سیب کے باغات میں پھل لگنے سے اگست ستمبرتک کئی بارسیب باغات میں مختلف قسم دواپاشی کی جاتی ہے تاکہ سیب بیماری سے بچ جائے۔ اس کے علاوہ سیب کے درخت کی نشوونما کے لئے اسکی جڑوں کومختلف قسم کی کھادیں دی جاتی ہیں تبھی توخرچ کردہ رقوم سے سوگنافائدہ کشید کرتے ہیں ’’سکیب‘‘ ایک سنڈھی ہے جوسیب کے درختوں کولگ جائے توفصل کومکمل طور پر خراب کرتی ہے اوراسکے سائزکومحدودبنادیتی ہے جس کے باعث اسے کوئی خریدتاہے اورنہ وہ کھانے کاقابل رہتاہے ۔ اس بیماری سے سیب باغات کوبچانے کے لئے لازماََدواپاشی کی جاتی ہے ۔ ہردوصورت میں کشمیرکے سیب باغ مالکان کو سالانہ ٹھیک ٹھاک اورخطیررقم صرف کرنی پڑتی ہے تب جاکربھارتی ریاستوں سے بیوپاری ،آڑتھی آکر کئی کشمیری باغ مالکان سے پورے باغ کاسیب خریدخریدکر دہلی کی آزادپورمنڈی سے لیکربھارتی ریاستوں کی مختلف منڈیوں میں پہنچاکر پر فروخت کرتے ہیں۔لیکن ایک سال کے لاک ڈائون کے دوران بھارت کی مختلف ریاستوں سے تعلق رکھنے والے آڑتھی نہ آسکے اور کمیشنگ ایجنٹ بھی ٹرانسپورٹ اور نیٹ ورک نہ ہونے کی وجہ سے کشمیر نہیں آسکے۔ واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیر میں تقریبا 50لاکھ افراد بالواسطہ یا بلا واسطہ ہارٹی کلچر سے وابستہ ہیں، جس کا ایک بڑا حصہ سیبوں کی کاشت پر مشتمل ہے۔ کشمیرکے فروٹ کی دوسری پیداوار چیری ہے سیب کے علاوہ وادی میں چیری کے مختلف اقسام کی سالانہ پیداوار 15ہزار میٹرک ٹن ہوتی ہے اور اس فصل کا سیزن ماہ مئی کے وسط سے شروع ہوکر ماہ جولائی کے وسط تک رہتا ہے۔ چیری کا شمار انتہائی حساس پھلوں میں ہوتا ہے۔ چیری کے نازک اورنہایت ہی حساس پھل میں سے 60 فیصد مخملی اور مشری چیری کہاجاتاہے ۔بھارت کے جبری قبضے کے باعث چیری کاپھل سری نگر ہوائی اڈے سے براہ راست بھارت کے مختلف شہروں جیسے دہلی، ممبئی، کولکتہ، چنئی، حیدر آباد، احمد آباد، بنگلورو جبکہ جموں یا امرتسر سے ریلوے کے ذریعے منتقل کیا جاتا ہے۔ بعض کوخصوصی طور پر ایئرکارگو و ریلوے کے ذریعے فروٹ منڈی ممبئی منتقل کیا جاتا تھا۔ کشمیرکی چیری دہلی کی منڈی کو 20 فیصد جبکہ بھارت کی دیگر منڈیوں کو 10 فیصد مال منتقل کیا جاتا تھا۔ چیری کی فصل کا سیزن ماہ مئی کی وسط سے شروع ہوکر ماہ جولائی کے وسط تک ختم ہو جاتا ہے اور یہ فصل بہت ہی جلد خراب ہوجاتی ہے جس کے پیش نظر اس کے لئے ٹرانسپورٹ کے انتظامات نہایت سرعت کے ساتھ کئے جاتے ہیںتاکہ یہ فصل خراب نہ ہوجائے۔ 2020ء ماہ مئی کے وسط سے جولائی کے وسط تک میں شدیدقسم کے لاک ڈائون کے باعث میںچیری فصل کی پیکنگ کے لئے جہاں مواد و سامان دستیاب نہیں تھا وہیں جموں وکشمیر میں تمام سبزی و فروٹ منڈیاں بند تھیںاور ٹرانسپورٹ کی نقل وحمل بھی معطل تھی اس دوران یہ ساری کی ساری چیری فصل تباہ ہوگئی ۔چیری باغ مالکان پریشان تھے کہ اگر اس پھل کو درختوں سے اتارا گیا تو پھر اسے کہاں لے جائیں ۔ مقبوضہ کشمیر کی کثیر آبادی سیب کی صنعت کے ساتھ وابستہ ہے وہیں اخروٹ کی پیداواربھی پورے کشمیر میں بڑے پیمانے پر ہوتی ہے۔ کشمیرمیں اخروٹ کی پیداوار زیادہ تر کشمیر کے بالائی علاقو ں میں کثرت سے ہوتی ہے۔ بارہمولہ، گاندربل ، کپوارہ ، لولاب، بانڈی پورہ ، ہندوارہ، ٹنگڈار، شوپیاں ، اوڑی، پلوامہ ، بڈگام ، ماگام ، گاندربل ، اسلام آباد ، رام بن ، گول ، بانہال ،راجوری اورپونچھ و دیگر علاقوں میں ہوتی ہے۔مقبوضہ کشمیرسے سالانہ 8کوئنل اخروٹ گری تیار ہوتی ہے اور اس کاروبار کے ساتھ ہزاروں لوگ وابستہ ہیں ۔ کشمیر میں سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی اخروٹ کی فصل تیار ہو جاتی ہے۔ یہ خشک میوہ لوگوں کے روزگار کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ستمبر کے اواخر تک اخروٹ پوری طرح سے پک جاتے ہیں۔ درختوں سے اخروٹ اتارنے کے بعد انھیں ذخیرہ کیاجاتاہے ۔اخروٹ کی صنعت سے اسلامیان کشمیر کی معیشت کو نہ صرف فائدہ حاصل ہوتا ہے بلکہ یہاں کی آبادی کے ایک کثیر حصے کو روزگار بھی حاصل ہوتا ہے۔ تاہم ایک سال کے لاک ڈائون کے دوران 2019ء میں کشمیرکے اخروٹ کو بھی نقصان پہنچا۔ نومبر2019ء کی ایک رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوںکی اخروٹ کی فصل میں کروڑوںروپے کا خسارہ ہواہے ۔ لاک ڈائون اوربندش کے باعث اخروٹ کی بیشتر فصل تباہ ہوگئی ۔ کرفیو نے صورتحال کو مشکل بنا دیا تھا ۔مواصلات کی عدم موجودگی میں ، تاجر آرڈر لینے اور مال بھیجنے سے قاصر رہے۔ مقبوضہ کشمیر میں سفید اخروٹ کے مغز جسے گری اخروٹ کہا جاتا ہے بکثرت پیداوار ہوتی ہے اس کے علاوہ بھورے رنگ کی اخروٹ گری بھی یہاں پائی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ مارکیٹ کا مجموعی کاروبار ہر موسم میں اربوںروپے کاہوتاہے۔لیکن لاک ڈائون کے باعث2019ء میں اخروٹ کے درختوں کی پوری دلچسپی سے دیکھ ریکھ نہ ہوسکنے کے باعث اسلامیان کشمیرکے اس ذریعہ معاش پر پانی پھیر دیاہے۔ مقبوضہ وادی کشمیر میں کاشت ہونے والی دیگر فصلوں کی طرح ہی بادام کی فصل بھی ایک سال کے لاک ڈائون کی شکار ہو ئی ۔ ضلع پلوامہ کے اکثر کریواس (KAREVAS)تین ہزار سے زاید ہیکٹر اراضی پر بادام کے باغات ہیں۔ مردم خیز ضلع پلوامہ کو بادام کی پیداوار میں کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ 2019ء میں اس ضلع سے6ہزار میٹرک ٹن بادام کی پیداوار ہوئی تھی، لیکن ہندوستانی لاک ڈائون سے کسان بری طرح لٹ گئے ۔ (ختم شد)