منگل کو جو زلزلہ آیا ‘ اس نے آدھے ملک کی زمین ہلا دی لیکن اصل ہدف میر پور کا علاقہ تھا جہاں بہت تباہی ہوئی۔ کتنی ہی قیمتی جانیں اس کی نذر ہوئیں اور انگنت مکانات تباہ ہو گئے۔ سڑکوں کی تباہی نے امدادی راستے بھی مسدود کر دیے۔ اللہ رحم کرے۔ اس زلزلے نے 2005ء کے زیادہ بڑے اور بہت ہی برباد کن زلزلے کی درد ناک یادیں تازہ کر دیں۔ اتفاق سے اس وقت بھی یہی بارات حکومت کر رہی تھی جو اب مسند پر براجمان ہے۔ دولہا میاں البتہ بدل گئے۔ تب کے دولہے میاں ستر سال کے بڑے میاں تھے آج کے بڑے میاں پورے ستر سال کے تو نہیں‘ تقریباً ستر سال کے البتہ ضرور ہیں۔ یعنی تقریباً بڑے میاں ضرور ہیں۔ تب کا ایک اور المیہ یہ بھی ہوا کہ بڑے میاں نے امدادی سرگرمیوں میں رکاوٹ ڈالی۔ پتہ نہیں کیوں۔ پھر بھی جماعت الدعوہ اور جماعت اسلامی نے متاثرہ عوام کی خدمت کا حق ادا ک دیا۔ اب جو زلزلہ آیا ہے تو جماعت الدعوہ موجود نہیں ہے۔ اس کے امدادی اور خدمت خلق کرنے والے ادارے دہشت گرد قرار دے کر بحق سرکار ضبط کئے جا چکے ہیں۔ خدا آفات سے محروم رکھے۔ لیکن آفات تو آ کر رہتی ہیں۔ اضافی آفت یہ حکومت بنی ہے کہ اس نے رفاعی اور امدادی ادارے بھی بند کر دیے ہیں۔ اب اکیلی جماعت اسلامی کا شعبہ خدمت خلق باقی رہ گیا ہے یا پھر ایک مخصوص دائرے میں ایدھی اور چھیپا فائونڈیشن۔ ٭٭٭٭٭ ان بڑے میاں کے کارنامے اتنے ہی نہیں تھے کہ امدادی سرگرمیاں روکیں بلکہ یہ بھی کہ باہر سے جو بے تحاشا امداد آئی وہ بھی کہیں اور ٹھکانے لگا دی۔ نقد رقم تو سیدھے سیدھے ہڑ پ کر لی۔ آج تک متاثرین تک نہیں پہنچی اور جو سامان اور خوراک کے ڈبے آئے‘ وہ بھی راجہ بازار کی دکانوں تک پہنچ گئے‘ متاثرین تو ان کی شکل دیکھنے سے بھی محروم رہے۔ اس امدادی سامان کی مالیت کتنی تھی اور وہ راجہ بازار میں کتنی قیمت پر بکے۔ کسی کو پتہ نہیں ہاں راجہ بازار کے راجی جی کو ضرور پتہ ہو گا وہ تب بھی وزیر تھے آج بھی وزیر ہیں۔ اب دیکھیے جو امدادی ڈبے آئیں گے وہ کہاں فروخت ہوں گے۔ راجہ بازار ہی میں یا پشاور میں بھی؟ راجہ جی ہی کو بہتر اندازہ ہو گا۔ ٭٭٭٭٭ خبر ہے کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے اووربلنگ کر کے صارفین کی جیبوں سے 33ارب نکلوا لئے۔ شاید اس لئے کہ بجلی کے نرخوں میں ماہ بہ ماہ اضافہ سے سرکار کا گھر پورا نہیں ہو رہا تھا۔ کسی کی جیب سے یوں رقم نکالنے کو کیا کہتے ہیں؟ کوئی بھلا سا نام ہے اور نکالنے والے کو کیا کہتے ہیں؟اس کا بھی کوئی بھلا سا نام ہے۔ خبر ‘ اس عمل کی تکرار مسلسل سے چارلس ڈکنز کا کلاسیکل ناولٹ ’’آلیور ٹوسٹ‘‘ یاد آ گیا۔ اس ناولٹ آلیورنام سے کوئی درجن بھر فلمیں بنیں اور سب نے دھوم مچا دی تھی۔ ہمارے ہاں جو فلم چل رہی ہے۔ اس میں آلیور کون ہے‘ مسفر ممبل کون اور پھر وہ فاگن (Fagin)کون ؟ دھوم کی دھمال ذرا کم ہو تو پتہ چلے۔ کہتے ہیں بجلی کے نرخ ہر ماہ بڑھاتے چلے جانے اور پھر ہر ماہ کی اس اووربلنگ کا مقصد نہایت نیک ہے۔ یہ کہ قومی خسارہ کم کیا جائے۔ تازہ خبر ہے کہ مذکورہ نیک مطلوب اقدامات کے علاوہ خسارہ کم کرنے کے لئے اس سال مزید 13ارب روپے کے قرضے لئے جائیں گے۔ یا خدایا’ قومی خسارہ کس قومی بلیک ہول کا نام ہے۔ سارے عوام کی جیبیں خالی ہو گئیں اور پیٹ بھی لیکن بلیک ہول کا پیٹ ہے کہ بھرتا ہی نہیں‘ ہل من مزید کی کڑک سے کلیجے ہلے جاتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ مسلم لیگ کے رہنما احسن اقبال کو شکوہ ہے کہ شوگر کنگ کو نوازنے کے لئے میتھانول پر اربوں کی ڈیوٹی معاف کر دی گئی۔ سرکاری خزانے کو اربوں سے محروم کر کے شوگر کنگ کو دے دینے کے اس عمل کو انہوں نے واردات قرار دیا ہے۔ جو ٹھیک نہیں۔ سرکاری خزانہ بے شک قوم کا خزانہ ہے لیکن شوگرکنگ بھی تو سرکاری اور قومی خزانہ بلکہ اثاثہ ہے۔ ایک سرکاری خزانے سے اربوں نکلے‘ دوسرے خزانے میں گئے‘ واردات کہاں ہوئی۔ اور ہاں شوگر کنگ اس سے پہلے شوگر کی سب سڈی کی مد میں بھی اربوں وصول کر چکا ہے پھر 48کی چینی 80تک ہوئی اس کی بات الگ ۔ یہ سب قوم کے خزانے سے قوم کے خزانے تک منتقلی کا عمل ہے۔ براہ کرم اسے کرپشن مت کہیے‘ یہ نام ماضی کا حصہ تھا‘ اب اسے دوست نوازی کا نام نام دیا گیا ہے۔ مولّفتہ القلوبِ الا جناب بھی کہا جا سکتا ہے۔ ٭٭٭٭٭ جنوبی پنجاب کے ایک دانشور عرصہ چھ سات برس سے اپنی تحریروں اور ٹی وی پروگراموں میں کامیابی کے ساتھ جمہوریت کے رزائل اور عمرانیت کے فضائل بیان کرتے آ رہے ہیں۔ دو تین دن پہلے ان کی تحریر نظر سے گزری جس میں انہوں نے اپنا جنوبی پنجاب کا حوالہ دیا اور مشاہدہ بیان کیا کہ وہاں حالا ت بدتر تھے بدترین ہو گئے ہیں۔ رشوت اور کرپشن انتہا کو پہنچ گئی ہے وغیرہ وغیرہ۔ سبحان تیری قدرت۔ بڑی جلدی فضائل رزائل میں بدل گئے۔ خیر ان سے عرض ہے کہ کرپشن انتہا کو صرف جنوبی نہیں ‘ بالائی پنجاب میں بھی بالائی پنجاب میں بھی پہنچ گئی ہے بلکہ انتہا سے بھی آگے نکل گئی ہے وہ تو حب الوطن میڈیا کی خیر ہو کہ ہر طرف ایمانداری دکھا رہا ہے۔ ملک کا کون سا حصہ ہے جہاں برکات عمرانی کی برکھا جم کر نہیں برس رہی۔ برسبیل تذکرہ ایک کام پڑا تو معلوم ہوا رشوت کا ریٹ دوگنا بلکہ تگنا ہو چکا ہے پوچھا پہلے تو کم ’’نذرانے‘‘ پر کام ہو جاتا تھا۔ فرمایا مہنگائی بھی تو دیکھو‘ اوپر سے بجلی گیس کے نرخوں نے تنخواہ آدھی کر دی ہے۔ پرانے ریٹ اب نہیں چلیں گے۔ رشوت کے نئے نرخ نافذ العمل ہوں گے۔