ایک امریکی مصنف ڈین کوئنز کا ایک چونکا دینے والا ناول 1981 The Eyes of Darkness میں منظر عام پر آیا تھا۔ اس ناول کی کہانی کے مطابق ایک ماں کا اکلوتا بیٹا ایک ٹورسٹ گائیڈ کے ہمراہ کئی دوسرے امریکی لڑکوں کے ساتھ کیمپنگ پر گیا۔ یہ گائیڈ بہت اچھی شہرت کا حامل تھا اور گزشتہ 16برس سے نوجوانوں کو دیہاتی وپہاڑی علاقوں میں لے کر جاتا تھا اور نوجوانوں کو جہاں سخت جان مشقوں سے گزارتا وہاں ان کے لیے دلچسپ مصروفیات کا بندوبست بھی کرتا تا ہم اس بار نہ جانے کیا ہوا کہ ٹورئس گائیڈ اور بس ڈرائیور سمیت سب کے سب ہلاک ہو گئے۔ ان کی ہلاکت کا بظاہر کوئی سبب بھی نہ تھا۔ ماں کو اپنے بیٹے کی ہلاکت کا یقین نہ آتا تھا۔ ماں کی ایک دوست کرسٹینا ایوانس صبر آزما تحقیقات کے بعد بالآخراس نتیجے پر پہنچی کہ چینی شہر ووہان کی لیبارٹری میں ایک حیاتیاتی ہتھیار تخلیق ہوا جس نے ماں کے اکلوتے بیٹے کو مار ڈالا۔ مصنف نے تب ہتھیار کو ’’گورکی۔400‘‘ کا نام دیا تھا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ 2008ء میں ناول کا جدید ایڈیشن شائع ہوا تو اس میں حیاتیاتی ہتھیار کو ’’ووہان 400‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس سے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ مصنف چین اور امریکہ کی لیبارٹریوں میں حیاتیاتی ہتھیاروں پر ہونے والی ریسرچ سے آگاہ تھا۔ موجودہ کرونا وائرس کے بارے میں اس وقت دنیا میں تین نظریات سامنے آ چکے ہیں۔ اول یہ کہ موجودہ وائرس چمگادڑ کے سوپ سے پھیلا ۔یہ سوپ ووہان کی ایک خاص ڈش کے طور پر سارے چین میں مشہور ہے۔ دوسری تھیوری یہ ہے کہ یہ حیاتیاتی بم ہے کہ جس کو امریکہ کی کسی لیبارٹری میں بنایا گیا۔ تیسرا نظریہ ہے کہ یہ حیاتیاتی بم چین کی ایک لیبارٹری میں تیار ہو رہا تھا وہاں سے کسی طرح فرار ہو کر اس نے شہریوں میں تہلکہ مچا دیا۔ امریکی لیبارٹری میں تیار کیا گیا کرونا وائرس پہلے تو محض ایک خیال یا نظریہ تھا مگر گزشتہ روز روسی وزارت دفاع نے الزام لگایا کہ روسی سرحد کے قریب جارجیا کی ایک امریکی فیکٹری میں مختلف اقسام کے انسان کش اور وبائی امراض پھیلانے والے خطرناک وائرس تیار کیے جا رہے ہیں۔ ماسکو کے اس اہم بیان میں امریکی فیکٹری کے قیام کو تمام بین الاقوامی قوانین کے منافی قرار دیا۔ ہماری اتنی وسیع و عمیق معلومات تک رسائی نہیں کہ جن کے ذریعے یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ واقعی دنیا کی دو بڑی قوتیں ایک دوسرے کی تباہی کے ایسے ہولناک منصوبوں پر کام کر رہی ہیں۔ یہ محض افسانوی خیال آرائی سے بڑھ کر کچھ نہیں تا ہم تاریخ کی گواہی یہ ہے کہ برطانیہ اور امریکہ جراثیمی ہتھیار بنانے اور ان کے ذریعے اپنے دشمنوں کو زیر کرنے کے لیے اسے استعمال کرتے رہے ہیں۔ 1763ء میں انگریزوں نے امریکہ کے اصل باشندوں ریڈانڈینز کے قبائلی سرداروں کو صلح کے مذاکرات کے بعد کمبلوں اور ملبوسات کا تحفہ دیا جو چیچک کے جراثیم سے بھرے ہوئے تھے۔ یہ تاریخ انسانی کا پہلا دستاویزی واقعہ ہے جب انسان نے دوسرے انسانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کیلئے حیاتیاتی ہتھیار استعمال کیا۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکہ، برطانیہ اور ان کی دیکھا دیکھی جرمنی، جاپان اور اٹلی نے بھی حیاتیاتی ہتھیار بنائے۔ اگرچہ اب یو این اور دیگر عالمی اداروں کے قوانین کے مطابق ایسا کرنا کھلی دہشت گردی اور انسان دشمنی ہے تا ہم بڑی قوتیں انسانوں اور انسانی حقوق کے بارے عالمی قوانین کو کب خاطر میں لاتی ہیں تا ہم کسی بھی سپر پاور کا یہ سوچنا کہ آج کے گلوبل ویلج میں حیاتیاتی ہتھیاروں کی تباہی کسی ایک مخصوص ملک کی حدود تک محدود رہے گی کیا حد سے بڑھی ہو سادگی اور خام خیالی نہیں؟ سعودی شہر قطیف کو لاک ڈائون کر دیا گیا ہے۔ بشری ہلاکتوں کے علاوہ وائرس کی ہولناکی کی صنعت و تجارت اور روزگار پر اثرات کا اندازہ لگائیں تو خون رگوں میں منجمد ہونے لگتا ہے۔ اسی وقت چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے ملک کی معیشت کا انحصار ایک دوسرے پر ہے۔ اگر امریکہ، آسٹریلیا اور یورپ کی مارکیٹیں چینی اشیاء سے خالی ہو جائیں گی تو چینی مشینوں کا پہیہ پہلے آہستہ ہو گا پھر رک جائے گا مگر امریکہ سمیت ساری دنیا ہزاروں انواع کی اشیائے صرف کہاں سے حاصل کرے گی۔ ایسے یاس انگیز عالمی منظر نامے میں کہیں کہیں امید افزاء دیئے بھی روشن ہو رہے ہیں ۔ ایسا ہی ایک چراغ پاکستانی نژاد امریکی ڈاکٹر بلال نے بھی جلایا ہے۔ وہ ایک تحقیقی رپورٹ منظر عام پر لے کر آئے ہیں جس کے مطابق امریکہ کے ایک ممتاز طبی مجلے میں الرجی کے میدان میں عالمی شہرت یافتہ ڈاکٹر انتھونی فاسسی اور ان کی ٹیم کی تازہ ترین ریسرچ کے مطابق 1099کرونا مریضوں پر تحقیق سے معلوم ہوا کہ کرونا متاثرین میں موت کا خدشہ 3فیصد نہیں صرف ایک فیصد ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے دوسرا اہم نکتہ یہ بتایا کہ کرونا وائرس 9برس سے کم عمر بچوں پر تقریباً حملہ آور نہیں ہوتا جبکہ ایک فیصد سے زیادہ نوجوان بھی اس سے متاثر نہیں ہوتے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ دنیا میں ہر سال ایک ارب لوگ فلو کا شکار ہوتے ہیں جن میں سے کم از کم 2لاکھ افراد سالانہ لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔ ایمرجنسی میڈیسن میں اختصاص حاصل کرنے اور امریکہ کے ایک شہرت یافتہ ہسپتال میں کام کرنے والے ڈاکٹر بلال نے پوری ذمہ داری سے دو اہم ترین باتوں کی طرف متوجہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عام لوگوں کو ماسک پہننے کی ہرگز ضرورت نہیں۔ سب سے بڑی حفاظتی تدبیر یہ ہے کہ بار بار صابن سے اچھی طرح ہاتھ دھوئے جائیں۔ انہوں نے امریکی عوام سے کہا ہے کہ انہیں بھی مسلمانوں کے وضو کو اختیار کرنا چاہئے اور اپنے جسم کو پاکیزہ رکھنے کی پابندی کرنی چاہئے۔ اس وقت وائرس کے حوالے سے عالمی طاقتوں اور میڈیا کو ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنے کے بجائے وائرس سے نجات پانے کے لیے مشترکہ تحقیقی کاوشوں کو تیز تر کرنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔ کرونا خطرہ ضرور ہے مگر اتنا بڑا نہیں جتنا بڑا اسے میڈیا بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے۔