سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا جو کریمۂ اہل بیت کے لقب سے مشہور ہیں حضرت امام موسی بن جعفر الکاظم علیہ ا لسلام کی لخت جگر اور حضرت اما م علی الرضاعلیہ ا لسلام کی چھوٹی ہمشیرہ اور حضرت امام محمد تقی الجوادعلیہ ا لسلام کی پھوپھی ہیں مشہور روایات کے مطابق آپ کی ولادت یکم ذیقعد173ھ میں مدینہ منورہ میں ہوئی ۔آپ کے دیگر القابات طاہرہ ،عابدہ،رضیہ ،تقیہ ،عالمہ ،محدثہ،رشیدہ ،حمیدہ اور اخت الرضا ہیں جو آپ کی عظمت،فضائل اور خوبیوں کا ایک گوشہ ہیں آپ کی والدہ کا نام’ نجمہ‘ ہے ۔ آپ سلام اللہ علیہا نے زندگی کا بیشتر حصہ اپنے مشفق بھائی حضرت امام علی رضا علیہ ا لسلام کے ساتھ گزارا کیوں کہ آپ کے والد گرامی حضرت موسیٰ کاظم علیہ ا لسلام کی مسلسل گرفتاریوں نے آپ کو والد کی شفقت سے زیادہ تر محروم کئے رکھا آپ کم سن ہی تھیں جب آپ کے والد کو مقید کیا گیا اور 183ھ جب حضرت امام موسی کاظم علیہ ا لسلام کو شہید کیا گیا تو اس وقت آپ کی عمر تقریبا ً دس سال تھی والد کی رحلت کے بعد آپ کے بھائی امام علی رضاعلیہ ا لسلام نے اپنے پُرمہر دامن ِشفقت میں آپ کی پرورش کی اور آپ علم و حکمت ،پاکدامنی اور عصمت کے ایک بحر بیکراں سے فیض یاب ہوئیں ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو فضل و دانش سے نوازا اور کم سنی میں ہی آپ کو علوم و معارف پر گہری دسترس حاصل ہو گئی آپ کے علمی مقام کے حوالے سے ایک واقعہ بہت مشہور اور آپ کے زندگی نامہ میں مرقوم ہے کہ ایک دفعہ کچھ لوگوں کا ایک گروہ حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ ا لسلام سے کچھ علمی مسائل کا حل دریافت کرنے کے لئے مدینہ منورہ وارد ہوااس وقت حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سفر کی غرض سے مدینہ منورہ سے باہر تھے ان لوگوں کی ملاقات حضرت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا سے ہوئی اور ان کے فرمان پر اپنے سوالات لکھ کر جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کی خدمت میں پیش کر دیئے اور آپ نے ان کے جوابات لکھ کر ان لوگوں کے حوالہ کر دیئے جب وہ لوگ واپس جا رہے تھے تو راستے میں ان کی ملاقات حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ ا لسلام سے ہوئی اور انہوں نے سارا واقعہ ان کے گوش گزار کیا اور جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے تحریر کردہ سوالات کے جوابات حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ ا لسلام کو دکھائے آپ نے جب سوالات اوران کے جوابات کو دیکھا تو بالکل درست پایا اور اپنی لخت جگر کے علم و دانش پر خوش ہو کر فرمایا ’’فداھا ابوھا‘‘ یعنی اس کا باپ اس پر قربان ہو ،یہ واقعہ چونکہ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کی صغر سنی کا ہے لہذا اس سے جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے بلندعلمی مقام کااندازہ ہوتا ہے ۔ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کواپنے بھائی سے بے پنا ہ انس اور لگاؤ تھا 200ھ میں حضرت امام علی رضا علیہ ا لسلام کو زبردستی خراسان کی طرف لایا گیا اور تقریبا ایک سال تک اہل بیت سلام اللہ علیہم آپ کے بارے میں بے خبر رہے کہ آپ کہاں ہیں ایک سال کے بعد 201ھ جب جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کو اپنے بھائی کی خراسان میں موجودگی کی اطلاع ملی تو آپ فرط محبت سے اپنے بھائی کی خیریت دریافت کرنے کے لئے مدینہ منورہ سے ایران کی جانب عازم سفر ہوئیں جب ساوہ کے قریب پہنچیں تو دشمنوں نے آپ کے قافلہ پر حملہ کردیا اور آپ کے خاندان کے 23 افراد شہید کر دئیے گئے اور جناب سیدہ ان کی شہادت کے صدمہ سے بیمار ہو گئیں ایک روایت کے مطابق ساوہ کی ایک عورت نے آپ کو زہر دے دیا جس سے آپ بیمار ہو گئیں ساوہ کے قریب شہر قم کے عمائدین اور اشعری قبیلہ کے لوگوں کو جب جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے ساوہ پہنچنے اور اس حادثہ کے پیش آنے کی خبر ملی تو وہ آپ کا والہانہ استقبال کرتے ہوئے آپ کو قم لے آئے جہاں شدید علالت کی وجہ سے 17دن بعد10 ربیع الآخر 201ھ میں آپ نے تقریبا 27 سال کی عمر میں وصال فرمایا ۔ شہر قم کو آپ کے ورود مسعود سے عزت ملی اور وہاں آپ کا عالی شان مزار آج بھی مرجع خلائق ہے ۔جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کی فضیلت کے بارے میں حضرت امام جعفر صادق علیہ ا لسلام نے فرمایا تھا :مکہ مکرمہ اللہ تعالیٰ کا حرم ہے ،مدینہ منور ہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حرم ہے ، کوفہ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ کا حرم ہے اور قُم ہمارا (اہل بیت کا)حرم ہے جہاں میری اولاد میں سے ایک خاتو ن دفن ہو ں گی جن کا نام فاطمہ ہوگا ۔شاعر نے کیا خوب کہاہے : جنابِ فاطمہ ، معصومۂ قم کریمہ ، اکرمہ ، معصومۂ قم ہے ساجدؔ آج بھی ان کا فیض جاری کرم کی انتہا ، معصومۂ قم