پوری انسانیت کرونا وائرس جیسی ہولناک بیماری کا شکار ہے۔ چین سے شروع ہونے والی وبا نے کیا امریکہ اور کیا یورپ ، پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیاہے۔سپر طاقتیں اور ترقی یافتہ ممالک سمیت کوئی بھی محفوظ نہیں رہا۔ اب تک دنیا کے طول عرض میں6لاکھ سے زائدافراد اس سے متاثرہوچکے ہیں جبکہ 27ہزار افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ پوری دنیا میں کائنات کے خالق، مالک اور پروردگار کے بندے بہت بڑی آزمائش سے دوچار ہیں۔نبی اکرمﷺ کے ایک فرمان کے مطابق یہ انسانوں کے اعمال ہیںجو صورتحال کو یہاں تک لے آتے ہیں۔ لہٰذا بنی نوع انسان کو اپنے انفرادی اور اجتماعی اعمال کاجائزہ لے کر اصلاح کرنی ہوگی۔اپنے خالق کی ذات اور اس کی فیصلہ کن طاقت کو پہچاننا ہوگا کہ مخلوق کی زندگی اور موت،صحت اور بیماری،آزادی اور محکومی اور رزق اورمحتاجی اسی کے قبضہ قدرت میں ہے۔ پاکستان میں گو کہ ابھی اس کی شدت کم ہے مگر پوری دنیا جس طرح لاپرواہی اور عدم توجہ سے اس کی لپیٹ میں آئی ہے، اس بنا پرپاکستان میں اس جانب مضبوط اور تیزی سے اقدامات کی ضرورت ہے۔قومیں اور ملک اجتماعی شعور، اتحاد و اتفاق اور جدوجہد سے آگے بڑھتے اور بحرانوں پر قابوپالیتے ہیں۔قوم اتحاد، ہمت، احتیاط اور استغفار سے اس وبا کا مقابلہ کرے گی اور ہم ان شاء اللہ سرخرو ہوں گے۔ جماعت اسلامی ایک قومی فریضہ سمجھ کر اس میںپوری طرح متحرک ہے۔ یہ وقت کسی قسم کی سیاست اور نمبر گیم کا ہرگز نہیں ہے۔ بلکہ پوری قوم کے مل جل کر سوچنے، فیصلے کرنے اور عمل کرنے کاہے ۔ ہم تمام پارٹیوں ، سرکاری و غیرسرکاری تنظیموں سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ اس قومی مسئلہ کے حل کے لیے سرجوڑ کر بیٹھیں اور مشترکہ اقدامات اٹھائیں۔ علماء کرام اور مشائخ عزام اپنے اپنے دائرہ اختیار میں عوام کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے اوراس وبا کو پھیلنے سے بچانے کے لیے تعاون کا پیغام دیں۔ جماعت اسلامی اور الخدمت فاؤنڈیشن کی پوری تاریخ خدمت، ایثاراور قربانی سے بھری ہوئی ہے۔ اورپوری قوم اس پرگواہ ہے۔خواہ وہ آفات سماوی یعنی زلزلہ ،سیلاب اور بارشوں سے تباہی ہو یا عمومی زندگی کے حادثات، جماعت کے لاکھوں کارکنوں نے اپنے مال، جان، وقت اور صلاحیت کی قربانی وایثار سے لازوال اور قابل تقلید مثالیں قائم کی ہیں۔ اور اس موقع پر بھی ہمارے تمام دفاتر اور ادارے کرونا آگہی سنٹرز میں تبدیل ہوچکے ہیں اور ملک بھر میں پھیلے ہوئے لاکھوں کارکن قوم کی خدمت کے جذبے سے میدان عمل میں کُود چکے ہیں۔ مجھے صدر پاکستان جناب ڈاکٹر عارف علوی صاحب کا فون آیاتھا اور میں نے ان کی وساطت سے حکومت اور اس کے تمام اداروں کو پیشکش کر دی ہے کہ جماعت اسلامی اور الخدمت فاؤنڈیشن کے تمام ہسپتال، پتھالوجیکل لیبارٹریاں، ڈسپنسریاں، ایمبولینسیں اوردفاتر حکومت کی صوابدید پر ہیں اور ہمارے لاکھوں مخلص کارکن قوم کی خدمت میں کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔اس ناگہانی صورتحال سے ہر طبقے کے لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ معاشی پہیہ بہت سست ہوگیا ہے اور جام ہونے کی طرف بڑھ رہاہے۔ان حالات میں سب سے زیادہ دیہاڑی دار مزدور اور گھروں میں کام کرنے والے مرد و خواتین لاکھوں کی تعداد میں بیروزگار ہوگئے ہیں جو روزانہ مزدوری کرکے اپنے بچوں کے لیے آٹا اور خوراک خریدتے ہیں۔ لہٰذا حکومت کو چاہیئے کہ ان سب ضرور ت مندوں کا فوری طور پر خیال کرے اور اُن کے لیے فوڈ پیکیج کا اہتمام کرے۔ پچیس ہزار روپے ماہانہ سے کم آمدنی والوں کے بجلی اور گیس کے بل معاف کردے۔ پنشنر ز کو ان کے گھروں پر ماہانہ پنشن پہنچانے اور قومی سطح پر بڑے امدادی پیکیج کا اعلان کرے۔ طلبہ و طالبات کی تعلیم اور امتحانات کے شیڈوں بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ ان کے لیے آن لائن ٹیچرز کا انتظام کرے۔اور ٹرانسپورٹ کے معطل ہونے کی بنا پر عام مریضوں کے لیے آن لائن ڈاکٹرزکا انتظام کیاجائے۔ یہ ایک اجتماعی جدوجہد ہے، جس کو پوری قوم نے مل کر کرنا ہے۔ غلطی کی گنجائش بھی نہیں ہے کیونکہ ہمارے وسائل کم ہیں۔ اور خدانخواستہ تعداد میں اضافہ ہوا تو ہمارے ہاں ہسپتال، لیبارٹریاں ، ڈاکٹر اور آلات وغیرہ کی کمی واقع ہوگی۔اس طرح کے سانحات سے بچنے کے لیے ایک ایک فردکواپنا کردار ادا کرنا ہوتاہے۔ میں نے اپنے ملک کی سیاسی قیادتوں سے بھی رابطہ کیا ہے اور کوشش کی ہے کہ ایک قومی پالیسی بن جائے ۔ فوری طور پر کرونا کے خلاف نیشنل ایکشن پلان ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔تمام سیاسی جماعتیں ایک صفحہ پر ہوں ، تاکہ اس وبا کے خلاف ہر ایک اعلان اوراپیل برائے عمل کو ہرآدمی سنجیدہ لے۔انسانی نفسیات یہی ہے کہ دانا لوگ تو قبل از وقت بیدار ہوجاتے ہیں لیکن نادان تباہی کے بعد …پھرکوئی فائدہ نہیں ہوتا۔اس وقت قوم کو خوف سے نکال کر عزم اور حوصلہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ وہ احتیاط جو سنت رسول ﷺ سے وبائی امراض کے لیے ملتی ہے۔ بغیر کسی تامل کے اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ سیدنا عمر فاروقؓ شام کی طرف سفر کررہے تھے، ایک بستی کے قریب اطلاع ملی کہ وہاں طاعون کی وبا پھیل چکی ہے ۔قافلے میں حضرت عبدالرحمن بن عوف بھی موجود تھے۔ حضرت عمرؓ نے نبی اکرمﷺ کی اس حدیث کا حوالہ دیا ۔ حضرت اسامہ بن زید ؓ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐنے فرمایا ۔’’یہ بیماری(طاعون)ایک عذاب ہے۔ جوتم سے پہلے ایک امت کوہوئی، پھر وہ زمین میں رہ گیا۔ کبھی چلا جاتا ہے اور کبھی پھر آجاتا ہے۔لہٰذا جو کوئی کسی ملک میںسنے کہ وہاں طاعون کی (وبا) ہے تو وہ وہاں نہ جائے اور جب اس کی بستی میں طاعون(وبا) نمودار ہو تو وہ وہاں سے نہ بھاگے۔(صحیح مسلم حدیث نمبر:1484)اس لیے کروناکی وبا روکنے کے لیے حکومتی اقدامات پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ان اقدامات سے جو عوام کے لیے مسائل پیدا ہوں اس سے نبٹنے کے لیے بھی معاشرے کی یکجائی کی ضرورت ہے اور بہت بڑی بات کائنات کے خالق سے دعا ہے جو تقدیروں کوبدلنے کا ذریعہ ہے۔ رجوع الی اللہ ہو،دوسروں کے ساتھ ہمدری ہو۔ خاص کر غریبوں کے ساتھ۔اور گھروں کے اندر بیداری ہو۔