5اگست سے آج تک کشمیرسخت محاصرے میں ہے کشمیریوں کوباہرجانے اورنہ ہی کسی کشمیری کو کشمیر میں داخل ہونے کی اجازت ہے ۔جنوبی کشمیرکے ضلع اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے علیم سیداپنے گھرسے باہربھارت میں بسلسلہ تعلیم وروزگارمقیم ہیں۔تمام کشمیریوں کی طرح ان کی بھی اپنے گھر والوں سے کوئی بات نہیں ہوپارہی ۔ایک ایسا شخص جو ہر روز اپنے خاندان والوں سے فون پر باتیں کرتا تھا اب کئی ماہ سے ان سے رابطے میں نہیں۔علیم سید کشمیر جانے کے خواہشمند ہیں تاکہ وہ اپنے خاندان والوں کی موجودہ صورتحال کے بارے میں جان سکیں مگر پابندیوں کے باعث وہ کشمیر نہیں جا سکتے۔ آخرکار انھوں نے اس مقصد کے لیے بھارتی سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رانجن گوگوئی کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے ان کی استدعا سنی اور ان کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کی انتظامیہ کو حکم دیا کہ ان کی گھر واپسی اور سکیورٹی کا مناسب بندوبست کیا جائے۔24 سالہ علیم سید کشمیر کے علاقے اسلام آباد کے رہائشی ہیں اور انھوں نے دلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔ڈگری مکمل ہونے کے بعد علیم کو حال ہی میں ایک نوکری ملی ہے۔ وہ گھر جانے کے لیے بے قرار تھے لیکن آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد وادی کی بگڑتی صورتحال کے پیشِ نظر انھیں نہیں معلوم کہ وہ کشمیر میں اپنے گھر جا بھی پائیں گے یا نہیں۔آخری مرتبہ انکی گھر والوں سے4اگست کی رات کو بات ہوئی تھی جبکہ 5اگست سے کشمیرکامحاصرہوا۔خبروں میں آ رہا تھا کہ کشمیر میں صورتحال اچھی نہیں ہے اور حالات سنگین ہیں اور اس کے بعد اپنے گھر والوں کی حفاظت کے حوالے سے ان کی فکر مزید بڑھ گئی تھی۔ اسی وجہ سے انہوں نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی۔ ان کاکہناہے موجودہ کربناک صورتحال کے پیشِ نظران کے گھروالوں نے اشیاء خوردنی کا انتظام کر رکھا تھا۔لیکن 3ماہ کے لئے راشن کا بندوبست نہیں کیا سکتا اور یہی بات ان کے لیے سب سے زیادہ تشویش ناک تھی۔ اگر صرف فون کے ذریعے بات کرنے کی سہولت موجود ہوتی تو شاید ان کی فکر ختم ہو جاتی۔ لیکن جب ان کی بات نہیں ہو پارہی تووہ فکرمند ہو گئے۔ انڈیا کی سپریم کورٹ نے کشمیر سے متعلق 14 درخواستوں کی سماعت کی جن میں سے ایک علیم کی تھی۔بھارتی سپریم کورٹ نے انھیں کشمیر میں اپنے گھر والوں سے ملنے کی اجازت دے دی ہے۔ دیگرلوگوں میں بھارت کے سیاسی لیڈراورکمیونسٹ پارٹی کے صدرسیتارام یچوری نے اپنی سیاسی جماعت کے ایک رکن سے ملنے کی درخواست کی تھی۔عدالت میں حکومت نے اس درخواست کی مخالفت کی۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت سیتارام یچوری کو کشمیر جانے سے نہیں روک سکتی۔ سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ وہ اس ملک کے شہری ہیں اور اپنے دوست سے ملنا چاہتے ہیں۔تاہم سپریم کورٹ نے یہ بھی واضح کیا کہ وہ کشمیر صرف اپنے دوست سے ملیں گے اور ان کی ہر طرح کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی ہو گی۔جمعرات کو سیتارام یچوری سرینگر پہنچے لیکن انھیں ایئرپورٹ سے ہی واپس بھیج دیا گیا۔ انڈین سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامے کے ذریعے کشمیر میں کٹھ پتلی گورنر انتظامیہ کو ہدایت کی کہ وہ علیم سید کی بحفاظت گھر واپسی کو یقینی بنائیں۔ انڈین سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ اگر کوئی کشمیر میں اپنے خاندان کے بارے میں فکرمند ہے تو اسے اپنے گھر ضرور جانا چاہیے۔انڈین سپریم کورٹ نے علیم کو یہ بھی کہا ہے کہ وہ کشمیر سے واپس دلی آکر اپنے مشاہدات پر مبنی ایک رپورٹ سپریم کورٹ میں بھی جمع کروائیں۔ جیساکہ عرض کیا جا چکا ہے کہ علیم کا گھر جنوبی کشمیرکے اسلام آبادضلع میں ہے جو کہ سرینگر سے 55 کلومیٹر دور ہے۔ بگڑتے حالات کے پیش نظر انھیں معلوم نہیں کہ وہ سرینگر سے اسلام آباد اپنے گھر کیسے پہنچیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوںنے سرینگر جانے کا ٹکٹ بک کرایا جو بعدازاں منسوخ کر دیا گیااورانہیں ٹکٹ کی منسوخی کی اطلاع بذریعہ ای میل دی گئی۔ادھرپورے کشمیرمیں حالات اتنے اچھے نہیں۔ علاقے میں بہت زیادہ تنا ئواورکرفیوہے۔ لیکن اس کے باوجودانہیں یقین ہے کہ وہ سرینگر پہنچ جانے میں کامیاب ہوجائیں گے لیکن ا نہیں نہیں معلوم کہ وہاں سے آگے وہ اپنے گھرضلع اسلام آباد کیسے پہنچیں گے۔مقبوضہ کشمیر میں صورتحال پیچیدہ ہے اور حالات بالکل بھی ٹھیک نہیں ہیں۔ماحول پرتشدد ہے۔ ان حالات میں وہ کیاکریں ۔وہ فی الحال اپنے خاندان کے لیے فکرمند ہیں اور ان سے جلد از جلد ملنا چاہتے ہیں۔علیم سید جیسے بے حدوحساب کشمیری ہیں جواپنے گھروں سے دورہیں اور گھر والوں سے بات نہیں کر پا رہے۔ بھارت کا برتری کا زعم ستربرس بعد بھی ختم نہیں ہوا۔ اسی زعم کی وجہ سے بھارت نے کشمیر کو گزشتہ 72 برس سے دنیا کی سب سے بڑی جیل بناکر رکھا ہوا ہے اور ایل او سی پر مسلسل آگ اور گولہ و بارود کی بارش کیے جارہا ہے، لیکن بھارت کی اس واضح جارحیت کے باوجود پاکستانی قوم کے عزم میں کوئی کمی نہیں آئی۔ کشمیری ہوں یا پاکستانی، حقیقت میں دونوں ایک ہیں اور اِن دونوں کے بارے میں بھارت کے اندازے ہمیشہ خام خیالی ثابت ہوئے ہیں۔ دراصل بھارت یہ بھی بھول چکا ہے کہ قوموں اورملکوں کی زندگی میں ایک وقت ایسا آتا ہے جب وطن اپنے بیٹوں سے تن من دھن کی قربانی مانگتا ہے۔اگر ایسے موقع کوئی پیٹھ دکھا جائے تو پھر ساری عمر کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا۔یہی وقت ہوتا ہے جب انفرادیت کی بجائے بحیثیت مجموعی سوچنا ہوتا ہے اور یہی وقت ہوتا ہے جب جزو کی بجائے کل کی بات کرنا ہوتی ہے۔جو قومیں اس وقت کو پہچان لیتی ہیں، وہ ہمیشہ زندہ رہتی ہیں اور جن قوموں سے یہ وقت پہچاننے میں ذرا سی بھول چوک ہوجائے، وہ اپنا راستہ کھوٹا کرکے تاریخ کے گم شدہ اوراق کا حصہ بن جاتی ہیں۔اہل کشمیرکواللہ کے بعد پاکستان کے غیورعوام سے بڑی امیدیں وابستہ ہیںاوروہ امیدرکھتے ہیں کہ وہ انہیں بے یارومددگارنہیں چھوڑیں گے۔