محمودالحسن

 

عظیم بیٹسمین کی بطور کرکٹر تربیت میں ان کا بنیادی کردار تھا

 ریٹائرمنٹ پر الوداعی تقریرمیں سچن نے انھیں شاندار لفظوں میں خراج تحسین پیش کیا

 

 سچن ٹنڈولکر کے عظیم کرکٹر بننے کی بنیاد اس دن پڑی جب وہ رماکانت اچریکر کے شاگرد ہوئے۔ ان کے بھائی اجیت ٹنڈولکر انھیں بمبئی کے اس گرو کے پاس لے کر گئے تاکہ وہ ٹینس کے بجائے کرکٹ بال سے کھیلنے کا آغاز کرسکیں۔ اس وقت ٹنڈولکر کی عمر گیارہ برس تھی۔انھوں نے نیٹ میں پہلی دفعہ بیٹنگ کی تو اچریکر متاثر نہ ہوئے۔ اجیت سے کہا ابھی یہ بہت چھوٹا ہے، تھوڑا بڑا ہوجائے پھر اسے لانا۔ اجیت کو مگر بھائی کی صلاحیتوں پر بھروسا تھا ، اس نے اچریکر سے کہا کہ سچن آپ کی نظروں کے سامنے  نروس ہونے کی وجہ سے ٹھیک طریقے سے نہیں کھیل پایا ،آپ کی موجودگی کا  احساس نہ ہو تو یہ اچھا کھیلے گا، اس لیے آپ درخت کی اوٹ سے اسے بیٹنگ کرتے دیکھیں ، تب اپنی رائے قائم کریں۔ یہ بات مان لی گئی۔ اس فارمولے پر عمل ہوا تو ٹنڈولکر نے نیٹ میں بہتر کھیل کا مظاہرہ کیا اور شیوا جی پارک میں جاری سمر کیمپ کا حصہ بن گئے۔ اس موقع کی قدر جان کر ٹنڈولکر نے دن رات ایک کردیا۔ دوماہ بعد کوچ نے ان کے بھائی کو یہ نویدِ جانفزا سنائی کہ سچن میں اچھا کرکٹر بننے کی صلاحیت موجود ہے۔ 

بمبئی کے علاقے باندرہ کے جس سکول میں سچن زیر تعلیم تھے، اس کا کرکٹ میں کوئی نام نہ تھا، اس لیے اچریکر کا خیال تھا کہ وہ اگر کھیل میں بڑھنا چڑھنا چاہتے ہیں تو انھیں شاردا شرم ودیا مندرہائی  سکول میں داخلہ لینا چاہیے ، جس کا بمبئی کی سکول کرکٹ میں اہم مقام تھا ۔ اچریکر اس سکول میں کرکٹ کوچ تھے۔ اس معاملے پر انھوں نے سچن کے والد سے بات کی ، انھیں سکول کی تبدیلی پر اعتراض نہ تھا۔ٹنڈولکرسے اس بابت پوچھا گیا تو انھوں نے بھی ہاں کردی۔ 

اچریکر سکول ٹیم کے علاوہ دو کرکٹ کلب بھی چلاتے تھے۔ بمبئی کے کرکٹ حلقوں میں ان کا بہت احترام تھا ۔ شاگرد انھیں اچریکر سر کہتے۔ سکول اور ایک کلب کانیٹ شیوا جی پارک جبکہ دوسرے کلب کا نیٹ آزاد میدان میں لگتا۔ بمبئی میں سکول کی سطح پر دوکرکٹ ٹورنامنٹ ہوتے۔جائلز شیلڈ چودہ اور ہیرس شیلڈ سولہ برس سے کم عمر بچوں کے لیے۔ ان میچوں کی مسابقانہ فضا سے ٹنڈولکر کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا اور بتدریج ان کے کھیل میں نکھار آتا گیا۔ پہلے سکول میچ میں ٹنڈولکر نے24رنز بنائے۔ بمبئی کے اخبارات میں  میچ کی خبر میں صرف ان بیٹسمینوں کا نام آتا جنھوں نے تیس یا اس سے زائد رنز بنائے ہوتے۔ سکورر نے فاضل رنزمیں سے چھ رنز نکال کر24 کو 30 کے ہندسے میں بدل دیا،اس خیال کے تحت کہ اس سے مجموعی سکور کی صحت پر تو کوئی اثر پڑتا نہیں ۔ یہ سب ٹنڈولکر کی رضا سے ہوا۔ اگلے دن ان کا نام اخبار میں چھپ گیا لیکن اچریکر خاصے برہم ہوئے اور اس دو نمبری پر شاگرد کو ڈانٹ پلائی اور اسے کھیل میں دیانت داری کی اہمیت جتائی۔

اچریکر کا نقطہ نظر تھا کہ نیٹ پریکٹس کی اہمیت اپنی جگہ لیکن یہ کبھی میچ کا نعم البدل نہیں بن سکتی۔ اس لیے ان کا زیادہ زور لڑکوں کومیچ کھیلانے پر ہوتا۔ ٹنڈولکر نے سکول میں پہلے سال ساٹھ دن کی چھٹیوں میں پچپن پریکٹس میچ کھیلے۔ بارہ برس کی عمر میں ہیرس شیلڈ ٹورنامنٹ میں سکول کرکٹ میں پہلی سنچری بنائی۔ سکول کرکٹ سے ہٹ کر ٹنڈولکر کلب کرکٹ اور بمبئی کی جونئیر ٹیموں کی طرف سے بھی اپنے جوہر دکھاتے رہے۔بمبئی کی تاریخ میں  شاید ہی کسی سکول بوائے نے  ٹنڈولکر جتنے رنز بنائے ہوں ۔ سکول کی طرف سے ایک میچ میں سچن نے پچاس رنز بنائے ۔ اس میچ میں  اچریکر کے ایک دوست امپائر تھے، جنھوں نے انھیں بتایا کہ یہ لڑکا ایک دن ہندوستان کی طرف سے ضرور کھیلے گا۔ اس پر اچریکر نے رائے دی کہ ابھی لڑکے کا کرکٹ میں پہلا سال ہے، اس نے ابھی بہت سا سفر طے کرنا ہے لہذا اس مرحلے پر   ایسا دعویٰ کرنا صحیح نہیں،  ان کے دوست مگر اپنی بات پر جمے  رہے اور ان سے کہا کہ ’میرے الفاظ لکھ لو یہ لڑکا انڈیا کی طرف سے ضرور کھیلے گا۔‘  

ٹنڈولکر اگر کسی میچ میں جلد آئوٹ ہو جاتے تو اچریکرانھیں سکوٹر پر بٹھا کر کسی دوسرے  میدان میں لے جاتے اور وہاں منعقدہ میچ میں انھیں باری دلاتے۔ دن کے آخری پریکٹس سیشن میں جو شام پانچ سے سات بجے تک جاری رہتا ، اس کے آخری پندرہ منٹ میں تھکن سے چور ٹنڈولکر کو ایک کڑی اور دلچسپ آزمائش سے گزرنا پڑتا۔ اچریکر وکٹوں کے اوپر ایک روپے کا سکہ رکھ دیتے اور بولروں سے کہتے کہ بیٹسمین پر پل پڑیں ، ٹنڈولکر اگراس یدھ میں جیت جاتے  تو روپے کا سکہ ان کا ہوجاتا۔ اس امتحان میں ٹنڈولکراکثر سرخرو ہوتے۔ اس کے بعد ٹنڈولکر پیڈز اور گلوز پہن کر شیوا جی پارک کے دو چکر کاٹتے۔ شاگردِ رشید کو استاد کی طرف سے اکثر بمبئی کی مشہور فاسٹ فوڈ ’وڑا پائو‘  خریدنے کے لیے پیسے بھی ملتے۔    

سچن کو کرکٹ کا جنون تھا لیکن کبھی کبھار نیٹ سے چھٹی کرکے دوستوں میں وقت گزارنے کو ان کا جی کرتا، لیکن  ایسے موقعوں پر اچریکران کی کالونی پہنچ جاتے اور کسی قسم کا عذر سنے بغیر انھیں گھسیٹ کر اپارٹمنٹ تک لاتے تاکہ وہ لباس تبدیل کرکے ان کے ساتھ میدان کا رخ کریں۔ ٹنڈولکراس وقت تو اس رویے پر جزبز ہوتے لیکن مستقبل میں یہ سختی ان کے بہت کام آئی اور اس کا  اعتراف انھوں نے اپنی خودنوشت میں کیا ہے۔ 

 ایک دفعہ کا ذکر ہے ، ہیرس شیلڈ کا فائنل میچ تھا۔ ٹنڈولکر اس میچ میں سکول کی ٹیم کا حصہ نہیں تھے کیونکہ اس وقت وہ جائلز شیلڈ کھیل رہے تھے۔اس لیے ان کا ارادہ فائنل دیکھنے کا تھا ۔ ادھر کوچ نے اسی دن ان کے لیے پریکٹس میچ رکھ دیا، ٹنڈولکر نے حکم عدولی کی اور میچ کھیلنے کے بجائے میچ دیکھنے پہنچ گئے، اس پر اچریکر بہت خفا ہوئے اور کہا کہ ان کا کام دوسروں کو کھیلتے دیکھنا نہیں، بلکہ محنت کرکے خود کو اس قابل بنانا ہے کہ لوگ سچن ٹنڈولکر کا کھیل دیکھنے آئیں۔

ٹیسٹ کرکٹر ونود کامبلی سکول کے زمانے سے سچن کے دوست ہیں۔ دونوں نے سکول ٹیم کی طرف سے تیسری وکٹ کی شراکت میں 664 رنز جوڑے جس میں سچن کا حصہ 326 اور کامبلی کا 349رنز تھا۔دونوں ناٹ آئوٹ رہے۔ یہ کسی بھی سطح کی کرکٹ میں،کسی بھی وکٹ کے لیے سب سے بڑی شراکت داری کا عالمی ریکارڈ تھا ۔یہ کارنامہ  ٹنڈولکر اور کامبلی کو  عالمی شہرت دلانے کا باعث بنا۔ اس کے باعث ان کا تذکرہ  گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ اور کرکٹ کی بائبل’’ وزڈن‘‘ میں آگیا۔

 یہ تاریخ جب رقم ہورہی تھی اچریکر آزاد میدان میں موجود نہیں تھے  اور فون پر اپنے اسسٹنٹ سے میچ کے بارے میں معلومات حاصل کررہے تھے۔ ٹیم کا مجموعی سکور جب بہت تسلی بخش ہوگیا تو انھوں نے سچن کے لیے اننگز ڈیکلیئر کرنے کی  ہدایت جاری کی۔ بارھواں کھلاڑی یہ پیغام لاتا تو دونوں اسے ٹال دیتے۔ اسسٹنٹ کوچ نے باہر سے بہتیرے اشارے کیے لیکن ٹنڈولکر اور کامبلی انھیں جان بوجھ کر نظر انداز کرتے رہے ۔ دونوں نے بولروں کو اتنا پدایا کہ ایک بولر تو بیچارہ رو پڑا۔آخر ٹنڈولکر کو  دوسرے دن لنچ پر اننگر ڈیکلیئر کرنے کا خیال آگیا تو  کامبلی نے کہا کہ اسے لنچ کے بعد ایک رنز بناکر ساڑھے تین سو بنا لینے کا موقع دیا جائے،اس کے لیے دونوں نے اچریکر سے فون پر بات کی ۔ کامبلی کی تجویزسختی سے رد ہوئی اور کہا گیا کہ اننگز ڈیکلیئر کرنے میں پہلے ہی بہت تاخیر ہو چکی۔ خیریت گزری کہ شاردا شرم سکول میچ جیت گیاوگرنہ دونوں دوستوں کی خوب درگت بنتی۔

اس اننگز سے سچن کی شہرت کو پر لگ گئے۔ ممتاز کرکٹ مبصر ہارشا بھوگلے نے اس زمانے میں ٹنڈولکر سے ملاقات کے بعد ایک مضمون لکھا جس کا آغاز یوں ہوتا ہے: 

  ’’  بمبئی کے سبھی میدان ایک اسٹیج ہے جہاں ہر کھلاڑی کواپنا کردار ادا کرنا پڑتا ہے اور جو کردار سچن ٹنڈولکر نے ادا کیا ہے وہ قیامت خیز ہے۔پچھلے سال کے آغاز میں جب اس نے پہلے ایکٹ سے پردہ اٹھایا تھا ، ناظرین اگلے منظر کو ، بعض اوقات ضرورت سے زیادہ اشتیاق سے دیکھنے کے منتظر ہیں۔ سچن ٹنڈولکر ابھی تک ایک ہائی سکول پروڈکشن میں کام کررہا ہے۔ اس کے باوجود ناقدین نے اس کی تعریفوں کے پل باندھ دیے ہیں۔ انتہا درجے کے ستائشی تبصرے برابر چھپے جارہے ہیں۔

میرا اندازہ ہے کہ یہ بمبئی شہر ہی میں ممکن ہے کہ بعض اوقات کسی کرکٹر کا جو ابھی سکول میں پڑھتا ہو، سارے شہرمیں اس کا چرچا ہوجائے،بمبئی کے ہیرس شیلڈ فائنل میں ہر دن کا کھیل ختم ہونے پر ہر کوئی یہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ سچن نے کتنے رنز بنائے کیوں کہ بعض اوقات وہ تین تین دن بیٹنگ کرتا رہتا ہے ۔ اس تمام تشہیر کے باوجود جو اس کے حصے میں آئی ہے، سچن ٹنڈولکر ابھی بھی چھوٹا سا لڑکا ہے ، چوبیس اپریل کو وہ صرف پندرہ سال کا ہوا ہے اور وہ بہت شرمیلا ہے۔ وہ اس وقت کھل کر بات کرتا ہے جب آپ کچھ دیر اسے اکسائیں ، اس کے کوچ مسٹر اچریکرکا کہنا ہے کہ اب تو  پھر بھی وہ پہلے کے مقابلے میں تھوڑا بولنے لگا ہے۔‘‘ 

ہارشا بھوگلے نے اس مضمون میں لکھا ہے کہ ٹنڈولکر کی اس دھوم  سے ان کے کرکٹ کوچ اچریکربہت پریشان نظر آئے ، ان کا کہنا تھا کہ ابھی سچن محض پندرہ برس کا ہے اور اس پر داد وتحسین کے ڈونگرے برسنے لگے ہیں،ابھی چند دن پہلے بچوں کی لائبریری کا اس سے افتتاح بھی کرایا گیا۔ اچریکرکے بقول ’’ یہ بہت غیر معقول بات ہے۔ یہ چیزیں لازمی طور پر اس کے دماغ کو چڑھیں گے اور وہ یہ سوچنا شروع کردے گا کہ اس نے سب کچھ حاصل کرلیا ہے۔‘‘

ونود کامبلی بھی اچریکر کے شاگرد تھے  اور ٹنڈولکر کے  جگری یار لیکن وہ اپنے ٹیسٹ کیرئر کی ابتدا میں نہایت عمدہ کارکردگی دکھانے کے باوجود زیادہ عرصہ انڈیا کے لیے نہ کھیل سکے،  اچریکر کی دانست میں وہ ٹنڈولکر جتنے ہی باصلاحیت تھے، لیکن کامبلی کے مزاج کا ٹیڑھ پن اور بیٹنگ میں خامیاں  دور نہ کرنا ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنا۔ اچریکر کے اور بھی کئی  شاگردوں نے بین الاقوامی سطح پر انڈیا کی نمائندگی کی ۔

 سکول کرکٹ ، کلب کرکٹ اور بمبئی کی مختلف ٹیموں میں سکور کرتے سچن ٹنڈولکر رانجی ٹرافی کے لیے منتخب ہوئے اور پندرہ سال کی عمر میں بمبئی کی طرف سے رانجی ٹرافی میں اپنے پہلے میچ میں ناقابل شکست سنچری سکور کرکے سب سے کم عمری میں یہ اعزاز حاصل کرنے کا ریکارڈ بنایا۔ اس کے بعد  ایرانی ٹرافی میں ریسٹ آف دی انڈیا ٹیم کی طرف سے رانجی ٹرافی کی فاتح ٹیم دہلی کے خلاف سنچری بنائی اور اس مقابلے میں سنچری بنانے والے کم عمر کھلاڑی بن گئے۔ اسی سال قومی ٹیم کا حصہ بنے اور اس کے بعد جوہوا وہ سب تاریخ ہے،جس کا خلاصہ بین الاقوامی کرکٹ میں ان کی سو سنچریوں میں سمٹ آتاہے۔کرکٹ میں ساری رفعتوں کے باوجود ٹنڈولکر نے استاد کو کبھی فراموش نہیں کیا۔ ہر ٹور اور سیریز سے پہلے وہ ان کے پائوں چھونے جاتے۔ زندگی کے ہر اہم موقع پر انھیں یاد رکھتے۔ ٹنڈولکر نے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی الوداعی تقریر میں اسٹیڈیم میں اچریکر کو ان کی موجودگی میں شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا اور اس سمے کو یاد کیا، جب وہ شیوا جی پارک میں بیٹنگ کے بعد ان کے ساتھ سکوٹر پر بیٹھ کر آزاد میدان کا رخ کرتے جہاں انھوں نے ایک دوسرے میچ میں بیٹنگ کرنی ہوتی۔ ٹنڈولکر نے ازراہ مذاق کہاکہ    29 برسوں میں اچریکر سر نے مجھے میرے کھیل پر کبھی ویل ڈن نہیں کہا کہ مبادا میں مطمئن ہو کر بیٹھ جائوں اور محنت سے جی چرانے لگوں ،اب اس سٹیج پر وہ مجھے ویل ڈن کہہ سکتے ہیں کہ اب میں نے کوئی اور میچ نہیں کھیلنا۔

دو جنوری کو اچریکر دنیا چھوڑ گئے، ان کی آخری رسومات میں سچن ٹنڈولکرکے چہرے پر غم اور اداسی کی وہ کیفیت تھی جو کسی پیارے کے بچھڑنے پر ہوتی ہے۔ایسا استاد اور ایسا شاگرد قسمت والوں کو ملتا ہے۔دونوں ایک دوسرے کے لیے فخر کا باعث ہیں۔