بہت آسان ہے کہ اپنی عقیدت کا اظہار کر کے اہل علم کو اپنے اعتبار علمی کا گواہ بنا لیا جائے اور الفاظ کی نشست و برخاست سے اپنی نگارشات کو وزن دار بنا کر حلقہ تحسین قائم کر لیا جائے۔ یہ عادت ہے قدیم سے ان لوگوں کی جو علم کو ذریعہ معاش، آلہ شہرت اور سبب عزت بنانے میں مصروف رہتے ہیں، اپنی ذات کی تمن داری کا احساس ان کی زندگی کا اہم ترین مسئلہ ہے، اسی لئے معاشرے کے دانشور، خطبائ، مبلغین اور مدعیان علم معاشرے میں اصلاح اور اشاعت علم کے نام پر منظم فکری گمراہی کو ترویج دیتے ہیں۔ اب یہی کچھ ہو رہا ہے، نچلی سطح سے لے کر بلند بام اہل علم و صاحبان حکم کی مجالس میں ماہ ربیع الاول اسلامی کیلنڈر میں ایک شناختی اور امتیازی مہینہ اس لئے ہے کہ ہر ماہ مقدس ولادت رسول اکرمﷺ کی دوامی برکات کا امین ہے۔ اسی ماہ مبارک میں رسول محتشم سید الوریٰ ﷺ کا وصال اقدس ہے کہ جب رسالت مآبﷺ نے منشائے خداوندی کے عین مطابق ابلاغ حق کا مقبول فریضہ انجام دے کر دائمی وصل کی منزل محبوبیت پر قیام کی جانب توجہ فرمائی۔ فرمایا کہ میری حیات ظاہر اور میرا وصال حق دونوں ہی امت کے لئے خدائی خیر کا باعث ہیں۔ رسالت پناہﷺ نے جس آفاقی اور حیات محمود کی تعلیم دی ہے اس میں انسانی زندگی کی تمام جہیات اور تمام مراحل کے لئے سادہ ہدایات ہیں۔ انسانی طبقات کے لئے حسب استعداد اور حسب حوصلہ راہنمائی موجود ہے اور طبقات میں باہمی ربط اور باہمی الفت کے ایسے دلکش اور احساس پرور انداز پائے جاتے ہیں کہ کسی بھی متلاشی حق کے لئے سوائے دامن اسلام کے کسی جگہ بھی امان نظر نہیں آتی مذکورہ بالا سطور کو ہم ایک دعویٰ محض با حسن عقیدت کا روایتی بیان کہہ کر صرف نظر نہیں کر سکتے کیونکہ ولادت رسالت پناہﷺ سے لے کر وصال اقدس تک کے تمام مراحل زندگی میں رسول رحمت ﷺ کا ایک ایک انسانی طبقات، اقوام عالم اور ہر دور کے ہر انسان کی ہر ضرورت زندگی کے لئے سادہ اور قابل عمل ہدایت موجود ہے۔ یہ حقیقت ادیان عالم کی تاریخ ادیان عالم کی تعلیمات اور انسانی گروہوں کی معاشرتی تمام احتیاجات کے سلسلے میں بہت واضح ہے کہ انسانی تاریخ میں رسول اکرم محمد مصطفی ﷺ سے بڑھ کر جامع ترین اور کامل ترین مصلح کوئی بھی نظر نہیں آتا۔ بظاہر تو ایسے الفاظ محض ایک دعویٰ ہی نظر آتے ہیں‘ لیکن حقیقی علمی اور تحقیقی اصولوں کے مطابق اگر ہدایات پر مبنی تعلیمات کا تقابل کیا جائے تو دین اسلام جس کی جانب رسول محتشم ﷺ نے بنی نوح انسان کو بلایا ہے۔ سب سے سادہ اور مفید ترین ضابطہ حیات نظر آتا ہے۔ اس دین کا بنیادی ضابطہ حیات اخلاقیات پر مبنی ہے اور یہ اخلاقیات اتنی وسیع اور باہم مربوط ہیں کہ بتدریج یہی اخلاقیات قانون اور معاشرتی اقدار کی مستقل بنیادیں بن جاتی ہیں۔ قرآن کریم نے اس بلندی کو وانک لعلیٰ خلق عظیم۔ کہ اے رسول اکرم ﷺ بالیقین آپ اخلاق کی اعلیٰ ترین عظمتوں پر فائز ہیں اور خود سید کونین ﷺ نے اپنی بعثت کا مقصد بلند یہ ارشاد فرمایا کہ بعثت لا تمم مکارم الاخلاق کہ مجھے بھیجا ہی اسی لئے ہے کہ میں عمدہ اور بلند اخلاقیات کی تکمیل کر دوں۔ کسی بھی دور میں اخلاقیات کے بارے انسانی معاشروں کی زندگی اور ان کی بین الاقوام عزت برقرار رہ نہیں سکتی۔ اب سرکار عالمین پناہ ﷺ اس کمال دین کے امین مطلق ہیں۔ شارح اور شارع ہیں۔ قرآن کریم ان کی سیرت کو بیان کرتا ہے ان کی صورت کا تذکرہ کرتا ہے ان کے شہر مکرم کو قسم سے یاد کرتا ہے۔ عمر مبارک اعتماد کا معیار بنا کر ہر قسم سے یاد فرماتا ہے۔ ان کے مجاہدین کے گھوڑوں کے اڑتے ہوئے غبار کو معتبر بنا کر کلام میں تاکید اور توجہ کا دروازہ کھولتا ہے۔ محمد مصطفیٰ ﷺ کا خلق سراپا قرآن ہے۔ کتاب ہدایات کی عملی تفسیر ذات رسالت پناہﷺ ہے۔ قرآن اور رسالت مآب ﷺ کو کبھی بھی جدا نہیں کیا جا سکتا، اس لئے قرآن کی حقیقت میں غوطہ زن ہونے کا ارادہ رکھنے والے کے لئے بہت ہی ضروری ہے کہ وہ اپنی ذات و صفات کو قرآنی نورسے مجلیٰ کرے، قرآنی نور اسی شخص کو نصیب ہوتا ہے جو محمد رسول ؐ سے روحانی قربت اختیار کرتا ہے، صاحب سیرت سے وابستگی کی شرط اول یہ ہے کہ جان‘ مال، اولاد ‘ والدین تمام دنیا و مافیھا سے بڑھ کر ان کی غیر مشروط محبت اور بیکراں جذب دروں سے اپنے وجود کو مزین کرے۔ اس کریم رسولﷺ کو اپنی جان کا ہر لحاظ سے متصرف خیال کرے۔ کہ النبی اولیٰ بالمومنین من انفُسھم۔ وہ مومنین کی جان پر ان سے زیادہ تصرف کے حقدار ہیں۔ یہی جذبہ ایمان تھا کہ خالص توحید کے علمبردار صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین میدان جہاد میں مرحلہ قرب شہادت پر بھی اس محبوب خداﷺ کی رضا جوئی کی سند حاصل کرنا ضروری سمجھتے تھے۔ ایسا ہوا کہ ایک صحابی ؓ انتہائی زخمی حالت میں اتباع کے جذب دروں کو فراموش نہ کرسکے۔زخموں سے بدن چور چور تھا بدن مبارک کو گھسیٹتے گھسیٹتے قرب شافع امم اختیار کیا اورپائے اقدس پر بوسہ دیتے ہوئے عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ آپ میری خدمت سے خوش ہیں نا؟ اب اسے سند افتخار حاصل ہوئی مقبولیت بار گاہ حبیب ﷺ کا تمغہ نبوی و اخروی نصیب ہوا اور تمام اہل ایمان کے لئے نصاب ایمان کا ایک باب مرتب ہو گیا کہ اپنی تمام جہد کاری، جاں نثاری اور اعلیٰ ترین قربانی کے باوجود جب تک رضائے رسول ﷺ کی تصدیق نہ ہو جائے تب تک ربانی مہربانیوں کے دروازے نہیں کھلتے۔ کروں نام پہ تیرے جاں فدا نہ بس اک جاں دو جہاں فدا دو جہاں سے بھی نہیں جی بھرا کروں کیا‘ کروڑوں جہاں نہیں