وزیر اعظم عمران خان نے کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے حکومتی اقدامات سے قوم کو آگاہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ قوم مل کر یہ جنگ جیتے گی۔ قوم سے خطاب میں وزیر اعظم نے کہا کہ قوم کو گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ کرونا وائرس زیادہ پھیلا تو بڑی مقدار میں وینٹی لیٹرز درکار ہوں گے جن کی خریداری کے لیے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کو ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔ انہوں نے اس موقع پر ملک کی کمزور معاشی حالت کے باعث خدشہ ظاہر کیا کہ صورت حال سنگین ہو گئی تو ضروری سہولیات اور وسائل کم پڑ جائیں گے۔ کرونا ایک آفت کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ پاکستان کے پاس آفات سے نمٹنے کے وسائل تسلی بخش نہیں۔ سیلاب، زلزلوں یا بارشوں کی شکل میں اگر کبھی کوئی قدرتی آفت آئی تو ہمیں عالمی برادری سے مدد لینا پڑی۔ 2005ء میں زلزلہ آیا تو آزاد کشمیر اور کے پی کے میں بڑے پیمانے پر مکانات منہدم ہوئے۔ ہزاروں افراد جاں بحق ہو گئے۔ حکومت نے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کا ادارہ قائم کیا۔ اس ادارے کا ایک ضمنی کام زلزلہ متاثرین کی بحالی تھا لیکن اصل کام پاکستان کو اس قابل بنانا ہے کہ ہنگامی حالات اور قدرتی آفات سے ہم خود عہدہ برا ہو سکیں۔ اس ادارے کی کارکردگی کیا رہی اس کی آزمائش چند سال بعد ہو گئی۔ ملک میں 2010ء سے 2014ء تک ہر سال شدید بارشیں اور سیلاب آئے۔ کئی گائوں ڈوب گئے، پل بہہ گئے، ہزاروں افراد بے گھر ہوئے فصلیں برباد ہو گئیں۔ ایک زرعی ملک کے ذرائع آمدن تباہ ہونے کا نتیجہ 10ارب ڈالر نقصان کی صورت برداشت کرنا پڑا۔ دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ لڑنے والے ملک کے لیے یہ صدمات تشویشناک تھے۔ جو مقابلے کی استعداد نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ خطرناک ثابت ہوئے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ حکومت قوم کے ساتھ مل کر کرونا کے وائرس کا مقابلہ کرے گی۔ اس مقابلے کے لیے پاکستان کو کچھ تیاری کرنا ہو گی۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ پورے ملک کے ہسپتالوں میں صرف 800کے قریب وینٹی لیٹرز ہیں۔ سانس کی تکلیف میں وینٹی لیٹرز بہت فائدہ مند ثابت ہوئے ہیں۔ کرونا وائرس چونکہ نظام تنفس کو نشانہ بناتا ہے لہٰذا اس نوع کے طبی آلات کی بڑے پیمانے پر ضرورت ہو سکتی ہے جو سانس لینے میں حائل دقت کو ختم کر سکیں۔ وفاقی حکومت طویل ضابطہ جاتی کارروائیوں کو ہنگامی حالات میں نرم کر کے فوری طور پر سکریننگ، تشخیص کے آلات اور وینٹی لیٹرز خریدنے کا انتظام کرے۔ وفاق کی جانب سے سرحدوں پر آمدورفت کنٹرول کرنا اور متاثرہ افراد کو قرنطینہ میں رکھنا مستعدی کا مطالبہ کرتا ہے۔ اب تک دیکھا گیا ہے کہ یہ سارا عمل نیم دلی سے انجام دینے کا نتیجہ یہ نکلا کہ تفتان میں زائرین کو ناکافی سہولیات والی جگہوں پر رکھا جا رہا ہے۔ ایران سے آنے والے بہت سے زائرین ایسے مراکز سے فرار ہو کر اپنے علاقوں میں آ چکے ہیں۔ یوں تو ساری دنیا کرونا سے متاثر اور ہر ملک کے سامنے معاشی چیلنجز سر اٹھا رہے ہیں تا ہم حکومت کو چاہئے کہ وہ عالمی بینک اور اقوام متحدہ سے ضروری امداد کے لیے درخواست کرے۔ حکومت کی صفوں میںایسی سوچ موجود ہے کہ قرنطینہ مراکز کو فوجی عملے کی تحویل میں دے دیا جائے۔ ان دنوں مغربی ممالک میں ایک افراتفری دیکھی گئی ہے۔ گاہکوں نے بڑے بڑے سٹور خالی کر دیئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر کچھ بدبخت اسی طرح کا خوف پیدا کر کے پاکستانی عوام کو گمراہ کر رہے ہیں۔ کرونا سے مقابلے کے لیے وفاق کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومتوں کو بھی متحرک ہونا پڑے گا۔ اگرچہ سندھ، بلوچستان، پنجاب اور کے پی کے حکومتوں نے مقدوربھر اس آفت سے نمٹنے کی تیاریاں کی ہیں مگر ہنگامی حالات میں لوگوں کو ضروریات زندگی کی ترسیل اور حفاظتی اقدامات پر عملدرآمد کی ترغیب کے لیے مقامی اور صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔کرونا سے نمٹنے کے لیے وفاق اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پر ذمہ دارانہ طرز عمل پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ قوموں کے عزم اور ہمت کا پتہ ہنگامی حالات میں چلتا ہے۔ پاکستانی قوم نے بیس سال دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی ہے۔ اس جنگ میں 80ہزار جانیں قربان کیں اور 100ارب ڈالر سے زاید کے مالی نقصان کا سامنا کیا۔ ایک کے بعد ایک بحران پاکستان کے باہمت عوام کا امتحان لینے کو آتا رہا ہے۔ کرونا ایک خطرناک وبا کی صورت ہماری ہمت کا امتحان لینے آ چکا ہے۔ بدحواس ہو کر اس کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ چین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ڈیڑھ ارب نفوس کو کرونا سے بچانے کے لیے چین نے سخت اقدامات کیے۔ کئی واقعات میں بظاہر یہ حفاظتی تدابیر ظالمانہ معلوم ہوتی ہیں لیکن چینی حکومت اور قوم نے ماہرین کی رہنمائی میں ہر ممکن احتیاط برتی۔ اس سختی کا فائدہ یہ ہوا کہ چین میں یہ وبا دم توڑ چکی ہے۔ کرونا کی وجہ سے پاکستان میں مختلف کاروبار بند ہو رہے ہیں۔ معاشی مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ شادی ہال، ریسٹورنٹ، جم اور شاپنگ مال بند ہو رہے ہیں۔ ان غریب مزدوروں کا روزگار متاثر ہو رہا ہے جو روزانہ کی بنیاد پر روزی روٹی کا انتظام کرتے ہیں۔ وزیر اعظم جب کرونا سے مقابلے کے لیے قوم سے تعاون طلب کر رہے تھے تو انہیں ان غریب افراد کے لیے کسی امدادی پیکج کا اعلان کرنا چاہیے تھا۔ دنیا بھر میں جہاں جہاں کرونا پہنچا اور حکومتوں نے روزگار کے مراکز بند کرائے وہاں ان لوگوں کی مالی مشکلات کا ازالہ کرنے کی کوشش کی گئی جو انتظامی فیصلوں کی زد میں آئے۔ رہی بات قوم کے حوصلے کی تو حکومت قائدانہ کردار سنبھالے اور پھر صوبائی حکومتوں، بیورو کریسی اور سماجی و سیاسی تنظیموں کی مدد سے ایسا مؤثر لائحہ عمل اختیار کرے کہ کرونا کی آزمائش سے پاکستان سرخرو ہو کر نکلے۔