کوئی تحریر جب شائع ہو کر عوام کے ہاتھ میں آتی ہیں تو وہ ضرور اپنا اثر چھوڑتی ہے۔ بایں ہمہ یہ تیسرا سال چل رہاہے اور آج کا ہی دن تھا کہ جب میں نے موقر روزنامہ 92میںکشمیرکے موضوع کوچھڑا، تب سے یہ سیال قلم بگٹٹ دوڑ رہا ہے،مقصود شہرت و مقبولیت نہیں،کوئی مالی منفعت کشید کرنے کا نہیں، تشکر و امتنان کے گلدستے حاصل کرنا نہیں بلکہ مطلوب ہے تحریروں سے کشمیریوں کے دردوالم کو قارئین کے ذہن و فکر میں اتارنا، تاکہ وہ اسلامیان کشمیرکوکم از کم اپنی دعائوں میں یادرکھیںکہ رب الکریم انہیں آزادی کی نعمت عطاکرے اورخونین پنجہ ہنود سے انہیں محفوظ رکھے۔ نوک قلم سے جوتحاریر منصہ شہود پر لا رہا ہوں میں یہ نہیں سمجھتا ہوں کہ اسے میں کوئی علمی معرکہ سر کررہا ہوں تاکہ علمی و ادبی حلقوں میں میری تحریروںکو سراہا جائے گا،نہیں ہرگز نہیں بلکہ کشمیرکی تاریخ کے خونین باب وا کررہاہوں تاکہ اسے پڑھا جائے گا اوراسلامیان کشمیرکی لازوال اور بیش بہا قربانیوں کو ایک قیمتی سرمایہ سمجھ کر اس کی عمدہ حفاظت کے ساتھ ساتھ آنے والی نسلوں میں بھی منتقل کیا جائے گا۔ میری تحریروں میں گویا اسلامیان کشمیر کی جہدِ پیہم کی عکسی تصاویر ثبت ہیں۔جن لوگوں کو خلق خدا کے مصائب و آلام ان کی ہر پریشانی و غم اپنا لگتا ہو اور اس دردکو اپنے نہا خانہ د ل میں جگہ دیتے ہیں وہ لازماان تحریروں کودل کی نگاہ سے پڑھتے ہیں۔ میرے ان مضامین کے ترتیب و تدوین میں نمودونمائش کے لئے کوئی درون و بیرون کی آرائش و زیبائش یا کوئی فنکاری نہیں ہے۔ میدان تصنیف کی عام روش کے علیٰ الرغم زیر نظر سطورمیں بے جا طولانی کی بجائے بس مقصود و مدعا پر ہی اکتفا کرتاہوں ۔ میں تحدیث نعمت کے طورپر کہتا ہوں کہ کشمیرکے موضوع پر پوری محنت و لگن ، دلجمعی اوردلسوزی کے ساتھ کام کرنا گویا میرا محبوب مشغلہ ہے۔ ارض کشمیر پر پیش آنے والے دلدوزواقعات کوسطورکی لڑی میں پروکر انہیں صفحہ قرطاس پر منتقل کرنے اور پھر اخبارکو بھیجنے تک نہایت خلوص و للہیت سے کام لیتا ہوں۔ واحد مقصد یہ ہے کہ ہمارے قارئین پڑھیں اورپھرکشمیرکی صورتحال کا اندازہ لگائیں پھر اسے دوسروں تک منتقل کرنے کا کام بڑی فراخ دلی کیساتھ انجام دیں تاکہ دشمنان اسلام کی پرکھ کے حوالے سے مدد مل سکے اور اسلام دشمن قوتوں بالخصوص اس خطے کے بدترین دشمن اسلام بھارت کی سفاکیت کوسمجھنے کے لئے ان کے لئے افادہ و استفادہ کی راہیں مزید آسان ہو سکیں۔میری کوشش رہتی ہے کہ اپنی مکمل تحریرمیں اندازِ تخاطب اشارات و کنایات سے نہیں بلکہ براہ راست بات کرکے کروں ۔مجھے یقین ہے کہ جب ہمارے قارئین کشمیرسے متعلق میری نوک قلم کی سطروں کو اپنی آنکھوں کا رشتہ ہموار کرتے ہونگے تو ان کی نگاہوں کے سامنے ضروراسلامیان کشمیرکی زندگی کے وہ دل دہلانے والے شب و روز گھوم جاتے ہوں گے جن کاسامنا بھارتی بربریت سے ہے اور جن کے دامن تارتارہیں۔ کیا ہوگیا عصر حاضر کی سفاک قوتوں کوجوانسانی خون کے پیاسی بن چکی ہیں ،دنیا بھر میں ان کی دیدہ دلیریاں اورسینہ زوریاں بدستورجاری ہیں اور بدمعاشی اورغنڈہ گردی کرتے ہوئے آنکھ کی جھپکی میں مسلمان بستیوں میںکشتوں کے پشتے لگا رہی ہیں ، ان صیادوں نے خودارمسلمانوں اورخودارممالک جو سر اٹھاکرجیناچاہتے ہیں کواپنے نشانے پرلے رکھا ہے ۔ان کے ظلم کے باعث ایسے مسلمانوں کے لئے جائے ماندن نہ پائے رفتن معاملہ درپیش ہے ۔سوال یہ ہے کہ کیا وہ ہزاروں سالوں کی تاریخ نہیں پڑھتے کہ باہم جنگ وجدل اور جہانگیری پر ہوئی لڑائیوں میں کروڑوں انسان مر کھپ گئے، قومیں تباہ وبرباد ہوگئیں، تہذیبیں ملیامیٹ ہوگئیں لیکن اس کے باوجو دان نمرودوں اور فرعونوں ظالم اورسفاک قوتوں کوکوئی پائیداری نصیب نہیں ہوسکی۔ جنہوں نے اپنے فعل قبیح سے شر و فساد، جنگ و جدال، تباہی و بربادی کی داستانیں رقم کیں۔ کہاں ہیں وہ آج؟ مٹ گئے وہ سب اس صفحہ ہستی سے ۔کہاں ہیں وہ دوسرے انسانوں پر درندوںکی طرح جھپٹ پڑنے والے اورجوصرف شر وفساداور تشدد کے خوگرتھے۔بلاشبہ ان پربھی ایسی ہی جنونیت اورحیونیت غالب آچکی تھی کہ جو ہم اکیسویں صدی میں دیکھ رہے ہیں اورجسے دیکھ کرشرم آجاتی ہے۔ انسانی تاریخ کے صفحات ایسے ظالموں کے ظلم کی داستانوں سے بھرے پڑے ہیں۔ عصر حاضرکی تاریخ کی متعدد داستانیں چیخ چیخ کر کہتی ہیں کہ دنیا اکیسوں صدی میں رہتی ہے لیکن حکمران طبقہ اوران کے چیلے دورجہالت سے لائے گئے ہیں اسی لئے ان کے اوران کے طریقہ واردات میںفرق نہیں ۔عین غین ایک جیسے ہیں۔کشمیرکے بشمول چاردانگ عالم مسلمانوں کے خلاف ہو رہی ہرسفاکیت پر بھارت سمیت سب سفاکوں کی پیٹھ تھپتھپائی جارہی ہے اور اس طرح کھل کر ان کی مددواعانت کی جارہی ہے ۔دنیاکے امن کوفساد کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ ان ہاتھوں کی ستیزہ کاریوںاورچیرہ دستیوں سے مظلومین کونجات کون دلائے گا۔ مقام افسوس یہ ہے ،ظالموں اورسفاکو ں کی ان بڑھتی ہوئی چیرہ دستیوں کوروکنے والاکوئی ایک ملک بھی نظر نہیں آرہا ۔ جسے مسلم دنیاکہاجاتا ہے دنیاوی آرام و آسائش میں پھنس کر اپنا اعتبار کھو رہی ہے۔ لایعنی بحثوں میں الجھ کر، انانیت، ہٹ دھرمی اور اندھی تقلید جیسی اخلاقی برائیوں میں مبتلا ہوکر اپنے مقام سے ہٹ رہی ہے۔مسلمان ممالک پرمسلط حکمرانوںکو اس کی بات کی فکر بڑی شدت سے ہے کہ آنے والے دنوں میں ان کا کیا ہوگا،مستقبل میں ان کے نسلوں کا کیا ہوگا؟ ایسا تو نہیں کہ کوئی اٹھے اورانہیں اقتدارکی کرسی سے اٹھاکر باہر پھینکے ۔اس مرض کے شکار انہیں اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ ان کے فرض سے غفلت کے نتیجے میں انسانیت پر جو تباہی وارد ہو رہی ہے اس کا مداوا کیسے ہو۔ھل من ناصرینصرنا پکارنے والوں کو انسانی بستیوں کی تباہی ،بربادی اوران پرڈھائے جانے والے مظالم سے کوئی سروکار نہیں۔لگتا ہے کہ جب تک مسلمانوں میں پھر سے کوئی صلاح الدین ایوبی نمودار نہیں ہوتا تب تک چاردانگ عالم کرب میں مبتلا مسلمانوںکے زخموں پرکوئی مرہم نہیں لگا سکتا۔