راول ڈیم کے پہلو میں ، تھوڑا آگے جا کر ، سی ڈی اے کی ہائوسنگ سوسائٹی پارک انکلیو ہے، جو ابھی تک آباد نہیں ہو سکی۔ وسیع و عریض سوسائٹی میں سالوں بعد اب جا کر چند گھر تعمیر ہوئے ہیں۔ اب بھی یہاں سکوت اور سکون کا راج ہے۔ کبھی کبھی جھیل یا پہاڑ کی بجائے میں واک کرنے اس انکلیو میں چلا جاتا ہوں۔ اس کی مشرقی دیوار سے باہر ایک ٹیلہ ہے جس پر ایک قدیم عمارت موجود ہے۔ میں جب پارک انکلیو میں آتا ، یہ عمارت اپنی طرف بلاتی ۔ مسئلہ یہ تھا کہ انکلیو کے اندر سے اس تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں۔ایک روز سرسری طور پر سجاد اظہر صاحب سے ذکر کیا کہ یہ ایک عمارت ہے کیا آپ بتا سکتے ہیں یہ کیا ہے؟ انہیں بھی اس کا علم نہ تھا۔ چنانچہ طے ہوا اسے مل کر دیکھنے جاتے ہیں۔ کری گائوں کے اندر سے ہوتے ہوئے ایک دن ہم اس ٹیلے تک جا پہنچے۔ ۔ سجاد اظہر ان امور کے ماہر ہیں۔ انہوں نے جائزہ لے کر کہا کہ یہ مندر ہے اور یہ کمرہ جو بچ گیا ہے اور جس میں ہم کھڑے ہیں ، یہ اس مندر کا مرکزی کمرہ ہے ۔ساتھ ہی برگد کا ایک درخت تھا۔ درخت کو دیکھنے ہم نیچے اترے تو ایک کنواں بھی نظر آیا۔ کنویں کی ایک ایک اینٹ سلامت اور اپنی اصل شکل میں موجود تھی۔ کنویں کے پہلو میں برساتی ندی بہہ رہی ہے اس لیے امکان یہی ہے کہ کنواں آج بھی خشک نہیں ہو گا اگر اس کی صفائی کر لی جائے تو یہ اتنا بڑا کنواں ہے کہ ایک گائوں کے لیے کافی ہو۔عمارت بھی کسی طور خستہ نہیں تھی۔ اس کی مضبوطی حیران کن تھی۔ اس کا جو حصہ منہدم ہوا ، خاصی محنت سے ہوا ہو گا۔ مندر کی چھت پر دو لڑکے بیٹھے تھے۔ مجھے تھوڑا تردد تھا کہ کیا یہ واقعی مندر ہے یا کوئی بارہ دری ہے۔ ہم نے ان لڑکوں سے پوچھا کہ کیا آپ ہمیں گائوں کے سب سے بوڑھے آدمی سے ملوا سکتے ہیں۔ان میں سے ایک نے فون پر رابطہ کیا اور ہم تھوڑی دیر بعد گائوں کی گلیوں میں سے گزرتے ایک گھر میں ایک بابا جی کے پاس بیٹھے تھے ۔ بابا جی سے میرا پہلا سوا ل یہ تھا کہ آپ کی عمر کیا ہے؟ کہنے لگے عمر کا کیا اندازہ کتنی ہو گی ، بس یوں حساب لگا لو کہ جب پاکستان بنا تو میری چار بیٹیاں تھیں۔بابا جی نے بتایا کہ یہ کری کا بڑا مشہور مندر تھا اور ان زمانوں میں یہاں ٹیکسلا سے ہندوستان تک ہندوئوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ یہاں ساتھ ہی سرائے بھی تھی جہاں وہ رکتے تھے۔ میں واپسی پر یہی سوچتا رہا کہ اسلام آباد میں ، قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی ہندوئوں کے لیے مندر تعمیر کرنے پر غور فرما رہی ہے کیونکہ اسلام آباد میں دو سو کے قریب ہندو خاندان ہیں اور راولپنڈی میں بھی چار پانچ ہزار ہندو آباد ہیں اور ان کی طرف سے اس کا باقاعدہ مطالبہ کیا جا چکا ہے تو کیا ایسا نہیں ہو سکتا، کسی قدیم مندر کی تزئین کر کے ان کے حوالے کر دیا جائے ۔کری کے اس مندر کے ارد گرد کئی ٹیلوں پر بھی مندر کی باقیات موجود ہیں مگر انہیں بہت جلد یا تو ہاوئوسنگ سوسائٹی کھا جائے گی یا ساتھ ہی موجود بھٹے کا مالک سارے ٹیلے کاٹ کر اینٹیں بنا کر بیچ دے گا۔ راول جھیل پر بھی ایک قدیم مندر موجود ہے۔ ٹریل فائیو پر فائکس سپرنگ سے بائیں جانب مڑ جائیں تو کافی چڑھائی چڑھنے کے بعد دو گھپائیں آتی ہیں۔ ان کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے یہ مندر تھے۔شاہ اللہ دتہ میں بھی ایک مندر موجود ہے۔شکر پڑیاں سے نیچے اتریں تو بائیں جانب جنگل میں کنول جھیل کے شمال مغرب میں بھی ایک مندر کے آثار موجود ہیں۔ زیرو پوائینٹ پر جہاں بابا فرید گنج شکر کی بیٹھک تھی ، یہاں کسی نے اس کو محفوظ بنانے اور سیاحتی مقام بنانے کا نہیں سوچا ۔ اوپر ایک چشمہ تھا ، قدیم جنوبی تکیے کے پہلو میں ، سی ڈی اے بار بار اسے بند کرتا وہ پھر پھوٹ پڑتا۔ بالآخر بابو لوگوں نے کنکریٹ ڈال کر اسے بند کر دیا۔اسلام آباد سے ٹیکسلا تک،مسلم ، ہندو اور بدھ مت کی تہذیب بکھری پڑی ہے اور پاکستان چاہے تو یہاں مذہبی سیاحت کو فروغ دے کر کثیر زر مبادلہ کما سکتا ہے۔اسلام آباد میں اس سیاحت کا امکان اس لیے بھی زیادہ ہے کہ یہ محفوظ ترین جگہ ہے اور رسائی بھی بہت آسان ہے۔کاش کوئی اس طرف توجہ فرما لے۔ کری کے مندر کو اگر بچا لیا جائے تو یہ پاکستان کے لیے قیمتی زر مبادلہ کا باعث بن سکتا ہے۔ورنہ اب کے دن کم ہی رہ گئے ہیں اور جیسے گوجرانوالہ میں ایمن آباد کے علاقے میں کالے پتھر کا انسان سے بڑا شیو لنگم قصہ ماضی بن چکا ہے اور اس پر بھینسیں بندھی ہوتی ہیں ایسے ہی یہ کری کا مندر بھی منہدم ہو جائے گا۔ پاکستان مذہبی سیاحت کا مرکز بن سکتا ہے۔ یہاں صرف گردوارہ نانک صاحب اور کٹاس راج ہی نہیں ، بہت سے دیگر مقامات بھی ہیں جو نظروں سے اوجھل ہیں۔کٹاس راج سے چند کلومیٹر کے مقام پر مندروں کا ایک سلسلہ ہے جس میں گنگو کھوئی ، شو مندر پڈھا اور ہنومان کا ٹیلہ بھی ہے۔راول ڈیم کی طرح ایک مندر منگلا ڈیم پر ہے۔سیالکوٹ کا جگن ناتھ مندر اور لسبیلہ کا ہگلاج ماتا مندر ہندوئوںکے مقدس ترین مقامات میں شمار ہوتے ہیں۔ملتان کا سوریہ مندر تو کرشن مہاراج کے بیٹے نے خود تعمیر کرایا تھا۔ پشاور میں کالی باڑی کے مندر پر گاندھی آئے تھے۔اسی طرح مانسہرہ میں دنیا کا دوسرا برا شیو لنگم ہے۔ انبالہ مندر سرگودھا اور پشاور کے پاٹ شالہ جیسے کئی مندر سکول بن گئے۔ اور پنج تیرتھ اور گوبھی ناتھ جیسے کئی مندر پارک بن گئے۔کچھ قبضہ گروپس کی ہوس کی بھینٹ چڑھ گئے اور اب ان کا نام و نشان تک باقی نہیں رہا۔ تاہم جن مندروں کے کچھ آثار موجود ہیں ، انہیں بحال کر دیا جائے تو نہ صرف بھارت بلکہ نیپال ، سری لنکا ، بھوٹان سمیت دنیا بھر سے سیاح پاکستان کا رخ کر سکتے ہیں۔ مذہبی سیاحت ایک بہت بڑی حقیقت ہے۔ ہم کب تک اسے نظر انداز کیے رکھیں گے؟ ٭٭٭٭٭