کرونا وبا سے پوری دنیا معاشی مندی کا شکار ہے اور جب تک وبا کا زور ٹوٹ نہیں جاتا پُوری دنیا کی معاشی ترقی رُکی رہے گی۔ یہی حال پاکستان کا بھی ہے۔ اگلے چند ماہ تک ملک میں معاشی‘ کاروباری سرگرمیاں ماند رہیں گی۔ تاہم خوش اُمیدی کا پہلو یہ ہے کہ زراعت ‘ صنعت اور کاروبار کے ذرائع اپنی جگہ جُوں کے تُوں موجود ہیں جن کا بحران ٹلتے ہی دوبارہ استعمال شروع ہوجائے گا۔ اگر قدرت نے زیادہ سختی نہ دکھائی تو اُمید ہے کہ اگلے چند ماہ تک یہ مشکل دن گزر جائیں گے‘معاشی اور کاروباری سرگرمیاں ایک بار پھر اپنی اصل رفتار کی طرف لوٹ آئیں گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ سختی کے یہ چند ماہ ہم کتنی سمجھ داری اور باہمی تعاون سے گزارتے ہیں۔ فی الحال دنیا کی معاشی صورتحال خراب ہے۔ ایک سو اسیّ سے زیادہ ممالک میں وبا پھیل چکی ہے۔ یورپ اور امریکہ زیادہ متاثر ہوئے ہیں ۔ وہاں نیم کرفیو کی صورتحال ہے جس کے باعث معاشی ترقی کو بریکیں لگ گئی ہیں۔ عالمی اداروں جیسے موڈی کی پیش گوئی ہے کہ رواں برس عالمی معاشی ترقی کا گراف منفی میں چلا جائے گا۔ وبا سے پہلے اس میں تین فیصد اضافہ کی توقع تھی۔ چین جو دنیا میں سب سے تیز ترقی کرنے والا ملک ہے اس کی سالانہ ترقی کی شرح چھ فیصد رہنے کااندازہ تھا لیکن وبا کے بعد یہ منفی ڈیڑھ تک نیچے جاسکتی ہے۔ عالمی معیشت میں گراوٹ کا اثر پاکستان پر بھی پڑنا شروع ہوگیا ہے۔ ہماری امریکہ‘ یورپ اور چین کو جو برآمدات ہوتی ہیں ان کی رفتار سست ہوجائے گی کیونکہ اُنکے پاس مال خریدنے کو رقم کم ہو گئی ہے اور جو مال ہے وہ وبا سے نپٹنے میں خرچ ہورہا ہے۔ پاکستان دنیا کو ٹیکسٹائل‘ سیمنٹ‘ کھیلوں کا سامان‘ سرجیکل آلات‘ چمڑے کا سامان وغیرہ برآمد کرتا ہے۔ اندازہ ہے کہ جون میں ختم ہونے والے اِس مالی سال میں ہماری برآمدات ہدف کے مقابلہ میں تقریبا ًپچیس فیصد کم ہوں گی۔ ظاہر ہے کہ اس وجہ سے برآمدی صنعتوں کے منافع میں کمی آئے گی اور اُن میں کام کرنے والے مزدور‘ ہنر مند‘ پیشہ ور افراد کی آمدن بھی کم ہوجائے گی۔ ملکی معیشت کونقصان یہ ہے کہ برآمدات سے کمائے جانے والازرِمبادلہ توقع سے کم ملے گا۔کسی حد تک پاکستان کی بچت ہوگئی ہے کہ عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں نصف سے بھی کم ہوچکی ہیں۔اسطرح جو ڈالرتیل کی خریداری سے بچ جائیں گے وہ برآمدات سے ہونے والے نقصان کی تلافی کردیں گے۔ رواں مالی سال پاکستان کی درآمدات میں بھی کچھ نہ کچھ کمی ہونے کا امکان ہے‘تخمینہ ہے کہ دس فیصد ۔ ایک تو دکانیں‘ بازار بند ہیں جس کے باعث خریداری رُک گئی ہے ۔ جب لاک ڈاؤن میں نرمی آئے گی‘ بازار کھلیں گے تب بھی درآمدی اشیا کی مانگ پہلے سے کم رہے گی۔ کیونکہ آفت کے پوری طرح دُور ہوجانے تک لوگ اپنا پیسہ صرف ضروری کاموں پر خرچ کریں گے۔گزشتہ چند ہفتوں میں ڈالر مزید مہنگا ہونے سے برآمدی مال کی گرانی بڑھ گئی ہے اس لیے اسکی فروخت بھی کم ہوگی۔ برآمدات ا ور درآمدات میں کمی کے باعث حکومت کو ٹیکسوں کی وصولی کم ہوجائے گی‘ اندازاً ہدف سے دو اڑھائی سو ارب روپے کم ۔ پہلے ہی وفاقی اورصوبائی حکومتوں کے مجموعی اخراجات ان کی کل آمدن سے تقریباً دو گنا ہیں۔ عرصہ دراز سے اس ملک میں کاروبار ِریاست بیرونی اور اندرونی قرضوں پر چل رہا ہے۔ اس پر مستزاد حکومت کو وبا سے نپٹنے اور متاثرہ طبقات کی مدد کی غرض سے تقریباً بارہ سو ارب روپے بجٹ سے ہٹ کر خرچ کرنے پڑ رہے ہیں۔ یہ تو ابتدائی منصوبہ ہے ۔ ہوسکتا ہے سیاسی دباؤ میں حکومت کو مزید اخراجات کرنا پڑ جائیں۔اس کام کے لیے حکومت کو بنکوں سے مزید قرضے لینے پڑیں گے۔ افراط زر میں اضافہ ہوگا جسکا زیادہ بوجھ متوسط طبقہ پرآئے گا۔یُوں ہر لحاظ سے مشکل وقت ہے‘ حکومت اور عوام‘ دونوں کے لیے۔متوسط طبقہ کی ایک بڑی تعداد تاجروں‘ دکانداروں پر مشتمل ہے جن کا لاک ڈاؤن کی وجہ سے بہت نقصان ہورہا ہے۔ یہ اپنی جمع پونجی نکال کر گزارہ کررہے ہیں۔ ملک میں تیس لاکھ سے زیادہ دکاندار ہیں‘ بڑے شہروں میں ہزاروں ریسٹورنٹ ہیں۔ حکومت کو چھوٹے کاروباری طبقہ کی مدد کرنی چاہیے اور انہیں اس مالی مشکل سے نکلنے کی غرض سے آسان شرائط پر قرضے دینے چاہئیں‘ بجلی کے بلوں کے ادائیگی قسطوں میں کردینی چاہیے۔ معاشی مندی سے نکلنے کا ایک طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ حکومت مکانوں اور عمارتوں کی تعمیر کے شعبہ کو ترغیبات دیکر متحرک کرے۔ اس سے چالیس دیگر صنعتیں وابستہ ہیں۔اگر یہ شعبہ ترقی کرنے لگے تو معاشی سرگرمی بڑھے گی اور روزگار بڑھے گا۔ حکومت اور معاشرہ کے لیے سب سے بڑا چیلنج تو یہ ہے کہ وبا کے دور میں کوئی خاندان بھوک کا شکار نہ ہو۔ جزوی لاک ڈاؤن سے لگ بھگ ایک کروڑ محنت کش عارضی طور پر بے روزگار ہوئے ہیں جن میں درزی‘ حجام‘ ترکھان‘ ریڑھی والے‘ خوانچہ فروش‘ رکشہ ٹیکسی چلانے والے‘ بس ڈرائیور‘ ٹرک ڈرائیور‘ مکینک‘ الیکٹریشن‘ پلمبر‘ سیلز مین‘ دستکار‘ دہاڑی دار مزدور‘ مستری‘ گھروں میں کام کرنے والی خواتین کارکن شامل ہیں۔ ان کے پاس جمع پونجی نہیں ہوتی کہ مشکل وقت اسکے سہارے گزارلیں۔ حکومت نے لاکھوں مستحق خاندانوں کو فی خاندان تین ہزار روپے ماہانہ امداد دینے کااعلان کیا ہے۔ اس کام کو روائتی سرکاری تاخیر کا شکار نہیں ہونا چاہیے‘رقم جلد سے جلد متعلقہ لوگوں تک پہنچ جانی چاہیے۔ البتہ یہ رقم اتنی کم ہے کہ اس سے ایک خاندان کی دال روٹی نہیں چل سکتی۔ ملک کے امیر اور متوسط طبقہ کو ان خاندانوں کی مدد کے لیے بھی آگے بڑھنا ہوگا تاکہ انسانی المیہ نہ جنم لے۔پاکستان کا ایک خوشحال خاندان دو سے تین مستحق خاندانوں کو راشن فراہم کردے توآزمائش کے یہ دن خوش اسلوبی سے گزر جائیں گے۔