اسلام آباد،کراچی ،لاہور،پشاور،کرک (خبر نگار، سپیشل رپورٹر،خبر نگار خصوصی،سٹاف رپورٹر،مانیٹرنگ ڈیسک، این این آئی،آن لائن) سپریم کورٹ آف پاکستان نے کرک میں مشتعل ہجوم کی جانب سے مندر پر کئے گئے حملے کا نوٹس لے لیا ہے جبکہ واقعے کی ایف آئی آر درج کر دی گئی ہے ۔ پولیس نے واقعہ کے مرکزی ملزم مولوی محمد شریف،مسلم لیگ (ن) کے سابق سیکرٹری جنرل اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما رحمت سلام ، میر ذکیم اوربہادر سلام سمیت کم سے کم 35 افراد کو حراست میں لے کر کوہاٹ جیل منتقل کردیا ہے جبکہ سکیورٹی فورسز کی بڑی تعداد متاثرہ مندر کے علاقہ میں موجود ہے اورکسی بھی ممکنہ آپریشن کیلئے بکتربند گاڑیاں پہنچادی گئی ہیں۔دو روز قبل ضلع کرک کی تحصیل بانڈہ داؤد شاہ کے علاقے ٹیری میں مشتعل مظاہرین نے ہندوؤں کے مقدس مقام میں ایک سمادھی کی توسیع کیخلاف ہلہ بول دیا تھا۔ اس موقع پر مظاہرین نے مندر میں توڑ پھوڑ بھی کی۔ سپریم کورٹ5جنوری کو اس نوٹس کی سماعت کرے گی، یہ بات چیف جسٹس گلزار احمد نے پاکستان ہندو کونسل کے سربراہ اور ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار سے ملاقات میں بتائی۔چیف جسٹس گلزار احمد نے واقعہ پر شدید تشویش کا اظہار کیا اور انھیں بتایا کہ وہ پہلے ہی اس واقعے کا نوٹس لے چکے ہیں۔انھوں نے بتایا کہ اقلیتوں کے حقوق کے ایک رکنی کمیشن کی ہدایات کے تحت چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا اورانسپکٹر جنرل پولیس خیبر پختونخوا جائے وقوعہ کا دورہ کرینگے اور پیر تک اس کی رپورٹ جمع کر ائینگے ۔پولیس نے ایف آئی آر میں دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کی ہیں جبکہ مندر کے پاس پولیس کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی ہے ۔ ایف آئی آر میں کرک کے علاقے ارمڑ کے رہائشی مولانا محمد شریف اور ٹیری کے مولانا حافظ فیض اللہ،جبکہجے یوآئی رہنما رحمت خٹک اور دیگر کو نامزد کیا گیاجبکہ 300 سے 400 نا معلوم افراد شامل ہیں۔ پولیس کے مطابق مولانا محمد شریف کی اشتعال انگیز تقریر کے بعد لوگ روانہ ہوئے اور سمادھی پر حملہ کر دیا ۔ادھر وفاقی وزیر مذہبی امور نور الحق قادری نے کہا کہ آئین پاکستان بھی غیر مسلم آبادی اور انکی عبادتگاہوں کی حفاظت پر زور دیتا ہے ،غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے ۔ کچھ لوگ مندر کو گرانے کی سازش کر رہے ہیں جسکی ہرگز اجازت نہیں دی جا ئیگی ۔کرک انتظامیہ واقعے میں ملوث افراد کو گرفتار کر رہی ہے ، مقامی ہندو بھی پرامن رہیں۔ وزیراعظم کے نمائندہ خصوصی حافظ طاہر محمود اشرفی نے کہا ہے کہ پاکستان کی ریاست اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ غیر مسلموں کے حقوق کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے ، علماء و مشائخ اس طرح کی کسی بھی دہشت گردی کی کسی صورت حمایت نہیں کر سکتے ۔ دوسری جانب وفاقی وزیر فواد چو دھری نے واقعے کو اقلیتوں کیخلاف ذہن سازی کا شاخسانہ قرار دے دیا۔ اپنے ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ دہشتگردی سے تو فوج لڑ سکتی ہے ، شدت پسندی سے لڑنا سول سوسائٹی کا کام ہے ۔ مندر پر حملہ کی تمام مذاہب کے قائدین نے شدید الفاظ میں مذمت کی ۔ کتھیڈرل چرچ میں قومی کمیشن برائے بین المذاہب مکالمہ کے چیئرمین آرچ بشپ سبسٹین فرانسس شا،چیئرمین کل مسالک علمائبورڈ مولانا محمد عاصم مخدوم،سکھ راہنما سردار بشن سنگھ،ہندو رہنما ڈاکٹر منوہر چاند،امرناتھ رندھاوا، علامہ اصغر عارف چشتی،ملک محمد آصف اور فادر مشتاق پیارا نے پریس کانفرنس میںمشترکہ طور پر واقعہ کو ناقابل قبول قراردیا۔چیئرمین قومی اقلیتی کمیشن چیلا رام کیولانی نے اپنے بیان میں واقعہ کی شدید مذمت کی اور کہا کہ عبادتگاہ پر ایسی حرکت کرنے والے انسان نہیں ہو سکتے ، یہ واقعہ پاکستان مسلم اور غیر مسلم آبادی کو آپس میں لڑانے کی سازش ہے ۔ مند ر پر حملے کے بعد صوبے بھرمیں سکیورٹی ہائی الرٹ کردی گئی۔ مندروں پر پولیس اور ایف سی کی مزیدنفری تعینات کردی گئی ہے جبکہ سادہ کپڑوں میں بھی پولیس کی نفری تعینات کی گئی ہے ۔ دریں اثناء آئی جی خیبر پختونخوا ثناء اللّٰہ عباسی نے متاثرہ علاقے ٹیری کا دورہ کیا اور مندر کا تفصیلی معائنہ کیا۔ میڈیا سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کو ہرقیمت پر یقینی بنایاجا ئیگا اورواقعہ میں ملوث تمام افراد کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جا ئیگا۔ان کا کہنا تھاکہ ویڈیوکلپس اور تصاویر کی مدد سے شناخت کرکے گرفتاری کیلئے چھاپے مارے جارہے ہیں۔ادھر کراچی میں ہندو برادری نے سپریم کورٹ رجسٹری اور پریس کلب کے باہر واقعہ کیخلاف احتجاج کیا ۔میڈیا سے گفتگو میں ایم این اے رمیش کمار نے کہا کہ ہماری سمادی کو مسمار کیا گیا یہ دکھ کی بات ہے ، 1997 کے مجرموں کو سزا دی جاتی تو آج یہ دن نہیں دیکھناپڑتا، مجھے حکومت سے زیادہ عدلیہ پر اعتماد ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے پر وزیر اعظم نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے ۔