ملک کی بڑی اپوزیشن جماعتیں حکومت کے خلاف متحد ہو گئیں ہیں اور پوری قوت کے ساتھ مزاحمت کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اپوزیشن دبائو بڑھا کر نیب کرپشن کیسز میں احتساب سے بچنا چاہتی ہے۔ لیکن احتساب پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں ہو گا۔22سالہ جدوجہد کے بعد تحریک انصاف کو اقتدار ملا تو اس نے اپنے وعدے کے مطابق کرپشن کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کا فیصلہ کیا۔ وفاق اور پنجاب میں اپوزیشن پر معمولی عددی برتری کے باوجود پی ٹی آئی احتساب سے پیچھے نہیں ہٹ رہی۔ مسلم لیگ(ن) کی قیادت جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہے جبکہ پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت سمیت 172افراد کے نام ای سی ایل میں موجود ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے 7جنوری کو اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ حکومت بلاول زرداری اور وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے ناموں کا جائزہ لے۔ اسی مناسبت سے حکومت نے ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دے کر یہ معاملہ اس کے سپرد کر دیا تھا لیکن پیپلز پارٹی اس معاملے پر کافی پریشان نظر آتی ہے ،کیونکہ جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق بلاول کے سفری اخراجات کی ادائیگی ان اکائونٹس سے ہوئی ہے جو مشکوک ہیں۔ اس تناظر میں نیب نہ صرف انہیں طلب کرے گی بلکہ اسے سارے معاملے کا حساب بھی دینا پڑے گا۔ لہٰذا پیپلز پارٹی بلاول کے سیاسی کردار پر ایسا کوئی بھی دھبہ لگنے سے خوف زدہ ہے۔ اسی بنا پر سابق صدر آصف علی زرداری اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کے پاس خود چل کر گئے اور وہاں سے نکلتے ہی گرینڈ الائنس کا شوشہ چھوڑ دیا۔ حالانکہ ماضی قریب میں آصف زرداری برملا اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ شریف برادران کے دور حکومت میں بنائے گئے مقدمات کا عدالتوں میں سامنا کر رہے ہیں۔ اس بنا پر پیپلز پارٹی نے سینٹ کے الیکشن میں چیئرمین سیٹ کا ووٹ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ صادق سنجرانی کو دیا۔ جبکہ وزیر اعظم کے لئے پیپلز پارٹی نے میاں شہباز شریف کو ووٹ نہیں دیا اور بلاول نے( ن )لیگ سے اپنا امیدوار تبدیل کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ صدارتی انتخاب میں مسلم لیگ(ن) نے مولانا فضل الرحمن کو نامزد کیا تو پیپلز پارٹی نے اپنے امیدوار اعتزاز احسن کو میدان میں اتار دیا۔ ہر موقع پر آصف علی زرداری نے اپنے پتے سوچ سمجھ کر استعمال کئے۔ کیونکہ وہ کسی طور بھی مسلم لیگ ن کو ریلیف دینے یا مدد فراہم کرنے کے خلاف تھے۔ دوسری جانب میاں شہباز شریف بھی اپنی تقاریر میں متعدد مرتبہ آصف علی زردای پر کڑی تنقید کر چکے ہیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے سابق صدر کو سڑکوں پر گھسیٹنے کا اعلان بھی کیا تھا۔ آصف علی زرداری کی رائیونڈ آمد پر میاں شہباز شریف نے ان سے ملاقات بھی نہیں کی تھی لیکن دونوں لیڈرز اب کڑے احتساب سے بچنے کے لئے گلے مل گئے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے متعدد مرتبہ جلسہ عام میں یہ پیشین گوئی کی تھی کہ احتساب سے بچنے کے لئے یہ دونوں جماعتیں اپنے اختلافات بھلا کر باہم شیرو شکر ہو جائیں گی۔ آج عمران خان کا وہ دعوی سچ ثابت ہوا ہے۔ بلاول زرداری بھی اپنے مستقبل کی فکر چھوڑ کر وقتی ریلیف کے لئے میثاق جمہوریت پر آمادہ ہو گئے ہیں۔ شاید زرداری صاحب نے بلاول کو گرفتاری اور کیسز کا ڈراوا دے کر اس ڈیل پر آمادہ کیا ہو۔ لیکن حقیقت میں اس گٹھ جوڑ کے باعث بلاول کا مستقبل تاریک ہو جائے گا۔ شریف برادران اور خود آصف زرداری تو اپنی سیاست کر چکے لیکن وہ خود کو بچانے کے لئے بلاول کے مستقبل کو بھی مفاہمت کی بھینٹ چڑھا رہے ہیں۔ گو شہباز زرداری ملاقات میں دونوں جماعتوں کے مابین قربت کے آثار پیدا ہوئے ہیں۔ جبکہ مشترکہ اعلامیے میں وفاقی حکومت کی سندھ پر یلغار کی بھی مذمت کی گئی ہے۔ تاہم مسلم لیگ( ن) پیپلز پارٹی کی حمایت میں ایک حد سے آگے نہیں جائے گی۔ کوٹ لکھپت جیل میں قید میاں نواز شریف سے سابق گورنر پنجاب اور پیپلزپارٹی کے رہنما مخدوم احمد محمود ملاقات کر کے انہیں اکٹھے چلنے کا زرداری کا پیغام پہنچا چکے ہیں لیکن مسلم لیگ(ن) کے باوثوق ذرائع کے مطابق میاں نواز شریف نے اپنی جماعت کو محتاط رہنے کا حکم دیا ہے۔ وہ آصف علی زرداری کے جال میں پھنسنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اس لئے فی الفور اس گٹھ جوڑ کا کوئی خاص نتیجہ سامنے آنے کی امید بھی نہیں ہے۔ احتسابی عمل شروع ہونے پر دونوں جماعتوں کو پھر میثاق جمہوریت یاد آ گیا ہے۔ عوام کا حافظہ کمزور ہوا ہے نہ ہی میڈیا کے اس دور میں آپ عوام کو دھوکہ دے سکتے ہیں ۔ عوام احتسابی عمل کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کرنے والوں کے چکمے میں آئیں گے نہ ہی جمہوریت کمزور کرنے کے کسی معاملے میں ان کا ساتھ دیں گے۔اس لیے اپوزیشن ذہن سے یہ بات نکال دے کہ وہ عوام کو سڑکو ں پہ لا کر اپنے مفادات حاصل کر لے گی۔ تحریک انصاف کے وزراء بھی ذرا صبر و تحمل سے کام لیں۔ اپنی حکومت کے لئے مشکلات پیدا نہ کریں۔ گزشتہ روز ہی وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے ق لیگ میں فاورڈ بلاک بنانے کی بات کی جس پر ق لیگ نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اتحاد سے نکلنے کی دھمکی دی ہے۔ پہلے ہی حکومتی وعدوں پر عملدرآمد نہ ہونے پر بی این پی مینگل اپوزیشن کے اجلاس میں شریک ہوئی ہے۔ اس سے قبل ایم کیو ایم نے بھی ساتھ چھوڑنے کی دھمکی دی تھی۔ لہٰذا حکومت اتحادیوں کے ساتھ کئے وعدوں کو پورا کرے۔ اگر اتحادی بھی الگ ہو گئے تو پھر حکومت مشکلات سے دوچار ہو سکتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان ذاتی طور پر اتحادیوں کے مطالبات پورے کر کے ان کے اعتماد پر پورا اتریں۔ تاکہ موجودہ سسٹم چلتا رہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ معیشت کی بہتری اور عوامی فلاح کے منصوبے تشکیل دیں ۔جس سے بے چینی کا خاتمہ ہو۔