خدا جانے کرکٹ میں اپنی ہار کا رونا کیوں رویا جا رہا ہے حالانکہ سب جانتے ہیں کہ جو کچھ ہوا ہے یہی کچھ ہونا تھا۔ آپ سوچیں گے کہ پھر اس پر میں کیوں خامہ فرسائی کر رہا ہوں۔ آپ بالکل درست سوچیں گے، اصل میں میری نظر ایک پوسٹ پر پڑی جس پر حسیب احمد حسیب نے کرکٹ کا مرثیہ بشکل مخمس لکھا ہے۔ مخمس پانچ مصروں والی ہیئت کو کہتے ہیں: شائق تھے پشیمان جو مغموم سے نکلے شکوہ نہیں بے جا دلِ مظلوم سے نکلے اپنے بھی کھلاڑی تھے جو معدوم سے نکلے اک نعرۂ مستانہ یہ حلقوم سے نکلے کرکٹ کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے اس مخمس میںجو کچھ کہا گیا ہے وہ سمجھ میں آ رہا ہے۔ میں اس کے فنی محاسن پر کچھ نہیں کہوں گا تا ہم ایک دلچسپ نکتہ وضاحت طلب ہے کہ اس کے پانچویں مصرعے میں کرکٹ Cricketکو کرکٹ یعنی کوڑے والا ’’کوڑا کرکٹ‘‘ باندھا گیا ہے۔ لاشعوری طورپر یہی لفظ کرکٹ ٹیم پر فٹ آتا ہے مگر اس سے مصرع خارج از بحر ہو گیا ہے۔ یہ وہی مصرع ہے ناں: ’’عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے‘‘ ریئس امروہی نے اپنے ایک قطعہ میں اس میں تصرف کر کے لکھا تھا ’’اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے‘‘ کہتے ہیں کہ جب بھٹو نے اردو کے خلاف کوئی قانون پاس کیا تھا تو باقاعدہ اردو کا جنازہ نکالا گیا تھا۔ ویسے اگر اس وقت یہ جنازہ نہیں بھی نکلا تھا تو اب پرائیویٹ انگریزی سکولوں میں نکل چکا ہے کہ بچے اس قومی زبان سے ناآشنا ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ آپ کسی بچے کو اٹھائیس یا انتیس پوچھ کے دیکھ لیں، نہیں بتا سکے گا۔ گویا اردو گنتی میں بھی نہیں ہیں۔ ایک بے چاری فاطمہ قمر ہے جو عزیز آزاد اور کچھ اور دانشوروں کے ساتھ مل کر اس تن مردہ میں سانسیں ڈھونڈ رہی ہے۔ میرے پیارے اور معزز قارئین! میں یونہی جذباتی ہو گیا وگرنہ تو میں کرکٹ پر ہی لکھ رہا تھا۔ مگر کرکٹ پر کیا لکھا جائے۔ ایک اور من چلے نے پوسٹ لگائی ہے کہ کرکٹ ٹیم واپس آ رہی ہے تو صورتِ حال عجیب ہے کہ ان کا ٹماٹروں سے بھی استقبال نہیں کیا جا سکتا۔ اصل میں وہ کہنا چاہتا ہے کہ ٹماٹر اتنے مہنگے ہیں کہ گندے اور گلے سڑے ٹماٹر بھی اب کوئی نہیں پھینکتا۔ ظاہر ہے جب سے برگر اور شوارما کا دور آیا ہے تب سے باہر پھینکے گئے گندے انڈے اور ٹماٹر نہیں دیکھے۔ مجھے فوڈ ڈیپارٹمنٹ کا وہ آفیسر یاد آیا جس نے ٹی وی پروگرام میں بتایا تھا کہ اس نے مچھلی کی ایک مشہور دکان پر چھاپہ مارا تو اس ’’ماہی گھر‘‘ کے اوپر والے فلورز پر ٹنوں کے حساب سے مچھلی موجود تھی۔ اس مصالحہ لگی مچھلی میں کاکروچ کیا، ہر قسم کے حشرات الارض رینگ رہے تھے۔ پھر وہ کہنے لگا کہ مچھلی کا ذائقہ ایسے ہی تو نہیں بن جاتا۔ وہ درست کہہ رہا تھا آپ کبھی ہوٹلوں میں لڑکوں کو آٹا گوندھتا دیکھیں۔ میں نہیں کہوں گا کہ وہ اس میں پیروں کا بھی استعمال کرتے ہیں، کم از کم پسینہ تو اس کو ضرور نمکین کرتا ہے۔ پھر مجھے خیال آیا کہ اس مچھلی مافیا کو ہاتھ ڈالنے والا اصل میں مگر مچھ سے بیر کماتا ہے۔ آپ نے دیکھا نہیں کہ ایک ممتاز نامی آفیسر نے ہوٹلوں پر ناقص فوڈ پکڑی تو اس کو منظر ہی سے ہٹا دیا گیا کہ اس سے تاجر ن لیگ سے ناراض ہو رہے تھے۔ انہی کی سیاسی رشوت سے تو الیکشن کے اخراجات اٹھتے ہیں۔ پھر کہاں کہاں ان کی مچھلی فری جاتی ہے اور جہاں یہ مچھلی فری جاتی ہے ان کی مرضی ہے جو مرضی کھلا دیں۔ یہ وہی ہیں جو حرام کھانا صرف اپنے گھر کے کھانے کو سمجھتے ہیں۔ خیر آتے ہیں کرکٹ کی طرف، ڈاکٹر کاشف رفیق جو کہ کرکٹ پر کافی ایکسپرٹ ہے بتا رہا تھا کہ امید رکھنی چاہیے کہ یہ ٹیم دوچار سال کے بعد ٹھیک ہو جائے گی کہ عمران خان نے گراس روٹ سطح پر تلقین کی ہے کہ لڑکوں کو ہنٹ کیا جائے۔ کاشف کی دلچسپی بابر اعظم میں ہے اور اتفاق سے مجھے بھی یہی ایک کھلاڑی نظر آتا ہے جو کم ہی مایوس کرتا ہے۔ ہم نے اپنی ٹیم کا حشر تو سری لنکا کی تھرڈ کلاس ٹیم کے ہاتھوں ہی دیکھ لیا تھا۔ ویسے ایسی ٹیم کو کم از کم شاہین تو نہیں کہنا چاہیے۔ بہرحال ہارکے تسلسل نے ورلڈ ریکارڈ تو بنا دیا ہے۔ دُکھ تو یہ ہے کہ ہمارا روایتی حریف ٹیسٹ میں پہلے نمبر پر ہے۔ یہ تو شکر کریں کہ وہ یعنی بھارت والے ہم سے کھیلنا نہیں چاہتے۔ ہم ان سے ورلڈ کپ تو باقاعدگی سے ہارتے ہیں۔ کیا کریں ہم ہر دفعہ عہد کرتے ہیں کہ اب کرکٹ نہیں دیکھنی مگر کیا کریں پھر بیچاری ٹیم کھیلتی ہے تو ہم دیکھنے بیٹھ جاتے ہیں۔ جب ایک ٹیسٹ اننگز سے ہار چکے تو کپتان اظہر کہنے لگا ہم کم بیک come backکریں گے۔ میں نے دوست سے کہا اس کا مطلب یہ وہ جلدی واپس آئیں گے۔ دوسرے ٹیسٹ میں یہ چار دن بھی نہ گزار سکے۔ ہماری ناکامی کی کئی وجوہات ہیں جن میں اصل وجہ تو ہماری ٹیم کا کمزور ہونا ہے مگر نئے لڑکے ہیں، پھر وہاں کی پچیں بہت تیز ہیں۔ نئے کھلاڑی رنز بنانے کی بجائے اپنی وکٹ گنوا دینے کے خوف میں ہوتے ہیں اور وکٹ بچانے کے لیے کچھ زیادہ ہی محتاط۔ یہ نفسیاتی بات ہے بے دھڑک ہو کر کھیلنے سے کبھی کبھی بائولر بھی سنچری سکور کر جاتا ہے۔ آسٹریلیا کی ٹیم پروفیشنل ہے ہمارے اکثر کھلاڑی تو جیسے ٹرائل پر ہیں۔ کوچ اور سلیکٹر کی پسند اور نا پسند بھی یقینا چھوٹی موٹی وجہ ہو سکتی ہے۔ ویسے تو کون جانتا ہے کہ سفارش بھی بعض کے پیچھے ہو۔ کبھی کبھی تو ہمیں ایسے لگتا ہے کہ کرکٹ میں سیاست اور سیاست میں کرکٹ در آتی ہے۔ سنجیدگی ہمیں کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ آپ ذرا سیاست پر ہی نظر ڈال لیں تو آپ کو غیر سنجیدہ صورت حال واضح نظر آ جائے گی۔ مثلاً لنگر خانوں کے کھلنے کی بات اور ان میں لاکھوں بھوکوں کے بھوک مٹانے کی بات۔ ایک دم سب کچھ مبالغہ آرائی ویسے بھی لنگر خانے کھولنا کونسا کارنامہ ہے۔ بے روزگاری ختم کریں تو بات ہے۔ کافی باتیں ادھر ادھر کی ہو گئیں۔ اب میں چاہتا ہوں کہ جاوید قاسم کی ایک نہایت خوبصورت غزل سے چند اشعار آپ کو پڑھا دوں۔ اچھے شعر کی تعریف تو بس واجب ہو جاتی ہے۔ دل کی دھڑکن سے نہ سانسوں کے اثر سے جانا اپنے ہونے کا پتہ تیری خبر سے جانا جنس بے کار نہیں ہم سے بھی آوارہ مزاج تو نے دیکھا تو ترے حسنِ نظر سے جانا کتنا دشوار ہے محبوب کی گلیوں کا سفر سر میں جب خاک پڑی، راہگزر سے جانا کس طرح رات ڈھلی کتنے ستارے ٹوٹے شبِ ہجراں کی اذیت کو سحر سے جانا