جمعہ کی شام ایک بڑے مال میں کتابوں کی چھوٹی سی نمائش پر جانا ہوا۔تین دوست بھی ساتھ تھے۔ لبرٹی بکس والوں نے کتابوں کی سیل لگائی، اس میں خاصی کتابیں پانچ سو روپے سے کم قیمت پر موجود تھیں۔ بی، سی کلاس فکشن تین ، چار سو میں بھی دستیاب تھا۔ بیشتر اچھی کتابیں مہنگی اور سیل کی حد سے باہر تھیں،مگراتنا بھی غنیمت لگا کہ کسی نے کتاب کی سیل لگانے کی زحمت کی ، ورنہ یہ جنس تو اب درخوراعتنا ہی نہیں سمجھی جاتی۔ خاصی محنت اور کاوش سے ہم نے بھی کم بکنے والی کتابوں کے سمندرسے کچھ نہ کچھ برآمد کر ہی لیا اور پھر اپنی کامیابی پر فاتحانہ مسکراہٹ سے ایک دوسرے کو دیکھا۔ انداز یہی تھا کہ بڑے سیانے بنتے ہیں یہ دکاندار، مگرہم نے اپنے کام کی چیزیںنکال لیں۔حسب عادت میں نے وزن کم کرنے کے’’ جادوئی‘‘ نسخوں پر مشتمل ایک عدد کتاب خریدی ۔وزن کم کرنے اور مختلف ڈائٹ پلان کے حوالے سے اتنا کچھ پڑھ ، جان رکھا ہے کہ چترال سے کراچی اورصحرائے چولستان سے گوادرڈیپ سی پورٹ تک شائد ہی کسی سے مسابقت کا سامنا کرنا پڑے۔ خاکسار دنیا کے ہر شخص کو وزن کم کرنے کے تیر بہدف نسخے بیان کر سکتا ہے، جس میں نت نئے ڈائیٹ پلان سے لے کر ورزش کے اچھوتے طریقے،لائف سٹائل کی تبدیلی اورمختلف سنگین امراض سے محفوظ رہنے کی حیران کن تجاویز شامل ہوں گی۔ کئی بار سنجیدگی سے اس پر سوچا کہ میڈیا کے اس ابتر دور میں کوئی سائیڈ بزنس شروع کرنا پڑے تو وزن کم کرانے کا دھندا خوب چل سکتا ہے۔ افسوس کہ اس میں اپنا وزن آڑے آ جاتا ہے۔ کوئی گستاخ منہ پھٹ سیدھا پوچھ ہی نہ لے کہ بھائی صاحب اتنے ماہر ہو تو پہلے اپنا وزن کیوں نہیں کم کر لیتے؟ بس یہ اندیشہ ہمیں پھر سے صحافت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانے پر مجبور کر دیتا ہے۔ بات کتابوں کی نمائش کی ہو رہی تھی۔ فکشن سے مجھے بڑی دلچسپی رہی ہے، مگر کالم کی وجہ سے نان فکشن زیادہ پڑھنے پڑتے ہیں۔ عالمی سیاست، انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کھیل،تاریخ، سیاسی آپ بیتیوں میں دلچسپی لینا پڑتی ہے کہ وہاں سے کالموں کی آئیڈیاز اور مواد ملنے کے علاوہ بہت کچھ سمجھنے کا موقعہ بھی ملتا ہے۔ اس بار بھی ایک انڈین ڈپلومیٹ کی خاصی پرانی کتاب ہاتھ آئی، جس میں نہرو سے لے کر واجپائی تک کے سیاسی پروفائل تھے۔ ششی تھرور معروف کانگریسی رہنمااور سکالر ہیں۔ ان کی ایک چند سال پرانی کتاب خریدی، جس کی ضخامت نے اگرچہ ڈرایا تو سہی، مگر موضوع کے پیش نظر لے لی۔ تبتی لامائوں کے افکار اور ان کے خاص قسم کی روحانیت سے دلچسپی رہی ہے۔ آج کل دلائی لامہ کی لکھی کتاب پڑھنا شروع کر رکھی ہے، اس نمائش سے ایک بدھ راہب کی مراقبے پر لکھی کتاب مل گئی۔مزے کی بات ہے کہ سیل کے باعث جتنے کی یہ تین چار کتابیں ملیں، اتنے پیسے ایلف شفق کے ناول ’’دی باسٹرڈآف استنبول ‘‘پر لگ گئے۔ خوش شکل اور خوش کلام ترک ادیبہ ایلف شفق کے کئی ناول مشہور ہوئے ہیں، درجنوں زبانوںمیں وہ ترجمہ ہوچکے۔ ہمارے ہاں اس کے دو ناول ناموس (Honor)اور’’ چالیس چراغ عشق کے‘‘ (Forty Rules Of Love) ترجمہ ہوچکے ہیں۔’’فورٹی رولز آف لو‘‘دنیا بھر کی طرح ہمارے ہاں بھی بہت مشہور ہوا اور اس پر خاصا لکھا گیا۔ اس طالب علم کو یہ اوور ریٹیڈ (Overrated)ناول لگا۔ دلچسپ ہے ، مگر جتنا شہرہ سنا ویسا نہیں۔ یہ ذاتی تاثر ہے، اس سے اتفاق ضروری نہیں۔ بہت سے لوگوں کو اس نے مسحور کر رکھا ہے، رومی اور شمس تبریز کے مکالمے سے انہوں نے حقیقی حظ اٹھایا۔باسٹرڈ آف استنبول کااردو ترجمہ شائد ابھی نہیں ہوسکا۔میں تواس کی ای بک ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ،مگر اہلیہ محترمہ نے یہ ناول لانے کی فرمائش داغ دی۔ عفیفہ نے یوٹیوب پر ایلف شفق کا اس ناو ل کے حوالے سے انٹرویو دیکھا تو دلچسپی پیدا ہوئی۔آج کے زمانے میں کوئی بیوی اگر برینڈڈ ڈریس کے بجائے کتاب لانے کا کہے تو کون کم بخت ہوگا جو اسے پورا نہیں کرنا چاہے گا۔ نمائش کا حاصل مگر کچھ اور تھا، اس کالم لکھنے پر بھی اسی بات نے اکسایا۔ بک سٹور میں ایک طرف خوبصورت بورڈ آویزاں تھا، جس پر رنگ برنگ چھوٹے نوٹ پنوں کے ذریعے لگے تھے۔ عنوان تھا،کس کتاب نے آپ کی زندگی بدل ڈالی؟مختلف لوگوں نے اپنے اپنے انداز میں اس کتاب کا نام لکھا جس نے انہیں انسپائر کیا۔ فطری طور پر بعض نے قرآن حکیم کا نام لکھا۔ قرآن جیسی عظیم ترین کتاب کے اثر سے کون انکار کر سکتا ہے، وہ توہر مسلمان کی فطری ترجیح ہے،مگر اس قسم کے سوال کا مقصد مقدس کتاب سے ہٹ کر عام مطالعے کی کتب میںسے کسی یادگار کتاب کا نام معلوم کرنا ہوتا ہے۔دلچسپ جواب تھے، پڑھتا رہا اور موبائل پرتصویریں بھی لیں۔کئی لوگوں نے ’’ ناول فورٹی رولز آف لو ‘‘کا ذکر کیا۔ چار پانچ نے سیلف ہیلپ پر مشہور کتاب امیر باپ، غریب باپ(Rich Dad, Poor Dad)کا نام لکھا۔ مختلف نام سامنے آئے، فکشن، نان فکشن کتابیں۔ ایک نے معروف کینیڈین مقرر ، ادیب روبن شرما کی مشہور کتابThe Monk Who Sold His Ferrari تجویز کی۔ بعض قارئین کو ممکن ہے اس پر اچنبھا ہو، مگر انگریزی کتب کے اتنے بڑے امپورٹر کے سٹور پر آنے والے دو چار ایسے تھے، جن کو عمیرہ احمد اور نمرہ احمد کے قلم نے گرفت میں لے رکھا ہے۔ عمیرہ احمد کا ناول’’ پیر کامل‘‘ بہت مشہور ہے، اس کا مرکزی کردار ایک قادیانی لڑکی ہے ، جو گمراہی کی دلدل سے نکل کر مسلمان ہوئی، اگرچہ اس میں اسے خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، ہیرو ایک ہائی آئی کیو رکھنے والا لڑکا ہے، ایک تجربے نے جس کی زندگی کا رخ تبدیل کیا۔میں نے دلچسپی سے دیکھا کہ زندگی بدل دینے والی کتاب کے طور پر بعض لوگوں نے عمیرہ کے ’’ پیر کامل‘‘ اور نمرہ احمد کے ناول’’ جنت کے پتے ‘‘کا انتخاب کیا۔ نمرہ احمد کا ایک اور ناول مصحف بھی بڑا مشہورہے۔ ’’ ہنگر گیم ‘‘ہالی وڈ کی مشہور فلم ہے جس میں دلکش اداکارہ جینیفر لارنس نے کام کیا ہے۔یہ تین فلموں پر مشتمل سیریز(TRilogy) ہے، اس کا پہلا حصہ سب سے دلچسپ ہے۔ یہ فلمیں امریکی ناول نگار سوزین کالنز کے ناولوں پر بنائی گئی ہیں۔ ناول پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا، البتہ تینوں فلمیں دیکھ رکھی ہیں۔کسی باذوق قاری نے ہنگر گیم ناول کا ذکر کر کے ایک فقرہ لکھا ،’’ اس نے مجھے سکھایا کہ مکمل تاریکی میں بھی امید موجود رہتی ہے، حوصلہ نہیں ہارنا چاہیے۔ ‘‘مجموعی طور پر خاصی تعداد ایسے لکھنے والوں کی تھی، جن کے خیال میں ان کی زندگی ہیری پوٹر سیریز نے تبدیل کی۔ ہیری پوٹر کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ جے کے رائولنگ نامی امریکی ناول نگار نے سب سے پہلے یہ کردار اور اس کی جادوئی دنیا تخلیق کی۔ ہیری پوٹر دنیا کے مقبول ترین کرداروں میں سے ایک ہے۔ جادو سکھانے والا سکول ہاگورڈ ، وہاں کے استاد خاص کر لمبی ڈاڑھی والا ڈمبل ڈور ، دیو قامت ہیگرڈ اوراس کے عجیب وغریب جانور، ناچتا ہیٹ ، ہاگورڈ میں جگہیں بدلتی سیڑھیاں،بولتی تصویریں،ہوا میں تیرتے دھندلے بھوت،پیغام لانے جانے والا الو، جھاڑو پر بیٹھ کر اڑنا، جادو کرنے والی چھوٹی چھڑی وارڈ، تین سروں والا خوفناک کتا، ریلوے سٹیشن ساڑھے نو اور بہت کچھ ایسا ہے جسے کوئی پڑھنے، دیکھنے والا کبھی نہیں بھلا سکتا۔یہ ناول لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں میں فروخت ہوئے، دنیا کے بے شمار زبانوں میں ترجمے ہوئے ۔ ان پر بنی ہیری پوٹر فلموں کی سیریز بھی بہت مقبول ہوئی۔ آٹھ فلمیں بنائی گئی ہیں۔ یہ اعتراف کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ ہم نے یہ تمام فلمیں ایک سے زیادہ بار دیکھ رکھی ہیں۔ خوشی ہوئی کہ ہیری پوٹر کے مداح صرف ہم نہیں بلکہ اور بھی ہیں۔ یہ درست کہ زیادہ تر بچے تھے جنہوں نے ہیری پوٹر کا نام لکھا، ان کی لکھائی سے اندازہ ہورہا تھا، مگر کئی سنجیدہ لوگ بھی ایسے تھے جو ہیری پوٹر سیریز کو اپنی زندگی پر اثرانداز ہونے والی اہم کتابیں تصور کرتے تھے۔ ان کے فقروں سے ایج گروپ اور ذہنی پختگی کا تصور کیا جا سکتا تھا۔ بعض نے وضاحت کرتے ہوئے لکھا کہ ان ناولوں نے ہمیں آئوٹ آف باکس سوچناسکھایا۔ کسی کے خیال میں اس نے ان کاتخئیل زرخیز کیا، چند ایک کو ہیری پوٹر کاناول کے ولن لارڈ والڈرموٹ سے فائٹ کرنا اور ہمت نہ ہارنا بھا گیا۔ یہ سب پڑھتے ، تصویریں لیتے ہوئے میں سوچتا رہا کہ شکر ہے کوئی ننھا سا سہی، مگر جزیرہ ایسا بھی ہے جہاں لوگ زندگی بدل دینے والی کتابوں پر یقین رکھتے ہیں۔جن کی زندگیوں میں لکھے حروف نے ان مٹ اثرات مرتب کئے۔یہ خیال آیا کہ ہم سب چاہتے ہیں ،بچے امتحان میں کامیاب ہوں، وہ نوے فیصد سے زیادہ نمبر لے کر پوزیشنیں حاصل کریں اور ہم فخریہ فیس بک پر اس کا اعلان کر سکیں۔ یہ مگر کم ہی سوچتے ہیں کہ کچھ امتحان زندگی بھی لیتی ہے، ان میں کامیاب ہونا، اے پلس لینا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ ان امتحانات میں جب تک اندرونی شخصیت مضبوط نہیں ہوگی، جب تک علم سے رشتہ استوار نہیں ہوگا، تب تک کامیابی ممکن نہیں۔مطالعہ وہ واحد مثبت عادت ہے جو زندگی بھر شخصیت کو پالش کرتی رہے گی۔ یہ بات مگر اسے کون سمجھاسکتا ہے جو بچوں کو کتاب خرید کر دینا تو درکنا ر گھر میں پانچ چھ سور وپے کے خرچ سے اخبار تک لگوانے کو تیار نہیں۔