پاکستان میں کرونا وائرس کی تشخیص کے بعد پیدا ہونے سوالات میں سے اہم ترین سوال یہ ہے کہ قوم کو جب کسی افتاد یا آزمائش کا سامنا ہو تو میڈیا کا کردار کیا ہونا چاہیے؟ کیا افتاد کے ہر فسانے پر سینہ زنی کا نام صحافت ہے؟ صبح کا وقت تھا ، میں چک شہزاد کے نواح میں ایک ہسپتال میں بیٹھا تھا، ٹی وی سکرین پر نظر پڑی توایک اودھم مچا تھا۔ خوفزدہ کر دینے والے ٹکرز کے ساتھ سنسنی خیز انداز میںپڑھی جانے والی خبریں ، دل دہل گیا۔ ابلاغ کے چند مظاہر آپ بھی دیکھ لیجیے:’’کرونا وائرس ،بلوچستان بھر میں کھلبلی مچ گئیــ‘‘۔’’کرونا وائرس نے کراچی کے بعد اسلام آباد کا رخ کر لیا ، شہریوں میں خوف و ہراس‘‘۔’’ کرونا وائرس، موت کے سائے ، عوام خوفزدہ‘‘۔وحشت ناک ٹکرز اور خوفزدہ کر دینے والے رواں تبصرے سے پریشان ہو کر میں نے وہاں بیٹھے لوگوں پر ایک نگاہ ڈالی، سب مریض اور سٹاف آرام سے بیٹھے تھے ، کوئی ہنس رہا تھا ، کوئی گپیں لگا رہا تھا ۔میں نے اٹھ کر باہر دیکھا ، ہسپتال کے باہر زندگی رواں تھی۔ کتنی ہی دیر میں وہاں بیٹھا سوچتا رہا کہ یہ کھلبلی کہاں مچی ہے جس پر خصوصی بیپرز ہو رہے ہیں اور عوام الناس کو باخبر رکھنے کی جدوجہد میں خواتین و حضرات کا سانس بھی پھولا ہوا ہے۔ واپس آ کر پھر ٹی وی کی طرف دیکھا۔اب وہاں ایک نئی کہانی بیان ہو رہی تھی۔ ناظرین کو خبر دی جا رہی تھی مارکیٹ میں ماسک نایاب ہو گئے ہیں اور میڈیکل سٹورز پر انہیں کئی گنا زیادہ قیمت پر بیچا جا رہا ہے۔شدت جذبات سے کانپتے ، پر اسرار لہجے میں خبر سنا دی گئی تو ایک عدد تجزیہ کار جلوہ افروز ہوئے۔ یقینا وہ ایک سینیئر تجزیہ کار ہوں گے کیونکہ پاکستان میں جونیئر تجزیہ کار تو کبھی پیدا ہی نہیں ہوئے۔انہوں نے لہجے میں ایک جہاں کی رقت طاری فرما کر اس قوم کا اخلاقی نوحہ پڑھنا شروع کر دیا جس کا خلاصہ یہ تھا یہ قوم بد عنوان اور سفاک ہے ، تاجر درندہ بن چکا ہے ۔ درد دل سے تقابل کیا گیا کہ چین میں بحران آیا تو ماسک مفت فراہم کیے گئے اور یہاں بحران آیا تو ماسک بلیک میں بیچے جا رہے ہیں۔سینیئر تجزیہ کار کا تجزیہ ختم ہوا تو نیوز کاسٹر نے ان کے ساتھ مل کر قوم پر دو حرف بھیجے ۔اگلی خبر اب شوبز کی تھی اورنیوز کاسٹر اس قوم کو یہ ’’ بریکنگ نیوز‘‘ دے رہے تھے کہ ماہرہ خان نے شاعری شروع کر دی ہے۔ اسلام آباد میں بہار پولن الرجی ساتھ لاتی ہے۔ یہ خبر سنی تو پریشانی ہوئی کہ مجھے بھی کچھ ماسک لے لینے چاہیں۔ ایسا نہ ہو بہار شروع ہو جائے تو شہر میں کوئی ماسک ہی نہ ملے۔ہسپتال کے اندر ہی میڈیکل سٹور تھا۔ میں نے قیمت پوچھی تو معلوم ہوا دس روپے کا ہے۔ ماسک لے کر میں لابی میں واپس آیا تو بلیک میں مہنگے ماسکس کی فروخت پر ایک اور سینئر تجزیہ کار قوم کی رہنمائی میں مصروف تھے۔ میڈیا نے جب ایک ماحول بنا دیا تو سوشل میڈیا کے رستم میدان میں آ گئے۔ عام نوجوان تو یہاں روایتی انداز میں کرونا وائرس کو بھی تفنن طبع کا عنوان بنا کر ہنسی مذاق میں مصروف تھے لیکن جو حضرات قدرے سنجیدہ تاثر رکھتے ہیں وہ پورے جذبے کے ساتھ قوم کی اخلاقی حالت پر سینہ کوبی میں مصروف تھے۔ ایک یونیورسٹی کے پروفیسر صاحب نے لکھا تھا: کرونا کے ابتدائی آثار ظاہر ہوتے ہی 10 روپے کا ماسک 400 روپے کا ہو گیا۔ساتھ ہی دہائی دی : اے مالک ہمارے حال پر رحم فرما۔ایک انتہائی محترم دوست نے لکھا کہ پانچ روپے والا ماسک دوہزار میں بیچا جا رہا ہے۔ان دو معتبر روایات نے مجبور کیا کہ مارکیٹ جا کر صورت حال خود دیکھی جائے۔ سپر ، جناح سپر ، بلیو ایریا، ہر جگہ ماسک اپنی مقررہ قیمت پر فروخت ہو رہا تھا۔ ایک میڈیکل سٹور پرہر آنے والے کو مفت ماسک فراہم کر رہے تھے۔اس مہم سے فاغ ہو کر جنگل ہٹ پر کافی پیتے میں یہی سوچتا رہا وہ کون سی جگہ ہے جہاں پانچ ہزار والا ماسک دو ہزار میں اور دس روپے والا ماسک چار سو میں فروخت ہو رہا ہے۔ کیا یہ ضروری ہے کہ اول خواہش کو خبر بنا دیا جائے اور پھر تجزیے کے نام پر قوم کو گالی دینی شروع کر دی جائے کہ ہائے ہائے ہم تو ہیں ہی بد عنوان۔ہمیں تو حیا اور شرم چھو کر نہیں گزری۔ہم تو لٹ گئے ۔ ہم تو برباد ہو گئے۔ ایک خیال آیا کہ میں اسلام آباد میں کھڑا ہوں ہو سکتا ہے سندھ اور بلوچستان میں واقعی پانچ روپے والا ماسک دو ہزار میں فروخت ہو رہا ہو۔پہلا فون میں نے بلوچستان حکومت کے ترجمان برادرم لیاقت شاہوانی کو کیا۔معلوم ہوا ہزاروں ماسک کراچی کی مارکیٹ سے اٹھا کر حکومت نے بارڈر ایریا میں تقسیم کیے گئے ہیں۔ غالبا یہی وجہ تھی کراچی میں ماسک کم پڑنے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ لیاقت شاہوانی نے بتایا کہ کہیں کہیںشکایات ہیںکہ دس روپے والا ماسک بیس تیس اور چالیس روپے میں بیچا جا رہا ہے لیکن چار سو یا دو ہزار والی بات غلط ہے ۔سند ھ میں سابق سینیٹر اور سندھ میڈیکل بورڈ کے سربراہ ڈاکٹر کریم خواجہ صاحب سے رابطہ کیا انہوں نے بھی ایسی ہی بات کی ۔ بلوچستان حکومت نے سارے ماسک کراچی کی مارکیت سے اٹھائے اس سے کراچی میں قلت پیدا ہونا فطری بات تھی۔ طلب اور رسد میں عدم توازن سے قیمت پر اثر پڑتا ہے اور وہ پڑا۔ یقینا کہیں بلیک میں بھی فروخت ہوئے ہوں گے۔ لیکن ہمارے ہاں جو مبالغہ آمیزی کی گئی اس کا علم اور معقولیت کی دنیا میں کوئی اعتبار نہیں۔سماج کے اچھے پہلوئوں کو یکسر نظر انداز کر ایک آدھ خرابی کو پکڑ کر اسے عمومی رنگ دیتے ہوئے سینہ کوبی شروع کر دینا اور یوں تاثر دییا جیسی اس قوم میں اچھائی تو ہے ہی نہیں، یہ کون سی صحافت ہے ؟ کیا کسی کو احساس ہے ریٹنگ اور سنسنی خیزی کا یہ آزار ہمیں کس گڑھے میں پھینکے گا۔ جب جب کوئی بحران یا چیلنج ہمارے دروازے پر دستک دیتا ہے ہمارا میڈیااسے بازیچہ اطفال بنا دیتا ہے۔معاملہ کتنا ہی سنجیدہ کیوں نہ ہو اسے پوری غیر سنجیدگی سے موضوع بحث بنایا جاتا ہے۔ سبھی یقینا ایسے نہیںلیکن عمومی صورت حال ایسی ہی ہے کہ سنجیدہ مباحث اب کہیں نظر نہیں آتے اور خوفناک سطحیت نے ہمیں اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ میدان اب اسی کے ہاتھ رہتا ہے جو اچھی ڈگڈگی بجا لے۔ کبھی کوئی مطالعہ ہو تو معلوم ہو کہ اس عمومی غیر سنجیدگی نے قوم کی نفسیات پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں۔ کرونا وائرس کے معاملے میں بھی مقصدیت کو پیش نظر رکھ کر بہت سے پہلوئوں پر بات ہو سکتی ہے اور لازم ہے ان پہلوئوں پر بات ہو۔لیکن ریٹنگ اور پاپولر جرنلزم کے آزار سے نکلے بغیر یہ نہیں ہو سکے گا۔سوال وہی ہے: قوم کو جب کسی افتاد یا آزمائش کا سامنا ہو تو میڈیا کا کردار کیا ہونا چاہیے؟ کیا اسے ذمہ داری اور سنجیدگی کے ساتھ خبر اور تجزیہ دینا چاہیے یا اس کا کام صرف ہیجان اور اضطراب کو ہوا دینا ہے؟