حاصل عمر وہی طفل ہے اک گریہ کناں ہاتھ سے چھوٹ گئے جس کے غبارے سارے نظر انداز کیا میں نے بھی اس دنیا کو اور دنیا نے بھی پھر قرض اتارے سارے زندگی کی دھوپ چھائوں ہی آپ کو تجربات سے گزر کر نتائج سے ہمکنار کرتی ہے۔ آدمی سوچ سمجھ کر آگے بڑھے یا بے نیاز ہو کر وہ ایک دفعہ پیچھے مڑ کر دیکھتا ضرور ہے۔ وہ اپنے موسموں کو اگر دہرا نہیں بھی سکتا مگر تخیل تو اس کے پاس ہے۔ دائرہ تو اسے مکمل کرنا ہوتا ہے ۔ایک بار‘ مگر وہ ہمہ وقت دائروں میں گھومتا ضرور رہتا ہے۔ وہ راحت کے لمحوں کے تعاقب میں بعض اوقات مشکل میں پڑ جاتا ہے۔ بعض مرتبہ وہ آسودگی ڈھونڈتا ہے مگر یہ عمل اسے زچ کر دیتا ہے کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ پڑھنا لکھنا ذرا سا ترک کر کے کچھ اپنے ساتھ بھی وقت گزار لیا جائے اس حوالے سے کرکٹ کا میچ دیکھا جا سکتا ہے مگر اس میں بھی سراسر ٹینشن بلکہ ہائپر ٹینشن ہو جاتی ہے۔ چلیے یہ فرض بھی کر لیں کہ ہماری ٹیم نے ہارنا ہی ہارنا ہے کہ وہ اس کا تجربہ رکھتی ہے مگر پھر بھی دل میںافسردگی کا موقع پیدا ہو ہی جاتا ہے۔ آپ دیکھیے ناں کہ ہم نے آسٹریلیا کے ساتھ پہلے تین میچ بدستور ایک ہی حکمت عملی کے ساتھ ہارے حکمت عملی کا نہ ہونا بھی ایک الگ حکمت عملی ہے کہ اس سے دماغ پر زور نہیں دینا پڑتا۔ دو میچوں میں ہم یہ سمجھ ہی نہ سکے کہ آسٹریلیا جیسی ٹیم کے لئے 280سکور کرنا چنداں مشکل نہیں۔ تیسرے میچ میں انہوں نے اڑھائی سو سے زیادہ سکور بنا لیا۔ یہاں ان کا تصور کہ انہوں نے ہمارے بلے بازوں کو چلنے ہی نہ دیا تین شائننگ سٹار گیند کی شائن تک ختم نہ کرسکے۔ ہاں چوتھے میچ میں ہماری توقعات کے برعکس ہمیں امید ہونے لگی کہ شاید اب میچ ہمارا ہوا کہ عابد علی کو آج ہوا لگوائی گئی کچھ مبصر پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ پتہ نہیں عابد علی کی قسمت کب جاگے گی۔ اس نے آتے ہی ثابت کر دیا کہ اسے موقع کیوں نہیں دیا جا رہا تھا وہ اتنے ہی اعتماد سے اننگز کھیل رہا تھا جیسے کسی زمانے میں انضمام الحق کھیلا تھا۔ پھر وہ تیسرا بیٹسمین بن گیا جس نے ڈبیومیں سنچری کی۔ اس کے ساتھ محمد رضوان نہایت اچھا کھیلا مگر وہ لمحہ جب اسے فیصلہ کرنا تھا کہ سنچری مکمل کرنی ہے یا میچ جیتنے کے لئے رسک لینا ہے اس کے لئے کمزور لمحہ ثابت ہوا۔ اب مزید کیا تبصرہ کیا جائے۔ کتنے کھلاڑی ڈبل فگر میں بھی نہیں پہنچے عمر اکمل کا بلابھی نہیں چلا۔ بات وہیں آتی ہے کہ جو نظیری شاعر نے کہی تھی کہ مصیبتوں نے نظیری کا گھر دیکھ لیا ہے۔ آفت کسی پر آنی ہو نظیری کے گھر پر پہنچ جاتی ہے۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پاکستان جیتا ہوا میچ اس بے بسی سے ہار جائے گا۔ آسٹریلین کو بھی خود پر یقین نہیں آ رہا تھا کہ بلکہ اتنا رسیلا ثمر ان کی جھولی میں آ گرے گا۔ عابد علی سے بہرحال ہمیں پیار ہو گیا ہے کہ وہ ایک اوریجنل بلے باز ہے اور اس نے اپنی کلاس ثابت کر دی۔ ہمارا یہی المیہ رہا ہے کہ باصلاحیت کھلاڑیوں کا راستہ روکا جاتا ہے اور زیادہ تر ان کے خلاف سازشیں بوڑھے ہوتے ہوئے کھلاڑی ہی کرتے ہیں۔ دوسری عجیب بات دیکھیں کہ جس کھلاڑی کی ٹیم میں جگہ نہیں بن رہی ہوتی اسے کپتان بنا دیا جاتا ہے کہ اب نکال کے دکھائو۔ اگر کپتان نہیں چل رہا تو اسے بھی ریسٹ دیا جا سکتا ہے۔ آپ اس وقت کا معاملہ ہی دیکھ لیں کہ شعیب ملک کا ورلڈ کپ کھیلنا بھی مشکوک ہو گیا ہے۔ ایسے مغالطے ہوتے رہتے ہیں کہ ہوتا کچھ ہے سمجھا کچھ جاتا ہے: ایک وہ ہیں کہ تعلق سے ہیں یکسر منکر ایک ہم ہیں کہ جدائی کا سبب پوچھتے ہیں ہمیں ہمدردی تو مکی آرتھر کے ساتھ ہے کہ اسے بڑے عرصے کے بعد خوشی نصیب ہوئی تھی اور وہ عابد علی کی سنچری پر کس قدر خوش تھے ۔مگر پھر جب اس نے دیکھا کہ ہمارے کھلاڑی ناممکن کو ممکن بنانے میرا مطلب ہے پکی جیت کو ہار بنانے پر تل گئے ہیں تو ان کا رنگ متغیر ہوتا گیا پھر وہ شرمندہ شرمندہ سے نظر آنے لگے۔ حالانکہ ان کو اب تک ان چیزوں کا عادی ہو جانا چاہیے۔ چلیے اب ذرا ذائقہ تبدیل کرتے ہیں اور سیاست پر بات کر لیتے ہیں۔ سردست میرے سامنے شیریں مزاری کا بیان آ گیا۔ جس میں انہوں نے عمران خان پر تنقید کرنے والے افغانستان میں تعینات امریکی سفیر کو آڑے ہاتھوں لیا ہے اور مزے کی بات یہ کہ شیریں مزاری نے اسے بونا قرار دے دیا۔ اس سفیرکے بارے میں یہ بھی کہا گیا کہ وہ نہ تو کرکٹ جانتے ہیں اور نہ سفارت۔ مجھے اس پر ٹی وی دور کا نہایت دلچسپ واقعہ یاد آ گیا کہ سلامت علی خاں ٹی وی رسیپشن پر آئے تو وہاں کوئی نیا ملازم آ گیا تھا۔ اس نے سلامت علی خاں سے ان کا نام دریافت کیا تو سلامت صاحب کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ غصے سے بولے’’میرا نام عالم لوہار ہے‘‘ وہ شخص خوشی سے اچھل کھڑا ہوا۔ جی آپ کا تو بہت نام سنا‘ ساتھ ہی اس نے عالم لوہار کے نام کی پرچی بنا کر سلامت علی خاں کو پکڑا دی۔ اب سلامت صاحب غصے میں بھرے ہوئے پروگرام منیجر کے پاس پہنچے اور ان کی ٹیبل پر پرچی پھینک کر بولے ’’وہ بدبخت شخص جو آپ نے رسیپشن پر بٹھایا ہے نہ تو مجھے جانتا ہے اور نہ عالم لوہار کو‘‘ کبھی ایسی مزیدار صورتحال بن جاتی ہے۔ ایک چھوٹا سا واقعہ مجھے یاد آتا ہے تو ہنسی نکل جاتی ہے کہیں میری کتاب کا ڈسٹ کور چھپ رہا تھا۔ کفایت شعاری کے تحت اسکاغذ پر چھپ رہا تھا جس کے دوسری طرف پہلے ہی پرنٹ تھا۔ ایک شخص وہاں کھڑا تھا کہنے لگا کہ کیا وہ ایک ٹائٹل لے لے۔ میں خوش ہوا کہ یہ کوئی میرا مداح ہے اور اس نے ٹائٹل لینے کی چاہت کی ہے۔ جب اسے ایک ٹائٹل دے دیا گیا تو وہ بہت خوش ہوا اور ٹائٹل کو اٹھا کر اس کے پیچھے ریشم اداکارہ کی تصویر دیکھنے لگا پھر کہنے لگا ’’شکریہ بائوجی میں یہ تصویر اپنے کمرے میں لگائوں گا‘‘ لیجئے اس واقعہ سے ہمیں اپنا دوست عطااللہ عیسیٰ خیلوی یاد آ گیا۔ اب اسے مبارکباد دینا بھی تو ہم پر واجب ہے۔ وہ بہت پیارا آدمی ہے جب بھی ملتا ہے پوری گرم جوشی کے ساتھ۔ ایک زمانے میں وہ بڑی ہوائوں میں تھا۔ اس آواز کا درد اور سوز لاکھوں لوگوں کو اس کا گرویدہ کر گیا۔ میں نے خود اسے بہت سنا ہمارا دوست افضل عاجز اس کے لئے خوب لکھتا ہے۔ وہ کس قدر خوش مزاج بھی ہے کہ خود بتانے لگا کہ ایک مرتبہ اس نے اپنی گاڑی میں ایک جوڑے کو لفٹ دے دی۔ گاڑی میں اس کی کیسٹ لگی ہوئی تھی۔ وہ جوڑا پچھلی سیٹ سے بولا’’کیسٹ لگانی ہے تو کوئی اچھی سی لگائو۔ یہ شخص تو موسیقی کی ٹانگیں توڑ رہا ہے‘‘ کمال کی بات یہ کہ عطااللہ عیسیٰ خیلوی بڑے ظرف والا ہے وہ سب کچھ سن کر مسکراتا رہا۔ اس کے لئے میں ضرور کہوں گا کہ: کمال نغمہ گری میں ہے فن بھی اپنی جگہ مگر یہ لوگ کسی درد نے سریلے کیے دیکھیے ہم نے کالم کہاں سے شروع کیا اور کہاں ختم ۔ افسردگی اور ملال سے آغاز اور فرحت و انبساط پر ختم۔ آخر میں تازہ ترین دو شعراپنے 92نیوز کے قارئین کے لئے: آدمی اپنی خزاں کو جو پہنچ جاتا ہے دوست پتوں کی طرح جھڑتے نظر آتے ہیں دھوپ اترتی ہے مرے سر سے تو رفتہ رفتہ سائے پیروں پر مرے پڑتے نظر آتے ہیں