میں عام طور پر ’’مسٹر پرفیکٹ‘‘ لکھا؛ پڑھا اور بولا جاتا ہے۔ کیوں وہ بہت محنت کرتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو کسی کردار میں ڈھالنے کی ہی نہیں بلکہ بھارتی فلم انڈسٹری میں وہ نئے نئے آئیڈیاز لانے کے حوالے سے بھی مشہور ہیں۔ جی ہاں! ہم اداکار عامر خان کی بات کر رہے ہیں۔ وہ عامر خان جن کی نئی فلم کے چرچے صرف ملکی میڈیا تک محدود نہیں۔ اس بار وہ جو نئی فلم لائے ہیں اس کا نام ہے ’’لال سنگھ چڈھا‘‘۔ اس فلم کی کہانی مشہور امریکی فلم فاریسٹ گمپ (Forest Gump) سے ماخوذ ہے۔انہوں نے اس فلم میں مرکزی کردار ادا کیا ہے جو امریکی فلم فاریسٹ گمپ کی مکمل کاپی ہے۔ اس فلم کا ایک منظر ایک منظر اور ایک ایک ڈائیلاگ وہی ہے جو فاریسٹ گمپ میں ہے۔ یہ فلم بالی ووڈ کے مارکیٹ میں کتنی کامیاب ہوتی ہے؟ کتنا کماتی ہے؟ یہ تو دیکھنا ہوگا۔ مگر اس فلم کو جو عالمی میڈیا میں کوریج مل رہی ہے وہ کسی اور فلم کو نہیں ملی۔ بی بی سی ہر فلم اور خاص طور پر بھارتی فلموں کی طرف تو دیکھتا تک نہیں ۔ مگر وہ اگر عامر خان کی اس نئی فلم پر مہربان ہوا ہے تو اس کے بھی کچھ مقاصد ہونگے۔ عامر خان کی ہمیشہ کوشش رہی ہے وہ اسکرین پر بہت مختلف کرداروں میں پیش ہو۔ ایسے کردار جو عام طور پر فلموں میں پیش نہیں کیے جاتے۔ حالانکہ ایسے کردار معاشرے میں ہوتے ہیں۔ معاشرے میں معصوم اور باغی کردار موجود ہوتے ہیں۔ مگر ان کو اس طرح سے فوکس نہیں کیا جاتا۔ کیوں کہ ہمارے ہاںہیروکا جو پیمانہ ہے اس میں وہ شخص تو بالکل بھی نہیں قبول کیا جا سکتا جس میں کوئی عیب ہو۔ اس لیے عامر خان کی کوشش ہوا کرتی ہے کہ وہ ہمیں ایسے کرداروں سے ملائے جن کرداروں کو نہ صرف فلمی سیٹ پر بلکہ ہمارے اپنے جیتے جاگتے سماج میں بھی قبول نہیں جاتا۔ اس لیے وہ حیرت سے بھرپور کردار سامنے لاتے ہیں۔ وہ ایسے کرداروں میں آتے ہیں جیسے کردار میں آنا عام طور پر قابل فخر نہیں سمجھا جاتا۔ مگر وہ کردار جب لگن کے ساتھ محنت کرکے کامیاب ہوتے ہیں تو لوگوں کو ان کی کامیابی میں اپنی کامیابی کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ جس طرح انہوں نے ’’تھری ایڈیٹس‘‘ نامی فلم میں نام کمایا تھا۔ جس طرح انہوں نے ’’پی کے‘‘ نامی فلم میں شہرت پائی تھی۔ اب وہ ہمارے سامنے ’’لال سنگھ چڈھا‘‘ کی کردار میں جلوہ گر ہوئے ہیں۔ انہوں نے پوری کوشش کی ہے وہ امریکی فلم فاریسٹ گمپ کو مکمل ایمانداری سے ہندی میں پیش کر پائیں۔عامر خان کی مذکورہ فلم تو ممکن ہے کہ ذرا مختلف موضوع اور میڈیا کے ذریعے مشہور بھی ہوجائے مگر اصل سوال یہ ہے کہ کیا عامر خان اس فلم میں اس امریکی کردار کا ہم پلہ بن سکتا ہے جس کا نام ٹام ہاکنس ہے۔ وہ اداکار جو اپنی خوبصورت اور دل میں گھر کر جانے والی اداکاری کے حوالے سے مشہور ہے۔ اس فلم کو لوگ ہر حوالے سے دیکھیں گے۔ ایک ایک سین کا تقابلی جائزہ بھی لینگے۔ اس طرح عامر خان کو فائدہ بھی ہو سکتا ہے وہ نقصان سے بھی دوچار ہوسکتے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے؟ عامر خان کے لیے تالیاں بجتی ہیں یا عامر خان پر تنقید ہوتی ہے؟ بالی ووڈ فلم انڈسٹری بہت بڑی صنعت کی حیثیت حاصل کر چکی ہے۔ بھارت نے اس انڈسٹری سے ٹیکس کے صورت میں بہت زیادہ پیسہ بھی کمایا ہے۔ بھارت نے اپنی فلم انڈسٹری کو اپنے عالمی مفادات کے لیے بھی استعمال کیا ہے۔ بھارت میں کچھ موضوعات کے حوالے سے بالی ووڈ نے بھارتی ظلم اور بربریت کی پردہ پوشی بھی کی ہے اور کچھ موضوعات کو اس نے پروپیگنڈہ کے طور پر لیا ہے۔ پاکستان کے حوالے سے بالی ووڈ نے اکثر طور پر مخالفت کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ بھارت نے کشمیر کی جدوجہد کا تمسخر اڑانے اور اس کو پاکستان کی سازش قرار دینے کی کوشش میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ حالانکہ بھارت میں موجود بہت سارے اچھے اور قابل افراد سمجھتے ہیں کہ کشمیری آزادی کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔بھارت نے کبھی کشمیر کی جدوجہد آزادی کو اس طرح بھی دکھانے کی اجازت نہیں دی جس طرح اس نے نکسل وادی باغیوں کو دکھایا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بھارت کے رگ و ریشہ میں مسلمانوں کے لیے جو نفرت ہے وہ کسی اور قوم اور مذہب کے لیے نہیں ہے۔ بھارت میں مسلمان کس طرح جیتے ہیں؟ وہ کس طرح خوف کا شکار ہیں؟ ان کے جمہوری حقوق کس طرح پائمال ہو رہے ہیں؟ ان کے انسانی حقوق کس طرح ریزہ ریزہ کیے جاتے ہیں؟ کیا بھارت میں مسلمانوں کی زندگی پر آج تک بھارت نے کوئی ایسی فلم تیار کی ہے جس کو دیکھ کر احساس ہو کہ بالی ووڈ اپنے معاشرے کی عکاسی کرتا ہے؟ آج تک بالی ووڈ نے مسلمانوں پر ہونے والے بہیمانہ تشدد کی ایک جھلک تک نہیں دکھلائی۔ اگر کسی بھارتی فلم میں کسی مسلمان کی مظلومیت دکھانا ہوتی ہے تو وہ اس کی بھارت سے محبت دکھاتے ہیں۔ وہ ایسے کردار ابھارتے ہیں جن کو عام طور محب وطن تسلیم نہیں کیا جاتا اور وہ بڑی قربانی دیکر ثابت کرتا ہے وہ اصل بھارتی ہے۔ مسلمانوں کے اس کردار کو بالی ووڈ میں بار بار پیش کیا گیا ہے مگر مسلمانوں کی جمہوری آزادی کی حقیقی تصویر کو کبھی اس طرح سے نہیں دکھایا گیا جس طرح وہ حقیقت میںہے۔یہ سچائی سب کو معلوم ہے کہ نریندر مودی کے بعد بھارت میں جو ہندو انتہا پرستی کا رجحان پیدا ہوا ہے، وہ بھارت کے سیکولر ز کے لیے ہی نہیں بلکہ بھارت کے وجود کے لیے بھی بہت بڑا خطرہ بن گیا ہے مگر اس خطرے کو بھی پیش کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ عامر خان اچھے اور نئے انداز سے سوچنے والے فرد ہیں۔ انہوں نے نہ صرف فلموں بلکہ ٹی وی کے لیے بھی جو کام کیا ہے اس میں معاشرے کے اصلاح کا پہلو نمایاں رہتا ہے مگر اہم بات یہ ہے کہ وہ خود بھی محسوس کرتے ہیں کہ بھارت میں مسلمانوں کا رہنا مشکل ہوگیا ہے اور انہوں نے کچھ عرصہ قبل اس تکلیف کا اظہار بھی کیا تھا جس پر انتہا پسند ہندوؤں نے عامر خان پر نہ صرف الزامات کی بارش کی بلکہ اس کو خطرناک نتائج کی دھمکیاں بھی دیں ۔ عامر خان کی حفاظت کے لیے حکومت نے پولیس والے بلالیے اور بس۔ عامر خان کو یہ تو اجازت ہے کہ وہ سکھوں کو ہیرو بنا کر پیش کرسکتا ہے۔ عامر خان کو اس بات کی اجازت ہرگز نہیں کہ وہ اس بھارت کی حقیقی تصویر دکھائے جس میں تصویر میں مسلمان ایسے جیتے ہیں جیسے تہاڑ جیل میں قیدی جیتے ہیں۔ بھارت مسلمانوں کے لیے اوپن ایئر تہاڑ جیل ہے مگر عامر خان کو اس موضوع پر فلم بنانے کی اجازت حاصل نہیں۔