وزیر اعظم عمران خان نے اپنی حکومت کا پہلا بجٹ پیش کرنے کے بعد قوم سے خطاب کرتے ہوئے کرپشن کی تحقیقات کے لئے کمیشن بنانے کا اعلان کیا ہے۔ یہ کمیشن گزشتہ دس برسوں کے دوران 24ہزار ارب روپے کے قرضوں اور ان کے استعمال کی تحقیقات کرے گا۔ وزیر اعظم خود اس کمیشن کی نگرانی کریں گے جبکہ اس میں آئی بی‘ ایف آئی اے‘ ایف بی آر‘ آئی ایس آئی اور ایس ای سی پی کے نمائندے بطور اراکین شامل ہوں گے۔ اپنے خطاب میں وزیر اعظم نے بجٹ کو ریاست مدینہ کی روایات سے ہم آہنگ قرار دیا ۔ وزیر اعظم عمران خان نے اس موقع پر سابق وزیر اعظم نواز شریف‘ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف‘ سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کے خاندانوں کو منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے مشکل حالات میں مدد فراہم کرنے پر دوست ممالک سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اور چین کا شکریہ ادا کیا۔ وزیر اعظم کا یہ کہنا بجا ہے کہ جن لوگوں نے ملک کو قرضوں کی زنجیر میں جکڑا اور اپنے اثاثے بیرون ملک بنائے انہیں پاکستان سے کوئی سروکار نہیں۔ اپنے خطاب میں انہوں نے اپوزیشن جماعتوں کی حکومت مخالف تحریک کو این آر اوکیلئے دباؤ کا حربہ بتایا۔ بجٹ سازی ایک پیشہ وارانہ مہارت اور وسیع علم رکھنے والوں کا کام ہے۔ پاکستان میں ایسے لائق لوگوں کی کبھی کمی نہیں رہی مگر ہر سال خسارے کے بجٹ سے ریاست کے تمام اخراجات چلانا ناقابل فہم ہے۔ اس سے بھی ناقابل فہم بات یہ ہے کہ بجٹ میں مختلف منصوبوں کے لئے مختص رقوم کے درست یا غلط استعمال کی پڑتال کا نظام موجود نہیں۔ آڈیٹر جنرل پاکستان کا ایک ادارہ ہے۔ یہاں ہر سال ہزاروں آڈٹ پیراز پر اعتراضات آتے ہیں جن میں سے بمشکل چند سو کا جائزہ لیا جاتا ہے یا پھر ان پر کوئی کارروائی عمل میں آتی ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ حکومتوں نے اپنی مالی بدانتظامیوں کو اپنے وفادار افسران کے ذریعے چھپانے کی کوشش کی ہے۔ اس لحاظ سے گزشتہ دس سال کا عرصہ خصوصاً خرابیوں سے بھرا ہے۔ جنرل پرویز مشرف اقتدار سے رخصت ہوئے تو ملک غیر ملکی قرضوں سے لگ بھگ آواز ہونے کو تھا۔ جنرل پرویز مشرف کے پورے دور اقتدار میں عالمی مالیاتی فنڈ کا صرف ایک ارب ڈالر قرض لیا گیا۔ یہ 2008ء میں آنے والی پیپلز پارٹی کی حکومت تھی جس نے اپنے پانچ سال کی آئینی مدت میں متعدد بار آئی ایم ایف سے قرض لیا۔ یہ قرض کہاں استعمال ہوا اور اس کا فائدہ ریاست کو کیسے ہوا یہ بات سامنے نہیں آ سکی۔2013ء میں نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ ن اقتدارمیں آئی۔ دعویٰ کیا گیا کہ یہ تجربہ کار شخصیات پر مشتمل ٹیم ہے۔ اس تجربہ کار ٹیم نے چالیس ارب ڈالر کے قرضے لئے۔ جولوگ قرضوں کے مضمرات سے واقف تھے وہ دستیاب پلیٹ فارمز پر مشورہ دیتے رہے۔ ذرائع ابلاغ میں حکومت کو تجاویز ملتی رہیں کہ اس قدر بڑے حجم کے قرضے اس وقت قومی سلامتی کے لئے خطرہ بن جاتے ہیں جب آپ کا پیداواری اور برآمدی شعبہ کمزور ہو۔ سابق حکومت نے ایسے مشوروں کو نظراندز کر کے میگا ٹرانسپورٹ منصوبے شروع کر دیے۔ یہ منصوبے خسارے کا سودا تھے۔ آج بھی سرکاری خزانے سے ان کا خسارہ پورا کیا جا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان 2006ء میں میثاق جمہوریت ہوا۔ اسی میثاق جمہوریت کی وجہ سے دونوں جماعتوں کی قیادت وطن واپس آ کر سیاست میں حصہ لینے کے قابل ہوئی۔ افسوسناک امریہ ہے کہ میثاق جمہوریت میں دونوں جماعتوں نے سیاست اور اقتدار سے متعلق معاملات میں ایک دوسرے سے تعاون پر اتفاق کیا لیکن احتساب کے عمل کو نظر انداز کر دیا۔ دونوں جماعتوں کے رہنمائوں نے گزشتہ دس سال کے دوران حکومت اور اپوزیشن کا کردار نبھایا ہے۔ دونوں اس امر سے آگاہ ہیں کہ اختیار ذمہ داری کے ساتھ استعمال نہ کیا جائے تو اس سے بدانتظامی اور بدعنوانی جڑ پکڑ لیتی ہے۔ پانامہ لیکس پر بننے والی جے آئی ٹی اور جعلی اکائونٹس و منی لانڈرنگ پر نیب کی حالیہ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ سابق حکمرانوں اور ان کے قریبی افراد نے بیرون ملک اربوں روپے کے اثاثے بنا رکھے ہیں۔ یہ سب وہ لوگ ہیں جن کے ٹیکس گوشواروں میں ظاہر کئے گئے ذرائع آمدن ان اثاثوں کی مالیت کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔ حالیہ دنوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے مرکزی رہنمائوں کو مالیاتی جرائم کے الزامات میں گرفتار کیا گیا ہے۔ ان کی گرفتاری پر دونوں جماعتیں احتجاج کر رہی ہیں۔ ایک خالصتاً قانونی عمل کو سیاسی انتقامی کا نام دیا جا رہا ہے۔ گرفتار افراد کی سیاسی خدمات کو بڑھا چڑھا کر بتایا جا رہا ہے اور ان سوالوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے جو کئی بار پچھلے دس سال میں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اٹھائے جاتے رہے ہیں۔پاکستان میں کرپشن بڑھنے کی بنیادی وجہ احتساب کا کمزور نظام ہے۔ جب کبھی احتساب کو مضبوط بنانے کی کوشش ہوئی تو اس کے پس پردہ بھی سیاسی مفادات کار فرما رہے۔ نظام کی اس کمزوری کا فائدہ اٹھا کر ایسے لوگ سیاست میں نمایاں ہوتے گئے جو بینکوں سے قرضے معاف کرانے‘ منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری میں ملوث تھے۔ بااثر سیاستدانوں نے بجلی اور گیس کے ناجائز کنکشن استعمال کئے اور ترقیاتی منصوبوں میں کمیشن کھایا۔ اس ماحول کو بدلنے سے حکومتوں کی سیاسی مقبولیت اور حمایت میں کمی آ سکتی تھی اس لئے اصلاح احوال کا کوئی چارہ نہ کیا گیا۔ وطن عزیز میں وائٹ کالر جرائم کا ہدف ریاستی وسائل رہے ہیں۔ دس برسوں میں چوبیس ہزار ارب روپے کا معمولی حصہ ڈیموں کی تعمیر پر لگا دیا جاتا تو آج پاکستان توانائی میں خود کفیل ہوتا۔ آبپاشی کے لئے پانی وافر مقدار میں دستیاب ہوتا۔ قرضوں کے استعمال اور دس برسوں میں کرپشن کی تحقیقات کا فیصلہ ہر لحاظ سے قابل تحسین ہے۔ ایک بار جرائم کی نوعیت ‘ طریقہ اور نقصان کا درست اندازہ ہو جائے تو آئندہ کے لئے حفاظتی اقدامات کرنا ممکن ہو گا۔