اس وقت ساری دنیا ڈری اور سہمی ہوئی ہے۔ بھیانک اور اچانک موت کا خوف انہیں اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ کیا گورے کیا کالے‘ کیا چینی کیا امریکی‘ کیا یورپی کیا ایشیائی غرضیکہ زمینی سیارے پر کوئی اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتا۔ اللہ کی آخری کتاب میں واضح کر دیا گیا ہے کہ موت اٹل ہے نہ ایک پل آگے نہ ایک پل پیچھے۔ وہ اپنے معینہ وقت پر آئے گی اور اپنے ہدف کو اپنے ساتھ لے جائے گی۔ ذرا سورۃ نسا کی 78ویں آیت کا زور بیان دیکھیے۔ ’’تم جہاں کہیں ہو موت تمہیں آئے گی اگرچہ مضبوط قلعوں میں ہو‘‘۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مسلمان ہتھیار ڈال کر موت کا انتظار کریں۔ نہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ موت برحق اور موت سے بچائو کی ہر ممکن تدبیر فرض اور لازم ہے۔ ساری دنیا میں کلیسا سنسان‘ معبدویران‘ خانہ کعبہ حیران اور ویٹی کن پریشان ہے۔ اقوام متحدہ کے ایوان خالی‘ کھیل کے میدان خالی‘ دانش گاہیں خالی‘ عدالتیں سائلین سے خالی‘ ہوائی جہاز مسافروں سے خالی‘ ہوائی اڈے چہل پہل سے خالی حتیٰ کہ میکدے اور شبستان تشنہ لبوں اور شب زندہ داروں سے خالی۔ گویا کہ مے خوار و محتسب سبھی کرونا وائرس کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہو چکے ہیں۔ دیکھیے میر تقی میر کیا بروقت یاد آئے ہیں: ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے قدرت کی طرف سے ایسے تازیانے انسانوں کو جھنجھوڑنے اور اپنے طرز عمل پر نظرثانی کرنے کے لئے ہوتے ہیں۔ ایسی قدرتی آفات انسانوں کو جادہ مستقیم پر واپس لانے اور راہ اعتدال اختیار کرنے کی طرف مائل کرنے کے لئے ہوتی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں 80لاکھ انسانوں کو محصور کر دیا گیا‘ ان تک اشیائے خورو نوش نہ پہنچنے دی گئیں‘ ادویات و علاج تک ان کی رسائی مشکل بنا دی گئی۔ وادی جنت نظیر میں ہی نہیں خود بھارتی راجدھانی دہلی میں انسانی حقوق کی پامالی اور خون مسلم کی ارزانی ساری دنیا دیکھتی رہی بڑی بڑی طاقتیں مہربلب رہیں اور کسی نے اپنا انسانی فریضہ پورا نہ کیا۔ شاید قدرت نے وائرس کے ایک دھچکے سے بڑی بڑی قوتوں کو باور کروایا ہے کہ محصور و مجبور ہونا کتنی بڑی اذیت اور بے بسی ہے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا تھا کہ آزمائش میں گھبراہٹ اس سے بڑی آفت بن جاتی ہے۔ چند روز پہلے تک بڑے بڑے ہوائی اڈوں پر مریضوں کی سکریننگ کے لئے کائونٹر تک نہ بنائے گئے تھے۔ اب لاہور میں پاکستان کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ انسٹی ٹیوٹ کو کرونا سنٹر بنایا گیا ہے جو بالکل نامناسب ہے۔ ایک اور خبر پڑھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ وطن عزیز میں اخلاقی دیوالیہ پن کا وائرس بھی تباہی مچا رہا ہے۔ چند برس قبل ترکی اور برطانیہ کی طرز پر سٹریٹ کرائمز کا قلع قمع کرنے کے لئے زر کثیر خرچ کر کے ڈولفن فورس بنائی گئی۔ اس فورس کے اہل کاروں کو تیرہ تیرہ لاکھ کی 500سی سی موٹر سائیکلیں دی گئیں۔ انہیں خصوصی یونیفارم پہنائی گئی۔ انہیں جدید ترین اسلحہ دیا گیا۔ اس سے پہلے پنجاب پولیس کے علاوہ ایلیٹ فورس‘ انسداد دہشت گردی پولیس‘ کو ئیک رسپانس فورس اور پنجاب ہائی وے پٹرولنگ اور محافظ فورس بھی تھیں مگر یہ گلیمر فورس بھی بنانا ضروری سمجھا گیا۔ اب تک ڈولفن فورس سے جوانوں کی طرف سے آئے روز ایسے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں کہ جن میں نوجوانوں پر تشدد ‘ معذور شخص پر تشدد بلا وجہ فائرنگ سے ہلاکتیں۔ تین چار روز قبل ڈولفن فورس کے چار اہل کاروں نے ایک شخص ذوالقرنین کے ساتھ مل کر حسن نامی ایک نوجوان کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ ذوالقرنین کا حسن سے کوئی لین دین کا جھگڑا تھا۔ ڈولفن فورس والوں کے خلاف درج کرائی گئی ایف آئی آر کے مطابق ان اہل کاروں نے اقبال ٹائون میں حسن کی گاڑی کا پیچھا کر کے اسے روکا اور بغیر کسی اشتعال کے اس پر کئی گولیاں برسائی گئیں اور پھر اسے مرنے کے لئے چھوڑ گئے۔ ڈولفن پولیس والوں نے تڑپتے زخمی کے لئے ایمبولینس بھی نہ بلائی۔ بعدازاں پنجاب پولیس موقع پر پہنچ گئی اور اس نے مجروح شخص کو ہسپتال پہنچایا جہاں وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ افسران اعلیٰ نے جب تحقیق کی تو انہیں معلوم ہوا کہ ڈولفن فورس والوں نے زخمی حسن سے جس پستول کی برآمدگی کا دعویٰ کیا تھا وہ جھوٹا تھا۔اللہ کا شکر ہے اس بار یہ انکوائری سانحہ ساہیوال کی طرح نہ ہوئی اور مجرموں کی پردہ داری نہ کی گئی۔ انکوائری آفیسر کی سفارش پر چاروں ڈولفن اہل کاروں کو اپنے عہدوں سے معطل کر کے انہیں اقبال ٹائون کے ایس پی کیپٹن(ر) محمد اجمل نے قتل عمد کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے۔ اس سے پہلے ایس ایس پی مفخر عدیل کی ہولناک کہانی سامنے آ چکی ہے۔ جس کے مطابق پولیس کے اعلیٰ عہدے پر فائز افسر نے اپنے دوست شہباز تتلہ کو مختلف نوعیت کے جرائم سے اکٹھے کئے ہوئے کروڑوں کے جھگڑے پر اسد بھٹی کے ساتھ مل کر قتل کر دیا اور تتلہ کی لاش کو ٹھکانے لگانے کے لئے اپنے ایک ماتحت عرفان علی سے تیزاب کا ڈرم منگوا کر لاش کو معدوم کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس طرح بے دردی سے عادی قاتل اور مجرم بھی لوگوں کو ہلاک نہیں کرتے جس طرح سے ایس ایس پی مفخر عدیل نے کیا ہے۔ اب اس شیطانی عمل کی تفصیلات معلوم کرنے کے لئے عرفان علی کو بھی زیر حراست لے لیا گیا ہے۔ ڈولفن اور عام پولیس کے افسران کی قاتلانہ و مجرمانہ کارروائیوں نے ان اداروں کے نظام تربیت کا پول کھول دیا ہے۔ جب رہبر ہی رہزن بن جائیں اور محافظ قاتل اور ڈاکو بن جائیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ معاشرہ کرونا وائرس سے کئی گنا بڑے موذی اخلاقی دیوالیہ پن کے وائس کا شکار ہو چکا ہے۔ جناب عمران خاں برسر اقتدار آئے تو ہمیں یقین تھا کہ خان صاحب اور کچھ کر سکیں یا نہ کر سکیں گے مگر وہ اپنے دو تین دیرینہ وعدوں کی تکمیل اور اپنے دیے گئے چند خوابوں کی تعبیر قوم کو ضرور دیں گے۔ ہمارا گمان غالب تھا کہ خان صاحب پولیس‘ عدل و انصاف اور تعلیم کے شعبوں میں ضرور اصلاحات کریں گے۔ مگر افسوس کہ ادھر توجہ دینے کی خان صاحب کو فرصت نہیں۔ کرونا وائرس تو انشاء اللہ چند دنوں میں ٹل جائے گا مگر اخلاقی بحران کے وائرس سے نجات کے لئے زبردست جدوجہد کرنا پڑے گی۔