میرے اللہ نے جدید تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کا یہ تجزیہ بھی باطل کر دیا کہ انسان اس دنیا کو اپنے ہی ہاتھوں سے تباہ کرنے جارہا ہے۔ اس کرہ ارض کی تباہی کے لئے کسی زلزلے، طوفان یا سیلاب کی ضرورت نہیں بلکہ انسان نے اپنی تباہی کا سامان خود بڑے اہتمام کے ساتھ سینت کر رکھا ہوا ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں 3,750 ایسے ایٹمی ہتھیار ہیں جو سان پر چڑھے ہوئے ہیں، یعنی صرف بٹن دبانے کی دیر ہے،اور وہ اپنے ہدف کو تباہ کرنے کے لیے نکل پڑیں گے۔ اس کے علاوہ 13,890 ایسے ایٹمی ہتھیار ہیں جو لانچنگ پیڈ پر چڑھائے جانے کے منتظر ہیں۔ امریکہ کے پاس 6,185، برطانیہ 200، فرانس 300، اسرائیل 90، پاکستان 160، بھارت 140، روس 6490، چین 290 اور شمالی کوریا کے پاس 30 ایٹم بم ہیں۔ یہ تمام ایٹمی ہتھیار دنیا کو کئی بار مکمل طور پر تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ آج سے 40 سال قبل جب ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ تیز ہونا شروع ہوئی، تو زمین پر بسنے والے اس ظالم انسان کو فکرلگ گئی کہ کہیں کوئی دیوانہ شخص کسی عالمی طاقت کا سربراہ بن گیا اور اس نے اپنے پاگل پن میں ایٹمی بٹن دبا دیا تو چند منٹوں میں آسمانِ دنیا پر ایٹم بموں کا رقص شروع ہو جائے گا اور دنیا لمحوں میں خاکستر ہو کر رہ جائے گی۔ یوں ہتھیاروں کو تلف کرنے، کم کرنے اور دیگر ملکوں تک ٹیکنالوجی منتقل نہ کرنے کے معاہدے شروع ہوئے۔ عالمی ایٹمی قوتوں نے ہتھیارتلف کرنا شروع کیے اور 1986 میں دنیا کی وہ پوٹلی جس میں 70,300 ہتھیار تھے کم کیے جانے لگے اور آج یہ صرف ان کا پانچواں حصہ رہ چکے ہیں۔ مگر حکومتوں پر خوف پھر بھی طاری ہے۔ یہ خوف اس لیے بھی ہے کہ سارے ہتھیار اگر نہ بھئی چلے، بلکہ ان میں سے صرف پچاس ہتھیاربھی کچھ ملکوں کے جنگی جنون کی وجہ سے چل پڑے تو خوفناک تباہی کے بعد دنیا سلامت رہ جائے گی، اس پر کم از کم بیس سالوں کے لئے کہرے اور بادل کی ایک چادر سی تن جائے گی جو سورج کی روشنی کو زمین پر آنے سے روک دے گی جس کی وجہ سے فصلیں نہیں پکیں گیں اس صورتحال کو ایٹمی سرد موسم (Nuclear winter) کہتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں دنیا پر زندہ بچ جانے والے انسان خوراک کی قلت اور موسم کی شدت سے موت کی آغوش میں چلے جائیں گے۔ گذشتہ کئی دہائیوں سے دنیا کے ہر فورم پر اس بدترین وقت سے بچنے کے لئے گفتگو ہوتی رہی ہے۔ دنیا کا ہر امن پسند اور جنگجو، دونوں بیک وقت ایٹمی ہتھیاروں کے ممکنہ حملوں سے خوفزدہ رہا ہے۔یہ نتیجہ نکلتے رہے ہیں کہ انسان ایک دن خود کو تباہ کرلے گا۔ لیکن میرے اللہ نے ''الملک'' یعنی حقیقی بادشاہ اور ''القادر'' یعنی قدرت والا ہونے کا یوں اظہار کیا کہ جب اس نے اس کرہ ارض پر بسنے والے سات ارب انسانوں کو جھنجھوڑنا چاہا تو کسی ایسے ہتھیار کو استعمال ہی نہ کیا جس کے بارے میں انسان یہ دعویٰ کرے کہ اس کی تو کنجی میرے ہاتھ میں ہے۔آج اللہ کا ہتھیار تو ناقابل یقین حد تک انسانی آنکھوں سے اوجھل ہے، بظاہر بیضرر، لیکن ایسا خوفناک ہے کہ شاید ہی کوئی گھر، بستی یا شہر ایسا ہو جو اس کے ڈر سے کانپ نہ رہا ہو۔ انسان کے بنائے ہوئے ہتھیاروں کی پناہ گاہ کا علم ہوتا ہے، ان کی روانگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، ان کے نشانوں کی بھی خبر معلوم ہوتی ہے۔ لیکن میرے اللہ کا یہ ہتھیار''کرونا'' انسان اپنے کپڑوں پر لیے، اپنے جسم کے حصوں پر سجائے، رات دن گھومتا پھرتا ہے، مگر جب تک یہ باہر پڑا ہوا ہے، اسے کچھ نہیں ہوگا۔لیکن جیسے ہی یہ وائرس کسی بھی بہانے جسم میں داخل ہو گیا تواپنے تباہ کن حملوں کا آغاز کر دیتا ہے۔ یہ کیسا ہتھیار ہے، کیسا دشمن ہے کہ ہاتھ پرموجود ہو یا نہ ہو، انسان اسکے خوف سے مسلسل ہاتھ دھوتا رہتا ہے۔ سیٹلائٹ کی وسعتوں اور کیمروں سے لے کر خورد بینوں کی دنیا تک انسان نے اپنے لئے ہزاروں لاکھوں قسم کی آنکھیں تخلیق کر لی ہیں۔ لیکن یہ تمام کی تمام'' آنکھیں '' مل کر بھی یہ اندازہ نہیں لگا سکتیں کہ کرونا کا وائرس، کہاں اور کس قدر ہے۔کیسی بے بسی ہے اس حضرتِ انسان کی۔وہ انسان جو کل تک خود کو اللہ کی طاقتوں اور قوتوں، ''سمیع'' سننے والا اور ''بصیر '' (دیکھنے والا) کا ہم ہلہ سمجھ رہا تھا۔ اسے آج نہ تو کرونا دکھائی دیتا ہے اور نہ اس کی چاپ سنائی دیتی ہے۔ مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ اس وائرس کے وجود کا ادراک اس وقت ہوتا ہے جب یہ انسانی جسم میں حملے کے لیے داخل ہو چکا ہوتا ہے۔ وہاں اپنی تباہ کن سلطنت آباد کر چکا ہوتا ہے اور پھر علامتیں ظاہر کرکے دنیا کو بتاتا ہے کہ میں حملہ آور ہو چکا ہوں۔ انسان کے بنائے گئے تباہی و بربادی کے تمام ہتھیار ویسے ہی اپنی پناہ گاہ میں بھی خاموش پڑے ہیں اور گذشتہ چالیس سالوں سے ہونے والے تجزیوں اور تبصروں کی بساط اللہ نے الٹ کر رکھ دی ہے۔اللہ نے انسان کو اپنی طاقت، قوت، ہیبت اور جبروت کے اصل معانی سمجھائے ہیں۔ انسانوں کی آپس کی لڑائیوں، خانہ جنگی اور قتل و غارت میں ایک تصوریہ بھی عام تھا کہ اگر جنگ چھڑ جاتی ہے، قتل و غارت شروع ہو جاتا ہے، زلزلہ یا سیلاب و طوفان آتے ہیں تو صاحب حیثیت افراد اور اقوام کے پاس بہترین ٹھکانے موجود ہوں گے جہاں وہ پناہ گزین ہو جائیں گے۔ جیسے ہی جنگ کے بادل چھٹیں گے وہ باہر آجائیں گے اور سکون سے اپنی زندگی دوبارہ شروع کردیں گے۔ اللہ نے ان لوگوں کی وہ پناہ گاہیں بھی بے کار کر دی ہیں۔ کون ہے جو سینہ ٹھوک کریہ کہہ سکتا ہے کہ میں نے لندن، نیویارک، پیرس یا دبئی میں جو گھر بنا رکھا تھا کہ جب بھی پاکستان میں حالات خراب ہوں گے تو میں وہاں جاکر پناہ لے لوں گا، آج وہ گھر اس کیلئے محفوظ ہے۔ آج یہ سب دعوے بھی باطل ثابت ہوگئے۔ ان سب لوگوں کی حالت حضرت نوح علیہ السلام کے نافرمان بیٹے ''کنعان'' جیسی ہے کہ جب حضرت نوح نے عین طوفان کے وقت اسے کشتی میں سوار ہونے کے لیے کہا تو اس کا جواب بالکل آج کے جدید مادیت پرست سیکولر ملحدین کی طرح کا تھا۔ قرآن اس واقعے کو یوں بیان کرتا ہے، '' نوح نے پکار کر کہا، '' بیٹا ہمارے ساتھ سوار ہو جاؤ، کافروں کے ساتھ نہ رہو، اس نے پلٹ کر جواب دیا '' میں ابھی ایک پہاڑ پر چڑھا جاتا ہوں جو مجھے پانی سے بچا لے گا'' (ھود:42:43)۔ نوح کے بیٹے کا محفوظ مقام اس کے کام نہ آیا اوروہ اس طوفان میں غرق کر دیا گیا۔ویسے ہی آج کسی کا محفوظ ملک میں بنایاگھربھی کسی کام نہیں آئے گا۔ آج کے اس کرونا کی آزمائش میں کشتی نوح،صرف اور صرف استغفار ہے۔ اس سے بڑی کوئی پناہ گاہ نہیں۔ یہ اللہ کے غصے کو ٹھنڈا کرتی ہے، اور اس کی رحمتوں کو جوش میں لاتی ہے۔ دس ہزار سالہ انسانی تہذیب، پانچ ہزار سالہ انسانی تاریخ اور پانچ سو سالہ سائنسی معراج،سب کے سب آج اللہ کے اس نادیدہ ہتھیار کے سامنے بے بس ہیں ۔ نہ کوئی ڈھال ہے نہ کوئی پناہ گاہ۔ اربوں ڈالر سے تعمیر کردہ وہ پناہ گاہیں بھی بے کار ہیں جو کیمیائی اور ایٹمی ہتھیاروں کے حملے سے بچنے کے لئے بنائی گئی تھیں۔میرے اللہ کے اس نہ دکھائی دینے والے ہتھیار کے سامنے بے بس ہیں۔ اللہ نے ایسے ہی تو دعویٰ نہیں کیا، '' اللہ اس سے ہرگز نہیں شرماتا کہ مچھر یا اس سے کمتر تر چیز کی مثال دے۔جو لوگ حق قبول کرنے والے ہیں، وہ انہی مثالوں سے دیکھ کر جان لیتے ہیں کہ یہ حق ہے، جو ان کے رب کی طرف سے آیا ہے، اور جو انہیں ماننے والے نہیں، سن کر کہنے لگتے ہیں کہ اللہ کو ان مثالوں سے کیا سروکار (البقرہ:26)۔ کرونا اللہ کی ایسی ہی ایک تمثیل ہے جو ماننے اور نہ ماننے والوں کے درمیان فرق کر رہی ہے۔ ماننے والوں کی مثال نوح کے حواریوں جیسی ہے جو استغفار کی کشتی میں سوار ہوگئے تھے اور نہ ماننے والوں کی مثال ان کے بیٹے جیسی ہے جسے پہاڑ کی بلندی پر بھروسہ تھا اور وہ غرق ہو گیا۔