حقیقت یہ ہے کہ حق خود ارادیت کیلئے اسلامیان کشمیرکی لازوال جدوجہد جاری ہے اوروہ اپنی جانوں کی عظیم قربانیوں کے ذریعے کرہ ارض پرجدوجہد کی نئی تاریخ رقم کرکے بھارتی جبر کے سامنے سینہ سپرہوکر ڈٹے ہوئے ہیں ۔ پاکستان کے سیاست کار پختہ تر اہداف کو چھوڑ کر ہزیمت پسند رحجانات کے شکارہوچکے ہیں۔آپسی اکھاڑ ،پچھاڑ ، غدار،غداری ،ٹانگیں کانپنے اورپسینے چھوٹنے ،سقوط کشمیر جیسے مسموم اورزہریلے بیانات، غرض پاکستان کے سیاست کار میں جوکچھ کررہے ہیں اسے تحریک آزادی کشمیربھی متاثرہورہی ہے اورکشمیریوں کی مایوسی اور مصائب میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔بلکہ کشمیریوں میں مایوسی کی لہرچھاچکی ہے ۔ ہوسکتاہے کہ پاکستان کے سیاست کاروںکے لئے کشمیر محض ایک سیاسی کارڈ ہو لیکن پاکستانی اور کشمیری عوام کے لیے یہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے،کشمیر میں جب بھی مظالم بڑھتے ہیں توپاکستانی عوام تڑپ اٹھتے ہیں۔ پاکستان کے عوام کے دل کس طرح کشمیری عوام کے دلوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ اہل کشمیر کا موقف ہے کہ کشمیرکی تحریک آزادی کے ذریعے دراصل ہم تکمیل پاکستان کی جنگ لڑرہے ہیں اور یہی موقف اہل پاکستان کابھی ہے ۔پاکستان کے عوام اپنے تمام تر اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کشمیریوں کے پشتی بان بنے ہوئے ہیں ۔ جب پاکستان کی سیاسی جماعتیں کشمیر سے متعلق اپنے محور اور منشور کو بھول کرآپسی سرپھٹول میں لگ جائیں تو اسلامیان کشمیرجن کا ’’سلوگن‘‘ ہم پاکستانی ہے اور پاکستان ہمارا ہے ،اورجب وہ ببانگ دہل پاکستان کے ساتھ الحاق کااعلان کررہے ہوںتوپھراس میں کوئی کلام نہیں کہ پاکستان کے حالات کشمیرکی تحریک آزادی پر اثر انداز ہوتے ہی۔یہ نہیں کہ ریاست پاکستان اہل کشمیرکے لئے کچھ نہیں کررہی بلکہ کشمیرکابچہ بچہ جانتاہے کہ پاکستان کے ہی ذریعہ ہماری آواز اورہماری صداچاردانگ عالم پہنچ پاتی ہے۔ اچھے وقتوں میں پاکستان اپنے کشمیری بھائیوں کی مدد کرتا رہا ہے لیکن مشرف کے دوراقتدارسے آج تک لگاتار امداد سے ہاتھ کھینچ لیا،نام نہاد سی بی ایمز کے تحت کشمیرکے حریت پسندوں کو دست وبے پا کیا گیا، بھارت کوموقع دیاگیاکہ وہ کشمیرکوجبری طور پرمنقسم کرنے والی جنگ بندی لائن پر باڑ بھی لگا دے ۔ فنسنگ مکمل کرنے کے بعدبھارت کشمیریوں کو یہ باورکرتارہاہے کہ اس باڑ کے ذریعے پاکستان نے کشمیریوں کو یہ پیغام دیا کہ اس باڑ کے اس طرف تم اکیلے اورتنہارہ گئے ہو۔ لیکن اس سب کے باوجود بہادر کشمیری بھارت سے ہار ماننے کو تیار نہیں اور انہوں نے 2008, 2010, 2016, 2019 میں انہوں نے بھارت کی تلبیس ابلیس کی صلیب کوتوڑ ڈالا۔اگست2019کوجناب عمران خان نے کشمیریوں کے سفیر بننے کا اعلان کیا تھا لیکن ان کی حکومت میں کسی جانداراورمضبوط سفارت کے بجائے ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ اپنی اندرونی سیاست میں الجھ گئے اس طرح کشمیریوں کے لیے جو آواز دنیا بھر میں بلند ہو نے جارہی تھی اس کا گلہ گھونٹ دیا گیا۔ پاکستان کے سیاست کارجب ایک دوسرے کی ٹانگیں کھنچنے پرآجاتے ہیں توایک دوسرے کوایسے القاب سے نوازتے ہیں اورایک دوسرے کے خلاف ایسے زہریلے بیانات دیتے ہیں کہ جس سے پاکستان زخمی ہوتاہے اورمودی کے مسلم دشمنی میں جلے پرمرہم پڑجاتاہے ۔اورجب وہ ایک دوسرے سے یہ کہتے ہیں کہ تم ’’سقوط کشمیر‘‘کے ذمہ دار ہو تو ایسے الزامات ،بیانات کشمیریوں کے درد کو بڑھا دیتے ہیں۔ وہ مایوس ہوجاتے ہیں اوران میں تشکیک جنم لیتاہے کہ کیاسچ مچ میں ایسا ہوچکاہے ۔ بھارت کی قابض فوج اسلامیان کشمیرکوطعنہ دے رہی ہے کہ جس پاکستان کے جھنڈے کوچومتے ہو، لہراتے ہو،اپناکفن بناتے ہواس کے سیاست کاروں کو دیکھو کس طرح ایک دوسرے کے دست و گریباں ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم ترین قیادت میںجب مہاجرین وانصار ایک ہوگئے تو اللہ تعالی نے انہیں ہرمرحلے پرفتحیاب کیا۔اسلامیان کشمیرکی پاکستان سے توقعات وہی ہیں جومہاجرین مکہ کی انصارمدینہ سے تھیں۔وہی اخوت اوروہی بھائی چارہ‘ جوانصاراورمہاجرین کے مابین پائی جارہی تھی ہرسطح پراسلامیان کشمیراوراسلامیان پاکستان کے درمیان ہونی چاہئے۔بابائے قوم محمدعلی جناح نے کشمیر کے لیے شہ رگ کا لفظ سوچ سمجھ کر استعمال کرکے اہل پاکستان کویہ بتاکرچلے گئے کہ وہ کشمیریوں کوتنہانہ چھوڑیں۔ لیکن پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے بیانات سے واضح ہو جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے قائد کے دوسرے فرمانوں کی طرح اس فرمان کو بھی ہوا میں اڑا دیا کر کشمیر یوں کی مدد سے ہاتھ کھینچ لینے اور خاموشی اور لاتعلقی اختیار کرتے ہوئے اسلامیان کشمیرکو بھارت کے رحم و کرم پر چھوڑ نے کافیصلہ کرلیاہے ۔ایک طرف کشمیری مسلمان ہرمرحلے پر یہ ثابت کررہے ہیںکہ وہ کسی بھی طرح بھارت کے ساتھ نہیں۔ ایسے میں ریاست پاکستان پریہ بھاری ذمہ داری عائد ہو جاتی ہے کہ وہ اپنے کردار و عمل سے اسلامیان کشمیریوں کی ڈھارس بندھائے۔لیکن اسکے چلن سے پتاچلتاہے کہ ایسانہیں ہو پا رہا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کشمیریوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے بجائے کشمیر پر قومی ترجیحات کا تعین کرے۔یادرکھیں کہ اسلامیان کشمیر پاکستان کی عملی حمایت کے بغیر اپنی آزادی کی جنگ نہیں لڑسکتے ۔یہ میں نہیں بلکہ خطہ کشمیر کا جغرافیہ اس بات کووضا حت کرتاہے ۔ بہرکیف! سقوط کشمیر کا شوشہ چھوڑنے سے اسلامیان کشمیرمیں شک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں۔ اسلامیان کشمیرکواس خطے کے مسلمانوں کے ازلی دشمن بھارت کے مقابلے میں حوصلہ دینے کے لئے پاکستان پریہ ذمہ داری عائد ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے اختلافات کوبندکمرے میں ان کیمرہ حل کریں اور کشمیر پر متفقہ قومی لائحہ عمل وضع کیا جائے۔ امریکی گٹھ جوڑ میںمودی کی فاشسٹ حکومت کشمیر کو ہڑپ کرنے کے لیے بھارت قدم بقدم ظالمانہ اقدامات میں پیشرفت کر رہی ہے ۔ جعلی ڈومیسائل کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں مسلم اکثریتی آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کے لیے ظالمانہ اقدام کئے جارہے ہیں ۔