مرے اندر عجب اک واہمہ رکھا گیا ہے حقیقت سے مجھے شاید جدا رکھا گیا ہے میں اب تک رہنما کی چال میں الجھا ہوا ہوں کہ میرے سامنے اک راستہ رکھا گیا ہے نااہل اور نالائق لوگوں کا شاید مشن ہوتا ہے کہ لائق اور اہل لوگوں کا راستہ روکا جائے۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ جیسے تیسے طاقت اور اقتدار حاصل کیا جائے اور پھر شعور و آگہی کے راستے عوام پر بند کر دیے جائیں وگرنہ ان کے احکام کی بجا آوری کون کرے گا یہ تو حکمرانی کی پہلی شرط ہے کہ عام آدمی کو اس کی اوقات میں رکھا جائے۔ بار بار اور نئے نئے انداز میں اپنا امیج ان کے ذھنوں میں اتارا جائے ۔ایسے ہی فیصل عجمی کا شعر یاد آ گیا کہ روشن چاند ستارے کے علم کو تعلیم کی روشنی کیوں نہیں دی گئی: اک نظر چاند پہ تھی ایک نظر تارے پر جب مرا پائوں ہجر کے انگارے پر یہ حاکم ساری چالیں محکوموں کے ساتھ چلتے ہیں کہ انہیں یہ الجھائے رکھیں۔ آج مجھے تعلیم کے حوالے سے بات کرنی ہے کہ آنے والی حکومت جو تعلیم اور صحت کو اپنی ترجیحات میں اولین حیثیت دیتی تھی کہ ایک طرف اس کے پاس شوکت خانم کا عظیم کارنامہ تھا اور نمل یونیورسٹی جیسا معیاری تعلیمی ادارہ مگر ہم بھول گئی کہ کھیل بھی اسی کے حوالہ تھا اور پھر وہ کھل کھیلے۔ ہر چیز کو اس نے کھیل بنا دیا۔ یکساں نصاب تعلیم کے حوالے سے وہ نئی پالیسی لے کر آئے اور سب کو حیران کم اور پریشان زیادہ کر دیا۔ اس کے پس منظر میں تو جو کچھ ہے وہ بھی عیاں ہے اور پیش منظر بھی چھپا ہوا نہیں۔ اس حوالے سے میری بات اردو بازار کے صدر خالد پرویز سے بات ہوئی جو کہ ایک عرصہ سے یکساں تعلیمی نظام کے لئے کوشاں رہے ہیں اور تب ان کے ساتھ معراج خالد جیسا درویش بھی تھا۔ اس کے ساتھ ہی ایک باصلاحیت نوجوان پبلشر فرحان میاں سے گفتگو ہوئی اور علم ہوا کہ حکومت کس طرح تعلیم اور پبلشرز کو برباد کرنا چاہتی ہے۔ پتہ چلا کہ اب کے پرائیویٹ سکولوں اور پبلشرز انڈسٹری کو تباہ کرنے کی سازش کی گئی ہے۔وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے 26جولائی کو قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے ایک قوم ایک نصاب اور ایک کتاب کی پالیسی کے تحت نصاب تعلیم کی تجدید کا عندیہ دیا اور کہا کہ 2021ء سے تمام ٹیکسٹ بکس منسوخ کر دی جائیں گی۔ ان کی جگہ تمام سرکاری اور نجی اداروں میں صرف حکومت کی تیار شدہ کتب پڑھائی جائیں گی۔ یہ یکساں قومی نصاب تین مرحلوں میں متعارف کروایا جائے گا۔ پہلے مرحلے میں نرسری تا پنجم دوسرے مرحلے میں چھٹی تا ہشم 2022ء جبکہ تیسرے مرحلے میں نویں تا بارہویں 2023ء میں نافذ کیا جائے گا۔ اس شعبے سے منسلک لوگوں نے اس پر کئی سوالات اٹھائے ہیں۔ خالد پرویز جو کہ انجمن تاجران کے صدر بھی ہیں فرما رہے تھے کہ اس پر عمل ممکن ہی نہیں کہ یہ سب کچھ کہنے کی حد تک ہے۔ اب تو کورونا کے باعث کاروبار برباد ہو چکے ہیں۔ میں فرحان میاں سے یہ سن کر حیران رہ گیا کہ حکومت کہتی ہے کہ آپ کسی بھی کتاب کا پہلے این او سی لیں گے اور چھوٹی چھوٹی سی کتاب کا بھی ڈیڑھ لاکھ روپے دینا پڑے گا۔100آئٹم چھاپنے والا تو سارا پیسہ انہی کو دے دے گا۔ خالد پرویز صاحب کہنے لگے کہ یہ بات تو واقعتاً سمجھ میں نہیں آ رہی کہ وہ کس بات کے پیسے مانگ رہے ہیں۔ اگر پڑھنے کرنے کے ہیں تو ہم یہ کام پانچ دس ہزار میں کروا سکتے ہیں۔ یہ سراسر کاروبار کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔ دوسری بات یہ کہ حکومت جتنا پیسہ بٹورے گی اس کا سارا اثر قیمت پر پڑے گا جو آخر والدین کو ادا کرنی ہے۔ مہنگائی تو ہر شے پر اثر انداز ہوتی ہے اور لے دے کے مارا جاتا ہے تنخواہ دار جس کی تنخواہ سکڑتے سکڑتے تشویشناک حد تک آ گئی ہے اور ان کی تنخواہیں بڑھانے کے لئے حکومت کے پاس پیسہ نہیں۔ ویسے بھی ماہرین کا کہنا ہے کہ سنگل بک کے نفاذ سے رٹہ سسٹم کو فروغ ملے گا اور ملک میں سٹیریو ٹائپ نسل تیار ہو گی ۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ طبقاتی تقسیم ختم کرنے کے لئے یکساں نصاب تعلیم رائج کرنا چاہتی ہے حالانکہ اس مقصد کے لئے یکساں نصاب نہیں یکساں نظام تعلیم کی ضرورت ہے اس وقت ملک میں تین مختلف نظام تعلیم رائج ہیں ۔سرکاری نظام تعلیم جس کے لئے پرائیویٹ پبلشرز بھی کتب تیار کرتے ہیں دوسرا کیمبرج ایجوکیشن سسٹم (اے لیول اور او لیول) اور تیسرا مدارس کا نظام تعلیم۔ یہ تینوں نظام جوں کے توں موجود رہیں تو طبقاتی تقسیم کیسے ختم ہو گی۔ ہمارے ہاں اصل مسئلہ وسائل نہ ہونے کے باعث جدید سہولتوں اور لائق اساتذہ کا نہ ہونا ہے۔ تعلیم کا بجٹ ہی برائے نام ہوتا ہے شاید آپ کو علم نہیں کہ حکومت کی غلط پالیسی کے باعث کتنی تباہی مچے گی اس صنعت کے ساتھ 20لاکھ افراد وابستہ ہیں اکثر بے روزگار ہو جائیں گے ۔ٹیکسٹ بک پبلشرز ایسوسی ایشن نے حکومت کو مراسلے کے ذریعہ مطلع کر دیا ہے۔ یہ ذھن میں رہے کہ سکولوں کے لئے 70فیصد کتب پرائیویٹ پبلشرز کے ذریعہ پہنچتی ہیں بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے مگر کالم کالم ہوتا ہے بہرحال حکومت کو مشاورت کے ساتھ چلنا ہو گا یہ نظام مشرف کے دور میں لانے کی جسارت کی گئی تھی۔ شفقت محمود صاحب کو اس حوالے سے سوچنا ہو گا ویسے وہ تو بچوں کو چھٹیوں پر چھٹیاں دینے کے حق میں ہیں اور وہ بچوں میں مشہور بھی ہیں انہیں بچوں کا وزیر اعظم بھی کہا جاتا ہے۔ بچے ویسے ہی پڑھائی سے دور ہو چکے ہیں کہ کورونا کے بہانے ۔ جبکہ امریکہ اور برطانیہ میں کورونا کے زور کے باوجود بھی سکول کالج کھلے ہیں۔ آخری بات یہ کہ اکثر پبلشرز کا خیال ہے کہ حکومت تاجروں کے خلاف اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئی ہے۔وہ جو کچھ حکومت کے بارے میں کہتے سب کچھ لکھا بھی نہیں جا سکتا۔ ایک شعر کے ساتھ اجازت: اپنی منزل سے بے خبر ہی سہی ہم نیا راستہ نکالتے ہیں