یہ صرف ایک مہینہ پچیس دن پرانی بات ہے جب آپ کی نظریں اس تحریر پر پھسل رہی ہوں گی تو ایک دن مزید بڑھا لیجئے گا۔ اپنے اسلام آباد میں بیرون ملک سے آئے پاکستانیوں کا جوڑ ہوا ،کنونشن سینٹر میں مختلف ممالک سے آئے پاکستانی بھی شریک تھے اور وہ شدت سے اک شخص کو سننا چاہتے تھے۔ ان کا جوش انکے تمتماتے چہرو ں سے عیاں تھا۔ یہ پرجوش بھی تھے اور متجسس بھی ،پنڈال میں نعروں کی آوازیں ان کے جوش کی خبر دے رہی تھیں‘ پرجوش نعروںمیں وہ دراز قامت ہینڈسم سفید قمیض شلوار پر کالا کوٹ پہنے شان بے نیازی سے چلتا ہوا آیا۔ اس کے ہر ہر قدم ہر اسکے حامیوں کے دل زیر و زبر ہو نے لگے۔ پنڈال میں لگنے والے نعرے ایسے زوردار تھے کہ کان کے پردوں میں سنسناہٹ ہونے لگی ،وہ پروقار ہینڈسم مسکراتا ہوا روسٹرم پر آیا مائیک سے چھیڑ چھاڑ کی۔ ہاتھ اٹھا کر اپنے حامیوںسے خاموش رہنے کے لئے کہااورپھر بسم اللہ کے بعدمخصوص انداز میں ایاک نعبدو ایاک نستعین کی آیت پڑھنے کے بعد بلا تمہید اپنے حریفوں کا شکریہ ادا کرنے لگا اسکے الفاظ تھے کہ سب سے پہلے آج اپوزیشن پارٹیزکادل سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔اس کے پراعتماد لہجے پر ایک بار پھر لوگوں کے جوش کو ابال آیا اوروہ نعرے لگے ،اس نے کہا کہ میں اس لئے شکریہ ادا کرناچاہتا ہوں کہ انہوں نے میرے پر احسان کیاہے ۔میں انہیں برا بھلا نہیں کہنے لگا،مجھے ان کا شکریہ تو ادا کرنے دیں‘ میری ساری پارٹی کوکھڑاکردیا ہے۔ آپ جان گئے ہوں گے میں محترم عمران خان صاحب کا ذکرکر رہا ہوں جو تحریک عدم اعتماد پر اپوزیشن کا شکریہ ادا کررہے تھے ۔پندرہ مارچ 2022کو خان صاحب بہت زیادہ پراعتماد دکھائی دیئے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے مجھ پر احسان کیا میں انہیں برا بھلا نہیں کہوں گا‘ جس دن تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی میں نے شکرانے کے دونفل ادا کئے ۔ساتھ ہی خان صاحب نے پیشن گوئی بھی کی کہ تحریک عدم اعتماد تو ناکام ہوگی ہی ،آنے والا الیکشن بھی ان کے ہاتھ سے گیالیکن خان صاحب سے ہاتھ ہو گیا اوریہ ہاتھ ا ن نفیس لوگوںنے کیا جن پر وہ تکیہ کئے ہوئے تھے۔ عمران خان صاحب کو کیوں مات ہوئی اس پر روز ہی کوئی نہ کوئی تحریر آرہی ہوتی ہے ،نیوزچینلز پر اتنے پروگرام ہوچکے ہیں کہ اب اس معاملے پرکوئی زاویہ بچاہے اورنہ ہی خان صاحب کے عشاق کے غضب سے کوئی ناقد۔۔۔سوشل میڈیا پر سیاسی مخالفین کی جو بھد اڑائی جارہی ہے جس طرح گالیاں دی جارہی ہیں‘ بندہ کانوں کو ہاتھ لگا لے میں نے اپنی زندگی میںیہ ماحول نہیں دیکھا ۔ ہم لوگ 47ء کے بعد ویسے ہی ترقی معکوس کرکے قوم سے ہجوم کی طرف چل پڑے تھے لیکن اک موہوم سے امید بہرحال کہیں نہ کہیں تھی اس سیاسی بھونچا ل میں وہ بھی گئی ۔قوموں کا یہ رویہ‘ یہ مزاج‘ یہ چلن نہیں ہوتا ، یوں سربازار پگڑیاں نہیں اچھالی جاتیں‘ خواتین کے سروں سے چادریں نہیں کھینچی جاتیں‘ سیاسی تقسیم اس قدر شدید ہو چکی ہے کہ لوگ کچھ سننے کو آمادہ ہی نہیں‘جذبات کا ایسا ابال ہے کہ وحشت ہونے لگی ہے ۔ آگے چلئے اور دل تھام لیجئے اک عاشق صادق نے اپنے دوست کو صرف اس وجہ سے قتل کر دیا کہ وہ ان کے محبوب راہ نما کو گھڑی چور کہہ گیاتھا ،قاتل نے اعتراف کیا کہ مقتول اسکا جگری دوست بھی تھا لیکن دوسری سیاسی پارٹی کا تھا ،کہیں مجلس لگی ہوگی گرما گرمی ہوئی ہوگی جس کا نتیجہ جگری دوست کے لاشے کی صورت میں زمین پر پڑا ملا ،آپ اس پر زیادہ حیران نہ ہوں کچھ حیر ت بچا رکھئے کچھ جاہل جذبات میں آکر ایسا کچھ کر گزرتے ہوں گے اور جذبات کا ابال ختم ہونے پر شرمندہ بھی ہوجاتے ہیں کہ یہ کیا کر بیٹھالیکن یہاں ملزم کی پرستاری کالیول چیک کریں کہ گرفتاری کے بعد پولیس کی موجودگی میں اعتراف جرم بھی کیا اور کہا کہ وہ اپنے لیڈر کی خاطر جان لے بھی سکتاہے اور دے بھی سکتا ہے ۔ملزم قوت گویائی سے محروم ماں اور دو بہنوں کا اکلوتا کفیل بھی ہے ۔ ان ہی دنوں میں خیبر پختونخواہ میں ایک سیاسی رہنما کی عشاق بریگیڈنے مسجد میں گھس کر امام خطیب صاحب کے گریبان پر ہاتھ ڈال دیا غضبناک نوجوانوں کا کہنا تھا کہ امام صاحب ان کے لیڈر پر تنقید کرتے ہیں اور انہیں برا بھلا کہتے ہیں۔ ان دو تین واقعات کو دیگ کے چندچاول سمجھئے اور اندازہ لگا لیجئے صورت حال ہماری سوچ سے زیادہ خراب ہے اورجیسے جیسے دن گزریں گے مزید خراب ہوگی۔ یہ ٹینس کی وہ گیند ہے جسے ایک بھرپور قوت سے بادلوں کی طرف پھینکا گیاہے۔ گیند لمحہ لمحہ اوپرجارہی ہے اور ابھی اسکا وہ نقطہ عروج نہیں آیا جس کے بعد یہ نیچے آنا شروع ہوگی ،شیخ رشید احمد کہتے ہیں خانہ جنگی کا خدشہ ہے سچ کہوں تو خان صاحب کے دھرنے کے دنوں میں جب ا نہوں نے سول نافرمانی کا اعلان کیا تھا تب بھی دل ایسے نہیں دھڑکا تھا لیکن اب اسٹیج سے کی جانے والی تقریریں ،للکاریںاپنا رنگ لارہی ہیں۔ دوستیاں تعلق رشتے ناطوں میں دراڑیں پڑ رہی ہیں۔ ہمیں اک ہیجان میں مبتلا کر دیا گیا ہے۔ مخالفین کو دیکھ کرہماری آنکھوں میں خون اتر آتا ہے۔ کانوں سے دھواں نکلنے لگتا ہے۔ ہم مٹھیاں بھینچ کر دانت کچکچانے لگتے ہیں۔ اس ہیجان نے عقل پر تالے ڈال دیئے ہیں۔ ہمیں سیاسی مخالف دھرتی پر بوجھ لگنے لگے ہیںجو دوست اس کیفیت میں مبتلا ہیں‘ ان سے بس اک سوال ہے۔پی ٹی آئی کے اسد عمر صاحب‘ ن لیگ کے زبیر عمر صاحب سے کچھ سیکھا؟وہ تمام تر اختلافات کے ساتھ گورنر اور وزیر بننے کے بعد بھی ایک میز پر کھانا کھا سکتے ہیں تو آپ کو کس بھڑ نے کاٹا ہے!