کئی ماہ تک مسلمانوں پر بیت اللہ اور روضہ رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دروازے بند رہے ع مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارہ سمجھے اور سدھرے ہم پھر بھی نہیں‘ فرانس کے انتہا پسند اور بنیاد پرست صحافی‘ دانشور اور سیاستدان وقتاً فوقتاً آزادی اظہار کے نام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس پر حملہ آور ہوا کیے اور مسلمان اکابرین اسے محدود طبقے کا انفرادی فعل قرار دے کر نظر انداز کرتے رہے مگر اب فرانسیسی صدر میکرون نے سرکاری طور پر گستاخانہ خاکے بنانے اور ان کی نمائش کرنے والوں کی تائید و حمائت کی ہے۔ مسلمانوں کی دینی حمیت اور اپنے آقا و مولا سرور کائنات سے محبت و شیفتگی کو للکارا ہے مگر اُمہ بحیثیت مجموعی مجرمانہ بے حسّی کا شکار ہے‘ او آئی سی تاحال خاموش ہے‘ عرب لیگ خواب خرگوش کے مزے لے رہی ‘ عرب ممالک کی قیادت امریکہ اور اسرائیل کی چاپلوسی میں مشغول اور پاکستان‘ ترکی اور ایران کے سوا دیگر کسی مسلم ملک کی غیرت نہیں جاگی۔ بنگلہ دیش اور دیگر ممالک میں عوام لاکھوں کی تعداد میں مظاہرے کر رہے ہیں ۔کئی عرب ممالک کے تاجروں نے فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ میں حصہ لیا جس کا خاطر خواہ اثر ہوا مگر عوام کے گردنوں پر سوار سلاطین و مملوک ‘ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہیں۔ ترکی کے صدر طیب رجب طیب اردوان‘ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان اور ایرانی صدر حسن روحانی نے فرانسیسی صدر کے بیانات اور خاکے شائع کرنے والوں کے خلاف موثر آواز اٹھائی‘ عمران خان نے مسلم ممالک کے سربراہوں کو خط لکھ کر ان کی دینی حمیت اور ملّی غیرت کو جھنجھوڑا اور انہیں باور کرایا کہ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ہمارا مشترکہ موقف ہی یورپ کو گستاخانہ انداز فکر سے باز رکھ سکتا ہے۔ یہ کوشش عمران خان نے پچھلے سال جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران بھی کی۔ امریکہ و یورپ کا دانشور‘ سیاستدان اور انسانی حقوق کا علمبردار طبقہ بدستور اپنے اس موقف پر ڈٹا ہے کہ انہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی اور ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے کا پیدائشی حق حاصل ہے اور وہ اس حوالے سے کوئی معقول بات سننے کے روادار نہیں۔ عمران خان اور طیب اردوان مسلمان حکمرانوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ؎ وہؐ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہؐ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو جان ہیں وہ جہان کی جان ہے تو جہان ہے مخبرصادق ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا ایک ایسا وقت بھی آئے گا جب مسلمانوں پر ان کے دشمن اس طرح ٹوٹ پڑیں گے جس طرح شہد کے پیالے پر مکھیاں یلغار کرتی ہیں‘‘ صحابہ کرامؓ نے عرض کی ’’یا رسول اللہ ﷺ !کیا ہم تعداد میں اس قدر قلیل ہوں گے کہ لوگ ہم پر یوں آسانی سے چڑھ دوڑیں گے‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’نہیں تمہاری تعداد اتنی زیادہ ہو گی کہ گنتی کرنا آسان نہیں رہے گا مگر ’’وہن‘‘ کی وجہ سے تمہاری یہ حالت ہو گی‘ زندگی سے پیار اور موت سے فرار کی عادت تمہیں اس حال تک پہنچا دے گی‘‘ ایک ارب پچاس کروڑ مسلمانوں بالخصوص ان کی قیادت پر نظر دوڑائیں اور رسول اللہ ﷺ کے فرمان عالیشان پر غور کریں بخوبی اندازہ ہو گا کہ کوئی ہماری صدائے احتجاج پر کان کیوں نہیں دھرتا؟ علم سے ہم کوسوں دور‘ عمل سے ہم تہی دست‘ دھن دولت ہمارا ایمان‘ طاقتوروں کی چاپلوسی ‘ کمزوری پر ظلم و جور ہماری عادت‘ اور باہم نفاق ہمارا وطیرہ‘ کوئی کسی حکمران اور احتجاجی عوام کی بات سنے تو کیوں کر؟ سب مصلحتوں کا شکار ہیں اور مغربی حکمرانوں کے ردعمل سے خائف۔ آج اگر مسلم حکمران اور عوام دو باتوں پر متفق ہو جائیں تو بہت کم عرصے میں صرف فرانس نہیں ساری مغربی دنیا مسلمانوں کی مقدس شخصیات‘ قرآن مجید اور اسلامی شعائر کی حرمت و عزت کے حوالے سے ایسی قانون سازی کے لئے تیار ہو گی جیسی چند لاکھ یہودیوں کے جذبات کی پاسداری کے لئے دنیا بھر میں ہو چکی اور کسی کو خلاف ورزی کا یارا نہیں‘ جن ممالک میں آزادی اظہار کے نام پر رسول اللہ ﷺ کی ذات بابرکات اور کتاب مقدس قرآن مجید کی بے حرمتی کا رواج ہے اور شعائر اسلامی پر پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں ان کی مصنوعات کا امہ کی طرف سے اجتماعی بائیکاٹ اور اپنے اپنے سیای‘ اقتصادی و معاشی مفادات سے بالاتر ہو کر باہمی اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ وہ نسخہ کیمیا ہے جو اُمہ کو موجودہ ذلت و رسوائی سے محفوظ رکھ سکتا ہے لیکن یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک عالم اسلام اور اس کے حکمران زندگی سے پیار‘ موت سے فرار کے موذی مرض سے جان نہیں چھڑا تے۔ 10فروری 1948ء کو امریکی صدر ہیری ٹرومین نے سعودی فرماں روا شاہ عبدالعزیز آل سعود کو ایک خط لکھا جس میں انہیں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی ترغیب دی اور ملفوف انداز میں دھمکایا کہ اگر عرب ممالک نے اسرائیل کو تنگ کیا تو انہیں عالمی بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑیگا۔ امریکہ اور سعودی عرب کے اقتصادی مفادات بھی خطرے میں پڑ جائیں گے‘جوابی خط میں شاہ عبدالعزیز نے ٹرومین کو لکھا’’آپ نے باہمی اقتصادی مصلحتوں کا ذکر کیا ہے‘ جن سے میرا اور آپ کا ملک جڑا ہے‘ تو یاد رکھیے یہ اقتصادی مفادادات میرے نزدیک پرکاہ کی حیثیت نہیں رکھتے‘ میں ان اقتصادی مفادات کو قربان کر سکتا ہوں مگر یہ مجھے منظور نہیں کہ اس کے بدلے فلسطین کی ایک بالشت زمین مجرم یہودیوں کے ہاتھ فروخت کر دوں‘ اللہ تعالیٰ اس بات پر گواہ ہے کہ میں تیل کے ان کنوئوں کو بند کر سکتا ہوں یہ کنوئیں اللہ تعالیٰ کی وہ نعمتیں ہیں جو اس نے آج ہم پر جاری فرمائی ہیں لہٰذا ہم انہیں کبھی عذاب الٰہی میں تبدیل نہیں کرنا چاہتے‘‘۔ آج عالم عرب مگر فلسطینیوں کو ظالم صیہونی قبضہ گروپ کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اسرائیل سے پیار و محبت کی پینگیں بڑھا رہا اور ایمان کی کمزوری کا یہ عالم ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی عزت و ناموس کے تحفظ کے لئے قائدانہ کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔ کوئی نہیں جو اپنے اقتصادی‘ معاشی‘ سیاسی مفادات کو تج کر فرانس اور دیگر مغربی ممالک کے حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے کی تلقین کرے اور ضد و ہٹ دھرمی کی صورت میں معاشی بائیکاٹ کی دھمکی دے۔ کوئی شخص اس وقت تک مسلمان کہلانے کا حق دار نہیں جب تک وہ اپنے والدین اور دنیا جہاں سے بڑھ کر آپ ﷺ سے محبت نہ کرے مگر حب دنیا اور حب جاہ نے ہمیں اندھا کر دیا ہے اور ہم حضور اکرم ﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہیں نہ آپؐ کے نقش قدم پر چل کر علم و عمل کے روشن مینار بننے پر آمادہ اورنہ حسن کردار سے عالم انسانیت کو متاثر کرنے کے قابل۔ ہالینڈ کے دو ارکان پارلیمنٹ فریڈم پارٹی کے سرکردہ ارکان Anould van Doornاور Jorm van Klavernعرصہ دراز تک اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مہم چلاتے رہے‘ اسلام کو جھوٹ اور قرآن کو زہر قرار دیتے رہے۔ گستاخانہ نعروں سے مسلمانوں کے جذبات مجروح کرتے تھے مگر بالآخر قرآن مجید اور اسوہ رسول ﷺ کے مطالعہ سے مسلمان ہو گئے کہ قرآن مجید اور اسوہ رسول ﷺ کا مطالعہ انسان کو صراط مستقیم پر لاکھڑا کرتا ہے مگر مسلمان خود کتاب ہدائت اور اسوہ رسول ﷺ سے کتنی رہنمائی حاصل کرتے ہیں؟ جواب معلوم اور باعث ندامت۔ حضور ﷺ کے ذکر کو اللہ تعالیٰ نے بلند کیا‘ قرآن مجید کی حفاظت کا ذمہ لیا ہم اگر یہ فرض ادا نہ کریں تو ہماری اپنی کم نصیبی کہ کوئی مغربی مصنف‘ یورپی کارٹونسٹ اور فرانسیسی حکمران آپ ﷺ کی شان کم کر سکتا ہے نہ ناموس رسالت ﷺ کو غبار آلود ؎ مٹ گئے‘ مٹ جائیں گے اعدا تیرے نہ مٹا ہے نہ مٹے گا کبھی چرچا تیرا مسلمانوں کا مگر امتحان ہے کہ وہ اپنا فرض بجا لاتے ہیں یا حسب سابق اپنی سیاسی و سفارتی مصلحتوں‘ اقتصادی و معاشی مفادات کے اسیر منہ میں گھنگھنیاں ڈالے گونگے شیطان بنے بیٹھے رہتے ہیں یا جذبہ ایمانی اور حسن تدبیر گستاخان رسول ﷺ کے منہ بند کرکے روز قیامت حضور ﷺ کے روبرو سرخرو ہوتے ہیں ؎ ٹھوکریں کھاتے پھرو گے ان کے در پر پڑر ہو قافلہ تو اے رضا‘ اوّل گیا آخر گیا