مذہبی اور سیکولر رجحان میں شدت رکھنے والے احباب ایک بار پھر صف آراء ہیں۔ تازہ فکری تصادم کا عنوان کرونا ہے۔ سوال یہ ہے کیا یہ دونوں گروہ ایک ایک قدم پیچھے ہٹ سکتے ہیں؟دونوں کو معلوم ہونا چاہیے دونوں غلطی پر ہیں۔دونوں سے درخواست ہے اس قوم پر رحم فرمائیں۔ کرونا کی وجہ سے بیت اللہ کو جزوی طور پر بند کیا گیا تو سیکولر حضرات حساب برابر کرنے آ پہنچے ۔ مسلمانوں کو طعنے دیے گئے کہ اب رب کے گھر میں جا کر شفا مانگنے کی بجائے ڈاکٹروں کی طرف کیوں دیکھ رہے ہو۔ بظاہر اچھے خاصے معقول لوگوں پر گویا وحشت سی سوار ہو گئی ۔ طنز کیا جانے لگا کہ کرونا آتے ہی بیت اللہ کا طواف رک گیا ۔ اب اللہ کی طرف نہیں بلکہ لیبارٹریوں کی طرف دیکھنے کا وقت ہے۔ ایسے ایسے غیر شائستہ اور نامعقول تبصرے کیے جانے لگے کہ حیرت ہوئی کوئی اتنا بد تہذیب اور گنوار بھی ہو سکتا ہے۔ پھر جب پاکستان میں معاملہ سنگین ہوا اور اہل مذہب نے مساجد کی بندش نہ کرنے کا فیصلہ کیا تو یہی سیکولر حضرات پھر میدان عمل میں کود پڑے۔ اب کے طعنہ یہ تھا کہ مذہبی لوگ نامعقول ہیں اتنے بڑے خطرے کو نہیں سمجھ رہے اور نمازز جمعہ ادا کیے جا رہے ہیں۔ انہیں کچھ احساس ہی نہیں کہ چیلنج کتنا بڑا ہے۔یہ جدید تہذیب کے تقاضوں سے واقف نہیں ۔ انہیں کچھ خبر نہیں وبا کے دنوں میں احتیاط کے تقاضے کیا ہوتے ہیں ۔یہ جدید دنیا کے ساتھ چلنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ، وغیرہ وغیرہ اور وغیرہ۔ بیت اللہ میں عبادت محدود کی گئی تب بھی اس طبقے نے طنز کیا اور پاکستان میں مسااجد میں عبادت محدود نہیں کی گئی تب بھی اس طبقے نے طنز اور تمسخر سے کام لیا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے سیکولر انتہا پسند مزاج رکھنے والے احباب چاہتے کیا تھے؟ اور جواب یہ ہے کہ وہ فکری چاند ماری کے سوا کچھ نہیں چاہتے ہیں۔ مقصود کسی سنجیدہ فکری نکتے کی طرف توجہ دلانا نہیں بلکہ مذہب اور اس سے وابستہ ہر علامت کا تمسخر اڑانا مقصود ہے ۔چنانچہ اب سعودی عرب میں عبادات محدود ہوتی ہیں تو ہاتھ نچاتے ہیں اللہ کو چھوڑ کر لیبارٹریوں کی طرف کیوں بھاگ رہے ہو اور پاکستان میں مساجد میں عبادات محدود نہیں ہوتیں تو یہ دہائی دیتے ہیں مولویو !تم معاملے کی نزاکت نہیں سمجھ رہے تم سب کو مروائو گے۔ دوسری طرف مذہبی مزاج میں شدت رکھنے والے لوگ ہیں۔ چین میں کرونا آیا تو انہوں نے وہاں مزید کرونا وائرس پھیلنے کی دعائیں کیں۔ کرونا پاکستان میں پہنچا تو یہ ریاست کی عملداری کو چیلنج کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں لاہور میں اجتماع ہر حال میں ہو گا اور اگر کسی کو وہاں کرونا وائرس ہوا تو وہ خود کو گولی کھانے کے لیے پیش کر رہے ہیں۔مختلف ویڈیوز گردش میں ہیں جن میں بعض علمائے کرام حکومتی اقدامات کو حقارت کے ساتھ چیلنج کر رہے ہیں ۔ صف بندی ہو چکی ہے۔ ایک گروہ کہتا ہے اب اللہ کو بلائو ، اب ڈاکٹروں کی طرف کیوں دیکھ رہے ہو۔ دوسرا گروہ کہتا ہے یہ تمہارے کرتوتوں کا عذاب ہے جو اللہ نے نازل کیا ہے۔ایک گروہ گرہ لگاتا ہے ویکسین تیار ہونے سے پہلے عظیم مبلغ مولانا طارق جمیل کو بلا لیا جائے تا کہ وہ کوئی پھونک مار کر مریض ٹھیک کر کے دکھائیں اور دوسرا گروہ جواب آں غزل کہتا ہے کہ نہیں ہم انتظار کر رہے ہیں کہ سات بر اعظموں کے عظیم سائنسدان ہود بھائی کل شام تک ویکسین تیارلیں گے اور ہم اسی سے ٹھیک ہو جائیں گے۔ میرے جیسا عام آدمی اس صف بندی سے بیزار ، پریشان حال ایک کونے میں کھڑا سوچ رہا ہے کہ یہ دونوں گروہ اگر ایک ایک قدم پیچھے ہٹ جائیں اور تھوڑی سی معقولیت اختیار کر لیں تو دنیا کتنی خوبصورت ہو جائے۔ سچ تو یہ ہے کہ کرونا وائرس میں ان دونوں گروہوں کے سمجھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔سیکولر حضرات کو یہ سمجھنا ہو گا کہ سائنس کی ساری ترقی کی کل اوقات یہ ہے کہ خدا کے بھیجے کے معمولی سے وائرس سے دنیا کا نظام تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے۔ سب بے بس ہوئے پڑے ہیں۔ یہ بے بسی اتنی شدید ہے کہ خود مغربی ممالک کے عمائدین بھی اللہ سے رجوع کر رہے ہیں ۔ اس لیے انہیں سمجھنا ہو گا کہ تمام مالی اسباب جمع کرنے کے ساتھ ساتھ اس اللہ سے رجوع کرنے اور دعا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ حقیقت اس کے سامنے رکھی ہے کہ ساری دنیا کی میڈیکل سائنس ایک معمولی سے وائرس کے سامنے اس وقت تک لاچار کھڑی ہے۔اگر ایک وائرس کے سامنے آپ کی ساری ترقی سہمی پڑی ہے تو خدائے رب العزت کے سامنے آپ اور اس دنیا کی جملہ مادی ترقی کی کیا حیثیت ہے۔ جب یہ سب اتنا کم حیثیت ہے تو پھر لازم ہے کہ دنیا کے وہ اسباب تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ کی رحمت طلب کی جائے اور اس کے حضور گڑ گڑا کر عافیت کی التجا کی جائے کہ اے اللہ ہمیں اس مصیبت سے نجات دلا دے ، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔ مذہبی رجحانات میں شدت رکھنے والوں کو یہ بات سمجھنا ہو گی کہ اللہ سے دعا ضرور کی جائے لیکن اللہ نے جو عالم اسباب بنا رکھا ہے اس میں عقل کے استعمال کی کوئی ممانعت نہیں۔اللہ پر یقین ضرور ہونا چاہیے لیکن احتیاطی تدابیر کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اللہ پر ایمان کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ عقل کو استعمال میں نہ لانے کا عہد ہی کر لیا جائے۔عقل اللہ کا انعام ہے تو یہ بھی ضروری ہے کہ کفران نعمت کا ارتکاب نہ کیا جائے۔ اللہ کے آگے دست سوال ضرور دراز کیجیے لیکن اس نے جو عقل دے رکھی ہے اس کاا ستعمال بھی کر لینا چاہیے اور بیماری کو پھیلنے سے روکنے کے لیے ریاست کچھ اقدامات تجویز کر رہی ہے تو ان پر عمل کرنا چاہیے۔ انہیں شعوری طور پر اس حقیقت کا اعتراف کرنا ہو گا کہ معاملہ اگر طب سے متعلقہ ہے تو اس میں طبی ماہرین ہی کی بات کو ترجیح دی جائے گی۔ ہر شعبے میں اس کے ماہرین ہی کی بات کو فوقیت حاصل ہوتی ہے ، الا یہ کہ متعلقہ ماہرین دلیل کے ساتھ اس بات کو رد کر دیں۔ طب کی دنیا میں کرونا کے پھیلائو کے حوالے سے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ عوامی روابط کو محدود تر کر دیا جائے۔ اب کرونا کی وبا کے پھیلائو کو روکنے کے لیے ماہرین کی اس رائے ہی کو اہم سمجھا جائے گا۔مذہبی اجتماعات اور جلسوں پر اصرار کرنا ایک ایسا رویہ ہے جو خود علم کی دنیا میں نا معتبر ہے۔ سیکولر حضرات کو جاننا ہو گا کہ وہ جس عقل پر بھروسہ کرتے ہیں وہ مذہب کی نفی یا اس کی تضحیک کا مقدمہ نہیں بن سکتی کیونکہ یہ عقل بھی اسی اللہ کی عطا کردہ ہے اور اس عقل پر اگر آپ کو بہت بھروسہ ہے کہ یہ کام آئے گی تو یہ نعمت بھی آپ کو اللہ نے ہی دے رکھی ہے اور مذہبی طبقے کو سمجھنا ہو گا کہ اللہ پر ایمان کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ عقل کے تمام تقاضوں سے بے نیاز ہو جایا جائے۔توازن ہی اصل چیز ہے اور المیہ یہ ہے کہ ہماری فکری صف بندی میں توازن سب سے پہلے روندا جاتا ہے۔