ایک بے یقینی ایک اداسی کی کیفیت ہے جو شاید ہر دل کو گھیرے ہوئے ہے۔بہت سے دلوں میں ان کیفیات کے ساتھ مایوسی بھی گھیرا ڈال رہی ہے۔تبدیلی کے منتظر بس انتظار کر رہے ہیں۔اور یہ انتظار طویل تر ہوتا جارہا ہے ؎ کیا تیرے انتظار کا حاصل ہے انتظار کیا تیرے انتظار کی حد انتظار ہے کوئی پوچھتا ہے کہ تبدیلی کیا آئی ہے ؟ اور کس ادارے میں آئی ہے ؟ تو سرکاری اعلانات اور اخباری بیانات کے سو اکوئی جواب بن نہیں پڑتا۔عام آدمی کو کس محکمے سے کیا سہولت ملی ہے ؟ کون سا محکمہ اب عام آدمی کی خاطر کام کر رہا ہے ؟کس جگہ داد رسی ممکن ہوئی ہے ؟کیا کوئی بتا سکتا ہے ؟۔ ملک کے معاشی مسائل کو دیکھتے ہوئے یہ سوال تو پوچھنا ہی ممکن نہیں کہ کس بل میں کیا ریلیف ملا ہے اور کس نرخ میں کیا کمی ہوئی ہے ۔ہر شعبے میں مہنگائی بڑھی ہے ۔لیکن مالی معاملات سے ہٹ کر خالص انتظامی لحاظ سے کیا تبدیلی نظر آتی ہے؟ سچ یہ کہ فی الوقت تو جواب نفی میں ہے ۔ سرکاری اداروں کا حال پوچھیے مت۔نئی حکومت کی تشکیل کے بعد کی بات ہے ،ایک صاحب اپنے ایک بستہ بردار کے ساتھ میری مال روڈ والی دکان میں داخل ہوئے۔ حلیہ سرکاری افسروں والا نہیں تھا.۔بلا تمہید بولے‘ یہ دکان کی پیشانی پر لگا ہوا بورڈ اتار دیں ہمیں آرڈر ہے۔ پوچھا آپ کون ہیں؟ بولے کمشنر لاہور کے دفتر سے آیا ہوں۔نام پوچھا تو بتانے سے انکاری۔شناختی کارڈ مانگا تو ندارد۔محکمے کا کارڈ دکھانے کو کہا تو صاف انکار۔صرف ایک بات پر اصرار کہ آپ یہ سائن بورڈ فوراً اتار دیں ورنہ ہم اتاریں گے تو آپ کا نقصان بہت ہوگا۔ اس سے پہلے کوئی نوٹس جاری نہیں کیا گیا تھا۔میں نے کہا کہ یہ بتائیے کہ میں پہلی بار آپ سے مل رہا ہوں آپ کو جانتا نہیں۔آپ کوئی بھی شناختی کارڈ دکھانا تو کیا نام تک بتانے سے انکاری ہیں۔کوئی بھی تحریری آرڈر آپ کے پاس نہیں ہے۔کیا میں اس طرح کسی بھی راہ چلتے اجنبی شخص کے حکم پر عمل کرنا شروع کردوں۔اداروں کا بھی کوئی طریقہ کار ہوتا ہے۔یہ سائن بورڈ جو قاعدوں اور ضابطوں کے مطابق سال ہا سال سے لگا ہوا ہے، آخر کس چیز کی خلاف ورزی کر رہا ہے؟آپ یہ سائن بورڈ اتروا کر دکانوں کو بے شناخت کردیں گے۔اور جو نیا سائن بورڈ آپ خود لگانے کو کہہ رہے ہیں، وہ مجھے اندازہ ہے کہ سال ہا سال نہیں لگے گا تو ہم کیا کریں گے؟ پھر آپ کا رویہ بہت درشت ہے جیسے مجرموں کے خلاف کسی تھانیدار کا رویہ ہوسکتا ہے۔بولے میں کچھ نہیں جانتا۔یہ سائن بورڈ اتاریں ،ہمیں ہائی کورٹ کا آرڈر ہے۔وہ تو تحکمانہ انداز میں یہ آرڈر دے کر چلے گئے۔از خود معلومات کیں تو علم ہوا کہ لاہور ہائی کورٹ نے لاہور انتظامیہ کو مال روڈ خوب صورت بنانے کے احکامات واقعی جاری کیے ہیں۔اس کا غصہ انتظامیہ نے مال روڈ کے تاجروں اور رہائشیوں پر اس طرح نکالا جو میں نے اوپر ذکر کیا ہے۔مزید یہ علم ہوا کہ کوئی شخص نہیں جس سے اس سلوک اور طریقے کی شکایت کی جاسکے ؎ کون سنتا ہے فغانِ درویش قہرِدرویش بجان درویش چنانچہ نادر شاہی حکم کے مطابق سب نے دکانوں کی پیشانیوں سے سائن بورڈز اتار دئیے۔شاہراہ قائد اعظم جو لاہور کی جان ہے اس کی دکانیں بے نشان بے شناخت ہوگئیں تو انتظامیہ جا کر سوگئی جو سائن بورڈز اس نے لگانے تھے ان کا تا دم تحریرکہیں دور دور تک اتاپتہ نہیں۔ یہ ہے وہ تبدیلی جو سرکاری دفتر دکھا رہے ہیں۔ضروری نہیں کہ ہر ایک کو ہر محکمے سے ایسا ہی سابقہ پڑا ہو۔ یقینا اچھے کام بھی ہورہے ہوں گے۔خاص طور پر اس کی تعریف کرنی چاہیے کہ تجاوزات کے سلسلے میں بلا لحاظ کارروائی کی گئی ہے۔لیکن ان اداروں کے ساتھ میرا تجربہ تو یہی پیش آیا ہے۔سابقہ حکومتوں میں ان اداروں کی حالت خراب ہونے میں کیا شک ہے لیکن اب مستعدی دکھائی جارہی ہے تو اس کی یہ شکل و صورت اتنی بدنما ہے کہ بس۔ عام شہری یہ پوچھنے کا حق رکھتا ہے کہ سال ہا سال سے ان ناکارہ اداروں میں کیا تبدیلی آئی ہے؟ اور سب سے بڑا سوال یہ کہ ان سرکاری انتظامی اداروں کے اہل کار لوگوں کو بلا سبب تنگ کریں تو عام آدمی کیا کرے؟ احتجاج کیا جائے یا متعلقہ اہل کاروں کے خلاف عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے۔یعنی پانچ ہزار کے چالان سے بچنے کے لیے ہزاروں لاکھوں روپے اور قیمتی وقت کا بھی نقصان کیا جائے۔ پنجاب پولیس کے سیف سٹیز پروجیکٹ کا ایک مداح میں بھی ہوں۔یہ بہت اچھا کام ہوا تھاجس کی تعریف میں تین چار کالم بھی لکھے ۔ اب سیف سٹیز کی طرف سے لاہور میں ای چالانز کا سلسلہ شروع ہوا ہے ۔ مجھے اپنی اس گاڑی کے تین چالان وصول ہوئے جسے فروخت کیے ایک سال سے زیادہ ہوگیا۔گاڑی کے نئے مالک نے اب تک گاڑی اپنے نام نہیں کروائی چنانچہ چالان مجھے وصول ہورہے ہیں اور موجودہ مالک ان چالانوں سے یقینابے خبر ہوگا۔ظاہر ہے یہ جرمانے میں تو جمع نہیں کرواؤں گا اور کئی چالان ہوجانے کے بعد موجودہ مالک اور گاڑی اچانک ایک دن بے خبری میںدھر لیے جائیں گے۔اور ایسی ہزاروں گاڑیاں شہر میں پھر رہی ہیں جن کی رجسٹریشن سابقہ مالک کے نام ہے ۔برادرم اکبر ناصر ! کرے کوئی اور بھرے کوئی کا محاورہ تو آپ نے بھی سنا ہوگا۔ سو اے تبدیلی کے علم بردارو !کیا کہیں انصاف مل سکتا ہے عام آدمی کو ؟ مفت نہ سہی کم خرچ سہی۔بالا نشین نہ سہی خاک نشین سہی۔کچھ تو ہو جس سے پردہ داری ہو ۔