انضمام الحق کا بطور چیف سلیکٹر دور تمام ہوا۔ ایک بڑا کرکٹر شکست خوردہ سلیکٹر کے طور پر رخصت ہوا۔ اس کی سلیکٹ کی گئی ٹیم ورلڈ کپ میںاچھا پرفارم نہ کر پائی۔ ناقص سلیکشن، کمزور منصوبہ بندی اور جدید ون ڈے کرکٹ سے ہم آہنگ ٹیم بنانے میں ناکامی ہر ایک پر واضح ہوگئی۔ انضمام الحق کو جانا چاہیے تھا۔ جو ذمہ داری انہیں سونپی گئی، وہ اس میں ناکام ہوئے۔ اس ناکامی کے بعد اگر وہ خود استعفا نہ دیتے تو نکال دئیے جاتے۔اچھا ہوا کہ انضمام الحق نے خود جانے کا فیصلہ کر لیا۔ انہیں اب کوئی نئی ذمہ داری کی خواہش کے بجائے کچھ عرصہ انتظار کرنا چاہیے ۔ قومی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی پورے ملک پر اثرانداز ہوتی ہے، قوم کے مورال پر اس سے فرق پڑتا ہے۔اس لئے پاکستان میں کرکٹ سنجیدہ تجزیے کی متقاضی ہے، اسے تعصبات کی آگ میں جھلستے سپورٹس اینکروں، زہریلے جملے اچھالتے سابق کرکٹروں اور اپنی ناک سے آگے نہ دیکھنے والے سپورٹس رپورٹروں پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ کرکٹ دیکھنے اور اس سے محبت کرنے والے شائقین کا بھی پورا حق ہے کہ وہ کرکٹ پر بات کریں۔ ان خرابیوں پر بات کریں جنہیں ایک عام شخص بھی سمجھ لیتا ہے ، مگر کرکٹ بورڈ کے فیصلہ ساز نجانے کیوں ادراک نہیں کر پاتے۔ان سطور کے مصنف کو بھی کرکٹ سے محبت کا دعویٰ ہے ۔زندگی کے بہت سے مسرت انگیز لمحات گوروں کے متعارف کردہ اس کھیل سے کشید کئے اور کئی افسردہ، مایوس کن لمحات کا کرکٹ کی بدولت ہی سامنا کرنا پڑا ۔انضمام الحق کے بطور چیف سلیکٹر فیصلوں پر بات کرتے ہیں مگر پہلے ایک اور کرکٹرکا تذکرہ ضروری ہے۔ اینڈریو سٹراس معروف برطانوی کرکٹر رہے ہیں۔ وہ اوپننگ بلے باز تھے اور کرکٹ کے تینوں فارمیٹ (ٹیسٹ، ون ڈے ، ٹی ٹوئنٹی )میں برطانوی ٹیم کی قیادت کر چکے ہیں۔ سٹراس اچھے، سٹائلش بلے باز تھے، انہوں نے40.91 کی مناسب اوریج کے ساتھ سو ٹیسٹ میچز کھیلے۔سوا سو کے قریب ون ڈے اور صرف چار ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلنے کا موقعہ ملا۔ ان کا شمار انگلینڈ کے اچھے کپتانوں میں ہوتا ہے، ریکارڈز کے مطابق وہ دوسرے کامیاب ترین کپتان تھے، انہیں روایتی حریف آسٹریلیا کے خلاف ایشز سیریز جیتنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ انضمام الحق کے ساتھ اگر اینڈریو سٹراس کا موازنہ کیا جائے تو انضمام کو ہر لحاظ سے ان پر برتری حاصل ہوگی۔ انضمام کا شمار دنیا کے چند بہترین بلے بازوں میں ہوتا ہے، اپنی غیر معمولی نظر،اچھی تکنیک اور دلکش سٹروکس کی وجہ سے وہ ہمیشہ ممتاز رہے۔ اگر انضمام الحق اپنی فٹ نیس کو بہتر رکھتے ، رننگ پر محنت کرتے تو ان کے ریکارڈز بہت زیادہ بہتر ہوسکتے تھے۔انضمام ہر ا عتبار سے اینڈریو سٹراس سے بڑے کرکٹر سمجھے جاتے ہیں۔ سٹراس کومگر انضمام پر ایک برتری حاصل ہے۔انہوں نے انگلینڈ کرکٹ ٹیم کو دنیا کی نمبرون ٹیم بنا ڈالا۔ اینڈریو سٹراس کو چار سال قبل برطانوی کرکٹ بورڈ کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا۔ اس وقت انگلش ٹیم مشکل حالات سے دوچار تھی۔نگلش ٹیم 2015ء کے ورلڈ کپ کے دوسرے رائونڈ یعنی کوارٹر فائنل تک بھی نہ پہنچ پائی۔ سٹراس پر بھاری ذمہ داری عائد ہوگئی تھی۔ اس نے چیلنج قبول کیا اور دو بڑے فیصلے کئے۔ سٹراس نے کہا کہ انگلینڈکو اگر ون ڈے کرکٹ میں کامیاب اور ممتاز ہونا ہے تو پھر ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میچز پر فوکس کرنا پڑے گا۔ سٹراس نے طے کیا کہ ماڈرن ون ڈے کرکٹ کے لحاظ سے ٹیم بنانی ہے۔یہ ایک نئی اپروچ تھی۔ سٹراس نے مورگن کو شکست کے باوجود ون ڈے کپتان کے طور پر قائم رکھا ، اسے سپورٹ کیا اور زیادہ بہتر نتائج کے لئے جدید انداز کی جارحانہ کرکٹ کھیلنے کی تلقین کی۔ انگلینڈ کے کامیاب ترین ٹیسٹ بائولرز جیمز اینڈرسن اور کرس براڈ کو بتدریج صرف ٹیسٹ میچز تک محدود کر دیا گیا، ون ڈے کے لئے سپیشلسٹ آل رائونڈراورکم رنز دے کر وکٹ لینے والے فاسٹ بائولرز کو ترجیح دی گئی۔ٹیم میں جیسن رائے ، جونی بئیرسٹو اور جوزبٹلر جیسے جارحانہ بلے بازوں کو لایا، انہیںاعتماد دیا گیا۔ بین سٹوکس جیسے میچ ونر کھلاڑی نے 2017ء کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ فائنل میں ویسٹ انڈین کھلاڑی بریتھویٹ سے آخری اوور میں مسلسل چار چھکے کھا کر یقینی جیت کو شکست میں بدل ڈالا۔ کوئی اور ہوتا تو اس کی ہمیشہ کے لئے چھٹی ہوجاتی۔ سٹراس نے سٹوکس پر اپنا اعتماد برقرار رکھا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ بین سٹوکس نے چند دن پہلے ہونے والے ورلڈ کپ فائنل میں انگلینڈ کو ایک پھنسا ہوا میچ جتوا کر تاریخ میں پہلی بار ورلڈ چیمپئن بنوا دیا۔ آج انگلینڈ ون ڈے کی نمبر ون ٹیم بھی بن چکی ہے۔ اس کا بہت بڑا کریڈٹ اینڈریو سٹراس کو جاتا ہے، جس نے انگلش ٹیم میں نئی جان ڈالی اور دنیا کو بتایا کہ ماڈرن ون ڈے کرکٹ اب ایسے کھیلنا ہے۔ ایسا نہیں کہ انگلینڈ کی ٹیم ناقابل شکست یا پرفیکٹ بن گئی یا ان کے پاس دنیا کے بہترین بائولرز آ چکے ہیں، ظاہر ہے ایسا نہیں۔ انگلینڈ مگر ایک بھرپور فائٹ کرنے والی، معجزہ تخلیق کرنے والی ٹیم بن چکی ہے۔ کریڈٹ ٹیم کے ساتھ کپتان مورگن اور اس پلاننگ کے ماسٹر برین اینڈریو سٹراس کے سر جاتا ہے۔ اینڈریو سٹراس کی طرح انضمام کو بھی وہی موقعہ ملا۔انضمام کے سب فیصلے غلط نہیں تھے۔ بعض سپورٹس اینکراور جلے بھنے تجزیہ کار نجانے کون کون سے حساب چکانے پر تلے ہوئے ہیں۔ انضمام الحق نے چیف سلیکٹر بن کر بعض جرات مندانہ فیصلے بھی کئے۔ احمد شہزاد اور عمر اکمل جیسے مسخرے کھلاڑیوں کو بری کارکردگی اور بدترین ڈسپلن کے باوجود کوئی نکالنے کی ہمت نہیں کر پا رہا تھا۔ انضمام الحق نے ٹیم کو ان سے نجات دلائی ۔کئی عمدہ نئے کھلاڑیوں جیسے حسن علی، شاداب خان، شاہین آفریدی ، بابر اعظم، فخر زماں وغیرہ کو موقعہ دیا ، ان سب نے اپنے آپ کو منوایا۔عثمان شنواری کو بھی انضمام نے دوبارہ چانس دلوایا، حسین طلعت کو بھی آزمایا،عابد علی کو تاخیر سے سہی، مگر انضمام ہی نے ون ڈے ڈیبیو کرایا۔یہ درست ہے کہ وہ پی ایس ایل میں اچھی کارکردگی دکھانے والوں پر زیادہ توجہ دیتے رہے، مگر اس کی سادہ وجہ یہ تھی کہ پاکستان کا یہ واحد ٹورنامنٹ ہے جس میں سخت مسابقت ہے اور صرف دبائو کو برداشت کرنے والے اچھے کھلاڑی ہی پرفارم کر پاتے ہیں۔انضمام کو امام الحق کا طعنہ دینا درست نہیں۔ امام الحق انڈر نائنٹین ورلڈ کپ کے ٹاپ سکورر تھے، اس وقت تو انضمام سلیکٹر نہیں تھے۔ امام نے اپنے پہلے ہی میچ میں سنچری بنا ڈالی، پچاس کی اوریج سے رنز کئے ہیں۔ امام الحق اپنے میرٹ پر ٹیم میں شامل ہوئے۔ انضمام الحق کی سب سے بڑی خامی یہ رہی کہ وہ ماڈرن ون ڈے کرکٹ کے مزاج کے مطابق پاکستانی ٹیم کی تشکیل نہ کر پائے۔ وہ ٹیم پر بوجھ بن جانے والے سینئر کھلاڑیوں کو باہر نہ نکال سکے۔ یہ ان کی وضع داری تھی یا ذاتی تعلق ،وجہ جو بھی ہو، مگر شعیب ملک کو ورلڈ کپ ٹیم میں شامل نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ان کا کیرئرکب کا ختم ہوچکاتھا۔نمبر پانچ ، چھ پر اب ون ڈے ٹیم میں چھکے لگانے والے پاور ہٹرز کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ شعیب ملک کے بس کی بات نہیں رہی، دوسرا شعیب ملک نے کبھی انگلینڈ میں پرفارم نہیں کیا، وہ وہاں بدترین بیٹنگ اوریج رکھنے والے بلے باز ہیں۔ حفیظ بھی ٹیم پر بوجھ تھے۔ سب سے بڑھ کر ٹیم کا کپتان وہ کھلاڑی ہے، جس کی بطور پلیئر ٹیم میں جگہ نہیں بنتی۔ جو کسی بھی ماڈرن ون ڈے، ٹی ٹوئنٹی ٹیم کا حصہ نہیں بن سکتا کہ لمبی ہٹیں لگانے کی صلاحیت سے عاری ہے۔ جو نمبر پانچ، چھ پر کھیلنے آتا ہے، مگر آخری اوورمیں تیزی سے رنز نہیں کر سکتا۔ اپنی اس ناکامی کو چھپانے کے لئے وہ ڈریسنگ روم میں دبک کربیٹھا رہتا اور اپنی جگہ نمبر سات، آٹھ، نو والے کھلاڑیوں کو بھیج دیتا۔ ایسا کپتان کیسے ٹیم سے پرفارمنس لے سکتا ہے؟اس کے لئے تو نیوزی لینڈ کے ولیمسن ، انگلینڈ کے مورگن ، بھارت کے کوہلی جیسی ذاتی کارکردگی دکھانا پڑتی ہے۔انضمام الحق سرفراز کو ہٹانے کی ہمت نہ کر پائے۔ محمد رضوان نے سنچریاں بنا ڈالیں مگر انہیں ٹیم میں شامل تو درکنار ، انگلینڈ آزمانے تک کے لئے نہ لے گئے۔ عابد علی لمبے رنز کی صلاحیت والے اوپنر محسوس ہوئے، انہیں شائد اس لئے ورلڈ کپ ٹیم میں شامل نہیں کیا کہ کہیں امام الحق خود کو غیر محفوظ تصور نہ کرے۔ فخر زماں کے ناکام ہونے کے بعد اگر عابد علی ہوتا تو آخری چند میچز میں ٹیم کو اچھے سٹارٹ اور پھر اچھے رن ریٹ کے لئے فائدہ ہوسکتا تھا۔ انضمام ورلڈ کپ کے لئے پلان بنا ہی نہیں سکے۔ آخری اوورز کے لئے یارکر سپشلسٹ بائولرز وہ نہیں ڈھونڈ پائے۔محمد عامر اور وہاب ریاض تو انضمام الحق کے ورلڈ کپ پلان میں تھے ہی نہیں۔ اگر انہیں آخری وقت میں شامل نہ کیا جاتا معلوم نہیں پاکستانی ٹیم کا ورلڈ کپ میں کیا حشر ہوتا؟ ورلڈ کپ کے لئے ٹیم جانے سے پہلے ہی میں نے کالم لکھا تھا، ’’انضمام الحق، آپ ناکام ہوگئے۔‘‘ افسوس کہ یہ پیش گوئی درست نکلی اور انضمام الحق جیسا کہ توقع کی جا رہی تھی، ورلڈ کپ کے لئے اچھا کمبی نیشن بنانے میں ناکام رہے۔جو ذمہ داری انہیں سونپی گئی، وہ ا سکے اہل نہ ہوپائے ۔انہیں جانا ہی تھا۔ کوچ اور باقی مینجمنٹ کو بھی جانا چاہیے۔کرکٹ بورڈ کو اس بار مگر چہرے بدلنے کے بجائے حقیقی تبدیلی لانا ہوگی۔