وزیر اعظم عمران خان اور سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی ملاقات میں کرونا پر قابو پانے کے لئے حکومت اور اپوزیشن کی مشترکہ کمیٹی بنانے پر اتفاق ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا جاری کردہ بیان بھی قومی اتفاق رائے کے حوالے سے اہمیت رکھتا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ یہ وقت حکومت یا وزیر اعظم پر تنقید کا نہیں بلکہ ان کے ساتھ کھڑے ہونے کا ہے۔مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے اپنے پیغام میں قوم سے کہا ہے کہ کرونا کے خلاف ہر سطح پر لڑا جائے۔ سابق وزیر اعظم اور ن لیگ کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی نے کرونا کے انسداد کے معاملے میں حکومت سے بھرپور تعاون کا اعلان کیا ہے۔ حکومت کی اہم اتحادی جماعت ق لیگ کے رہنما چودھری شجاعت حسین اور پرویز الٰہی کی جانب سے بھی مہلک وائرس سے مقابلے کے لئے مشترکہ کوششوں پر زور دیا گیا ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے اپنے کارکنوں کو مختلف فرائض کی انجام دہی کی ہدایت کرتے ہوئے ذرائع ابلاغ‘ علماء کرام اور تمام دیگر طبقات سے اپنا کردار ادا کرنے کی اپیل کی ہے۔کرونا ایک عالمی وبا ہے۔ دنیا کے ڈیڑھ سو سے زیادہ ممالک اس کی لپیٹ میں ہیں۔ چین‘ اٹلی اور ایران سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ جبکہ فرانس‘ برطانیہ‘ سپین اور امریکہ میں اس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے‘ دنیا بھر میں ہر وہ تقریب منسوخ کر دی گئی ہے جس میں لوگ بڑی تعداد میں شریک ہوتے ہیں‘شاپنگ مالز‘ شادی ہال‘ ریسٹورنٹس ‘ سینما ہالز‘ جم‘ پارک‘ کلب اور سماجی تقریبات پر بندش عاید ہو چکی ہے۔ پی آئی اے جو پہلے ہی بحران کا شکار ہے کرونا وبا کے بعد اسے سات ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔ سول ایوی ایشن کو تین ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ خدشہ ہے کہ میگا ترقیاتی اور تعمیراتی منصوبوں پر کام رک جانے سے بیس لاکھ افراد کا روزگار متاثر ہو سکتا ہے۔ یہ نقصانات پاکستان کی معاشی حالت کو دیکھتے ہوئے ناقابل برداشت قرار دیے جا سکتے ہیں۔ ماضی گواہ ہے کہ پاکستانی قوم اور اس کے رہنمائوں نے جب کبھی اتحاد کا مظاہرہ کیا درپیش بحران حل ہوگیا۔ نائن الیون کے بعد پاکستان کے لئے صورت حال مشکل ہو گئی تھی۔افغانستان میں ایسی حکومت قائم ہوئی جو عالمی سطح پر بھارت کی اتحادی تھی۔ امریکہ جیسا دیرینہ اتحادی اجنبی بن گیا۔ دہشت گردوں نے پاکستان کے سکیورٹی اداروں‘ شہریوں اور معصوم طلبا کو قتل کرنا شروع کر دیا۔16دسمبر 2014ء کو آرمی پبلک سکول پشاور پر دہشت گردانہ حملہ فیصلہ کن موڑ تھا۔ اس المناک واقعہ کے بعد تحریک انصاف نے پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے 126دن سے جاری اپنا دھرنا ختم کر کے نواز شریف حکومت کا دہشت گردی کے خلاف ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں اور عسکری قیادت نے ایک اجلاس میں اکٹھے ہو کر فیصلہ کیا کہ ملک کی بقا کا سوال آ پڑا ہے اس لئے سب مل کر دہشت گردی کا انسداد کریں گے۔ اسی اجلاس کے دوران نیشنل ایکشن پلان ترتیب دینے کا فیصلہ ہوا۔ آج پاکستان میں دہشت گردی دم توڑ چکی ہے۔ دہشت گردی کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کے معاملے پر بھی قومی قیادت متفق ہے۔کرونا وائرس کی وبا ہمارے دیرینہ دوست اور ہمسایہ ملک چین کے صوبے ووہان میں پھوٹی۔ حکومت نے ایک سخت فیصلہ کیا اور وہاں موجود پاکستانی طلبا اور تاجروں کو ملک واپس لانے سے انکار کر دیا۔ اس انکار کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ چین ان پاکستانیوں کی نگہداشت پر رضا مند تھا‘ دوسری طرف ایران میں زیارات کے لئے گئے ہزاروں پاکستانیوں کا معاملہ ہے۔ ایران میں کرونا شدت پکڑ چکا ہے۔ بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے ایران اس قابل نہیں کہ ہزاروں غیر ملکی زائرین کو زیادہ عرصہ اپنے ہاں ٹھہرا سکے۔ ایران کی اس مجبوری کے باعث پاکستانی حکومت کو زائرین کی واپسی کی اجازت دینا پڑی۔ ابتدا میں سرحدوں‘ ایئر پورٹوں اور ریلوے سٹیشنوں پر سکریننگ کر کے متاثرہ افراد کا پتہ لگایا گیا تاہم بعدازاں بہت سے زائرین بغیر ضروری معائنہ اپنے گھروں کو لوٹ گئے جس کی وجہ سے کرونا سے متاثرہ افراد کی تعداد بڑھنے لگی۔ پورے خطے میں کرونا کی وبا کو دیکھیں تو پاکستان میں اس کے اثرات اب بھی بہت کم ہیں۔پاکستان میں تمام صوبائی حکومتوں نے اپنے ناکافی وسائل کے باوجود بھر پور صلاحیت سے کام کیا۔بلوچستان نے تفتان میں زائرین کو رکھنے کا انتظام کیا۔ سندھ میں کرونا کے متاثرہ افراد سب سے زیادہ ہیں لیکن وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے ایکسپو سنٹر میں دس ہزار افراد کے لئے قرنطینہ مرکز بنانے‘ لاکھوں افراد کے ٹیسٹ اور راشن کا انتظام کر کے شاباش پائی ہے۔ پنجاب میں کرونا کی وبا شدید نہیں اس کے باوجود صوبائی حکومت نے لاہور‘ ملتان‘ راولپنڈی اور فیصل آباد سمیت اہم شہروں میں ضروری سہولیات کا انتظام کر دیا ہے۔ کے پی کے حکومت نے بھی مرکز کی ہدایات کے مطابق کرونا انسداد کی حکمت عملی پر عملدرآمد شروع کر دیا ہے۔ آزاد کشمیر حکومت اور گلگت بلتستان نے حتی المقدور حفاظتی اقدامات کئے ہیں۔ اس وقت راشن اور روز مرہ اشیا کی فراہمی کے حوالے سے حکومت لائحہ عمل تیار کر رہی ہے۔ یہ سب حکومتی اور انتظامی امور ہیں جن کے پہلو بہ پہلو سیاسی‘ مسلکی اور طبقاتی گروہ بندیوں کی شکار قوم کو متحد کرنے کی ضرورت ہے۔ بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز اور دیگر رہنمائوں کے بیانات خوش آئند ہیں‘ یقینا ان کی جماعتوں کو حکومت کی بعض پالیسیوں پر اعتراض ہو سکتا ہے لیکن درپیش بحران حکومت کا پیدا کردہ ہے نہ حکومت تنہا اس سے نمٹ سکتی ہے۔ تمام سیاسی و سماجی رہنمائوں کو آگے بڑھ کر قومی یکجہتی کا ثبوت دینے کی ضرورت ہے۔