جن دنوں پیپلز پارٹی بلاول کے کندھوں پر کرپشن کے مقدمات میں قید والد اور پھوپھی کی تحریک آزادی کا بوجھ رکھ رہی تھی؛ ان دنوں میں ترکی کی مشہور ادیبہ ایلف شفق کا نیا ناول 10 Minutes, 38 Seconds in this Strange Worldپڑھنے میں مصروف تھا۔وہ ناول پڑھتے اور ٹی وی دیکھتے مجھے بار بار خیال آ رہا تھا کہ ترکی کی مغرب زدہ ناول نگار اور پیپلز پارٹی کے نوجوان قائد میں کون سی چیز مشترک ہے؟ ایک طرف ایک ترک ادیبہ اور دوسری طرف پاکستان کا وہ نوجوان جس کو پڑھنے اور لکھنے میں کوئی دلچسپی نہیں؛ ان دونوں کے درمیاں آخر کون سی چیز ایک جیسی ہوسکتی ہے؟ ترکی اور پاکستان کے حالات بہت مختلف ہیں۔ ان دونوں شخصیات کے ہدف بھی ایک جیسے نہیں۔ ایک عورت ادیبہ مشہور ہونے کے مرض میں مبتلا ہے اور ایک جوان مرد اقتدار کے لیے دیوانہ بنا دیا گیا ہے۔ حالانکہ ادب اور سیاست دو الگ الگ شعبے ہیں مگر وہ دونوں راہیں آگے چل کر دوسرے سے ملتی بھی ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو ماؤزے تنگ جیسا سخت سرخا ادب پر وہ لیکچر کیوں دیتا جس میں اس نے کمیونسٹ پارٹی کے کارکنان اور چینی عوام کو بتایا تھا کہ ’’انقلاب کے لیے ادب کا اہم کردار ہے‘‘ اس نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’ادیب انقلابی تحریک کی مشین کے نٹ اور بولٹ ہیں‘‘ یہ بات ہمارے اس پلیجو صاحب کو بہت پسند تھی جن کی پہلی برسی کراچی جیسے پرشور شہر میں بڑی خاموشی کے ساتھ منائی گئی۔ پلیجو صاحب بہت بڑے دانشور ہونے کے ساتھ بلا کے نقاد اور پر کشش الفاظ والے ادیب تھے۔ مجھے اس بات پر سخت افسوس ہے کہ میرا دوست جامی چانڈیو ان کے بارے میں بہت باتیں تو کرتاہے مگر انہوں نے پلیجو صاحب کے ادبی حیثیت پر کچھ نہیں لکھا۔ حالانکہ سندھی ادب کی تاریخ پلیجو صاحب کے افسانوں کے مجموعے ’’پسی گاڑھا گل‘‘ یعنی ’’دیکھ کے سرخ گلاب‘‘ کے تذکرے کے بغیر ادھوری ہے۔ اگر مجھے پنجابی پر عبور ہوتا یا میری شریک حیات زاہدہ میرا ساتھ دیتی تو ہم دونوں پلیجو صاحب کی اس کتاب کا پنجابی ترجمہ ’’ویکھے رتڑے پھل‘‘ کے عنوان سے ضرور شائع کرواتے اور پورے پاکستان کو بتاتے کہ پلیجو صاحب صرف اہل دماغ نہیں بلکہ اہل دل بھی تھے۔ مگراس وقت میرے ذہن میں یہ خیال آ رہا ہے کہ کیا ترک ادیبہ اور پاکستانی پالیٹیشن میں کوئی چیز مشترک ہے؟ کیا دونوں میں یہ چیز مشترک ہے کہ ایک نے اپنے آپ پر ادب اور دوسرے نے سیاست کو مسلط کیا ہے۔ حالانکہ نہ ایلف شیق ایک تخلیقی ادیبہ ہے اور نہ بلاول بھٹو زرداری ایک فطری لیڈر۔ اگربلاول ایک حقیقی لیڈر ہوتے تو اپنے نام کے ساتھ اپنی والدہ کا نام ہرگز نہ جوڑتے۔ انہیں اپنے آپ پر اعتماد ہوتا۔ ان کو یقین ہوتا کہ پوری دنیا کو پتہ ہے کہ وہ صرف آصف زرداری کے نہیں بلکہ بینظیر بھٹو کے بھی بیٹے ہیں۔ان کو بحیثیت ایک لیڈر کے اپنے والد کی ذات سے خوفزدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ وہ حقیقی لیڈر ہوتے تو ثابت کرتے کہ ایک زرداری بھی اچھا سیاسی رہنما بن سکتا ہے۔مگر اس کو بھٹو کا نقاب پہنایا گیا۔ حالانکہ اس کے چہرے کے نقوش ہو بہو اپنے دادا پر ہیں۔ نانا جیسی ان میں کوئی بات نہیں۔ اگر شاہنواز بھٹو کی پوتی ایک عظیم کامیاب لیڈر بن سکتی ہے تو پھر حاکم علی زرداری کا پوتا کیوں نہیں؟اس کے لیے قبیلے والی ذات سے نہیں بلکہ خود اپنی ذات سے بغاوت کرنا پڑتی ہے مگر افسوس کہ بلاول نہ تو باغی باپ کا بیٹا ہے اور نہ باغی ماں کا لال!مزے کی بات یہ ہے کہ ایلف شفق بھی بلاول کی طرح حقیقی شخصیت کی مالک نہیں ہے۔ جس طرح بلاول پر سیاسی عظمت مسلط کی گئی ہے اسی طرح ایلف شفق نے اپنے آپ پر ادبی عظمت امپوز کی ہے۔اگر میں ایسا کہوں تو اپنی قوم کے ادبی جیالے میرا جینا حرام کردینگے کہ جس طرح ایلف شفق کی شخصیت پر نسوانیت سے زیادہ مردانگی کا سایہ زیادہ پڑتا دکھائی دیتا ہے ؛ اسی طرح کا ایک مسئلہ بلاول کے ساتھ بھی ہے۔ ایلف شفق مجھے شروع سے پسند نہیں تھی مگر سندھ کے باذوق ادیب اور دانشور آفتاب میمن ان کا اتنا اور ایسا تذکرہ کیا کہ میں ان کی طرف متوجہ ہونے کے لیے مجبور ہوگیا۔ ان کی پہلی کتاب The Forty Rules of Love کو مشکل سے پڑھنے کے بعد جب میں ان کی دوسری ناول 10 Minutes, 38 Seconds in this Strange World پڑھنے لگا تو مجھے یقین ہوگیا کہ آفتاب صاحب کتاب سے زیادہ مصنفہ سے متاثر ہوئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایلف شفق نے مذکورہ ناول میں بہت بڑا موضوع اٹھایا ہے۔ اس نے انسانی دماغ کی وہ کہانی بیان کی ہے جب دل اس کا ساتھ نہیں دیتی اور وہ آہستہ آہستہ کام کرنا بند کرنے لگتا ہے۔ سائنسدان کہتے ہیں کہ دل کی دھڑکن رک جانے کے بعد بھی انسانی دماغ دس منٹ تک زندہ رہتا ہے۔ ایلف شفق نے ایک فرضی کردار لیلیٰ کو اس کیفیت سے گذرتے ہوئے دکھانے کی کوشش کی ہے۔ایلف شفق کی کوشش اچھی ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ وہ کوشش کامیاب بھی ہو۔ ان کی ناکامی کا سبب یہ ہے کہ موضوع بڑا اور ایلف شفق کی صلاحیت کی طاقت اتنی نہیں کہ وہ اس کو اٹھا سکے۔ بلاول بھٹو زرادری بھی پاکستان کی سیاست میں ایلف شفق کی طرح ہیں۔ ان کے کندھوں پر ایک بہت بڑی پارٹی کا بوجھ رکھ دیا گیا ہے اور وہ اتنا بڑا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں ہیں۔پیپلز پارٹی کی کشتی کو ان کے والد صاحب نے کرپشن کے بھنور میں اس طرح پھنسا دیا کہ اسے وہاں سے نکالنے کے لیے بہت بڑی طاقت اور صلاحیت کی ضرورت ہے۔ بلاول بھٹو زرداری بیچارہ حکم کا بندہ ہے۔ وہ اپنے والد کے اشارے پروہ کام بھی کرتا ہے جو اس کو ذاتی طور پر پسند نہیں۔ یہ بات کوئی راز نہیں ہے کہ بینظیر بھٹو کے کسی بچے کی دلچسپی سیاست میں نہیں تھی مگر آصف زرداری نے اپنے بیٹے کو سیاستدان بننے کے لیے مجبور کردیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بلاول نے بہت محنت کی ہے۔ جب وہ کسی حد تک تیار ہوگیا ہے تو اس پر کرپشن کے مقدمات میں ملوث والد اور پھوپھی کو آزاد کروانے کا ذمہ ڈال دیا گیا ہے۔ اس وقت سندھ میں آصف زرداری کی گرفتاری پر لوگ ایک حد تک خوش ہیں۔ پیپلز پارٹی نے سندھ میں حکومت ہوتے ہوئے بھی بڑا زور لگایا مگر لوگ آصف زرداری کی رہائی کے لیے جمع نہ ہو پائے۔ اس صورتحال میں پارٹی ہائی کمان نے بلاول کو آگے لانے کا پرخطر فیصلہ کیا ہے۔ کیوں کہ اگر بلاول سندھ کے عوام کو آصف زرداری کی حمایت میں اٹھانے کے سلسلے میں کامیاب نہیں ہو اتو اس ناکامی کے بوجھ تلے ان کی نازک سیاسی شخصیت دب جائے گی۔ آصف زرداری کو یہ سوچنا چاہئیے تھا کہ وہ اپنے بیٹے کے کمزور کندھوں پر اپنی کرپشن کا بھاری بوجھ کیوں رکھ رہے ہیں؟حالانکہ پیپلز پارٹی کے سینئر اور سنجیدہ رہنما آصف زرداری کی آزادی کے لیے بلاول کو جون کے جہنم جیسے مہینے میں نواب شاہ جیسے گرم شہر سے تحریک کی ابتدا کروانے کا کام انتہائی مہم جویانہ قرار دے چکے ہیں مگر آصف زرداری بہت ضد ہیں۔ انہوں نے اپنی اور اپنی ہمشیرہ کے لیے بلاول کو آگے کیا ہے۔ بلاول اپنے والد کے شہر نواب شاہ میں پہلا جلسہ کریں گے۔ آصف زرداری نے گرفتار ہونے سے قبل نواب شاہ کے وڈیروں اور سرداروں کو ذاتی طور پر بلاول کی مدد کے لیے راضی کیا تھا۔ اس لیے یہ ممکن ہے کہ نواب شاہ کا جلسہ ناکام نہ ہو مگر بلاول پورے سندھ میں کامیاب تحریک چلانے کی قوت نہیں رکھتا۔