مکرمی ! جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں ہماری عوام نے ابھی تک دنیا بھر میں پھیلی ہوئی جان لیوا عالمی وبا ء کو سنجیدہ نہیں لیا تو کیا ہم ان سے یہ توقع کر سکتے تھے کہ وہ چاند رات یعنی جس رات کو ایک تہوار کی طرح منا یا جاتا ہے اس رات کی رونقوں اور رسموں جن میں مہندی لگوانا،شاپنگ کرنا اور اپنے رشتہ داروں سے ملنے ملانے کا سلسلہ یہ سب شامل ہے ان تمام رسموں میںعالمی وبا ء کو رکاوٹ کا باعث بننے دے سکے گی؟ تو میرا جواب پہلے ہی نہ میں تھاجس قوم نے ان ۳ مہینوںمیں اس عالمی وباء کو کسی کھاتے نہیں لیا تو وہ کیا خاک اپنے تہوار اور اس کی رسموں کو عالمی وباء کی سولی چڑھنے دے گی اپنی زندگی تو دائو پر لگا دیں گے مگر ایک سال اپنی رسموں اور تہواروں کو منانے سے گریز نہیں کریں گے بازاروں میں افطاری کے بعد سے رات گئے تک رش لگا رہا لو گوں نے ہر سال کی طرح اس سال بھی وہی چاند رات کی رسمیں نبھائیں جو ہمیشہ سے چلتی آرہی ہیں مہندی لگوانے کے سلسلے کے ساتھ ساتھ شاپنگ اور کھانے پینے کا معمول بھی جاری رہا ناجانے لوگ کیوں نہیں سمجھ رہے کہ زندگی سے بڑھ کر دنیا میں کچھ نہیں ہے زندگی ہوگی تو آنے والے تہوار بھی منا ئے جاسکیں گے لیکن نہیں لوگوں کا رویہ تو ایسا تھاجیسے انہیں نہ خود سے محبت ہے اور نہ دوسروں سے چلو باقی دنیا تو پھر غیر ہے کم سے کم اپنے پیاروں کا سوچ کرکچھ پرہیز کیا جاتا تو بہتر تھا۔ میری سب سے اپیل ہے کہ اس بات پر غور کریں اور خود کو اور باقیوں کی زندگی کے تحفظ کیلئے سماجی فاصلے برقرار رکھیں۔ (ثمرہ صغیر،لاہور)