پوری قوت اور مکمل ارادے کے ساتھ وہ لوگ مصروف عمل ہیں جو چاہتے ہیں کہ فساد بھڑکے، حالات کشیدہ ہوں اور ایک عوامی تحریک چلے، نتائج کچھ بھی ہوں۔ موجودہ حکومت حق حکمرانی کا جواز کھو بیٹھے اور ان کے ارادوں کوفتح نصیب ہو۔ کسی بھی دور میں حالات خراب ہونے کے مواقع بہرحال موجود رہتے ہیں۔ دانا وہ شخص ہوتا ہے جو اپنے جذبات کو، سوچ کو متوازن رکھے۔ نیب میں پورا اخلاص موجود ہو۔ زبان کا استعمال بے محل نہ کرے۔ ہر مشورے پر پوری طرح سے غور کرے۔ بار بار غور کرے۔ عارضی سیاسی مصالح کو اپنی منزل مقصود نہ بنائے۔ خوشامدی اور مفاد پرستوں کے تیور پہنچانے۔ حکومت اور حکمرانوں کے قریبی حلقوں میں ایسے خاموش مفاد پرست پوری ہنرمندی سے اپنا کام کر رہے ہوتے ہیں جو حکومت مخالف حلقوں سے حق خدمت وصول کرتے ہیں اور حکومتی حلقوں میں بھی معتبر شمار ہوتے ہیں۔ مشورے کوقابل عمل بنانے کے لیے جتن کرتے ہیں اور بہت آسانی سے سیدھے راستے پر بھی کیلے کے چھلکے بچھا دیتے ہیں۔ چلنے والوں کے پائوں پھسلتے ہیں، بادی النظر کو ذمہ دار ٹھہرا کر فیصلہ کرلیا جاتا ہے۔ ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا آ رہا ہے۔ زبان دراز اور قلم بردار اپنی آتش شکم کو بجھانے کے لیے کتنے پاپڑ بیلتے ہیں۔ اہل نظر پر یہ سب کچھ عیاں ہوتا ہے لیکن وہ لوگ جو حال میں مگن اور مستقبل سے بے خبر ہوتے ہیں وہ داخل اور خارج کے سازش کاروں کی پہچان سے قاصر رہتے ہیں۔ کس نے مشورہ دیا کہ حالات کو جبر سے درست کردو، سب درست ہو جائے گا؟ اور نجانے کون لوگ ہیں جو حکومت میں بیٹھ کر اصلاح کاروں کی بات کو بے وزن بنا کر غیر متوازن فیصلوں کی راہ ہموار کردیتے ہیں۔ پاکستان کے سیاسی ماحول میں اگرچہ انداز تبدیل ہو گئے ہیں لیکن وہ لوگ جو اپنی ذات اور گروہ سے باہر قدم رکھنا شجر ممنوعہ جانتے ہیں وہ اپنی انا کی تسکین اور اپنی روزی کی حفاظت کے لیے من پسندانہ کاموں کو ترویج دیتے ہیں۔ ان کی بلا سے کسی کو نقصان پہنچے یا قوم کا راستہ کھوٹا ہو۔ بین الاقوامی حالات کے پس منظر اور پیش منظر کے اثرات پاکستان کی ریاست اور سیاست پر جلد ہی نمایاں نظر آتے ہیں۔ بین الاقوامی سیاست میں مذہب اور ثقافت بہرحال اپنے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ پاکستان کے بارے میں مذہبی نقطہ نظر سے جائزہ لیا جاتا ہے اور اسی انداز سے پاکستان کے لیے بیرونی دنیا حکومتی سطح پر اپنی پالیسیاں مرتب کرتی ہے۔ بیرونی دنیا کے اصلاح کار اور فساد گر باہمی مشورے اور مربوط عمل کے سہارے پاکستان کے اندرونی حالات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہ خاموش بیرونی اثرات ہماری قومی زندگی پر کارگر رہتے ہیں۔ پاکستان کے غالب اکثریتی مسلمان تمام اندرونی اور بیرونی معاملات کے باوجود اپنے دین اور دین کی اساسیات کے بارے میں نہایت حساس واقع ہوتے ہیں اور ان کی یہ حساسیت بے جا ہرگز نہیں ہے کہ برصغیر میں ان کی حساسیت اور جذباتیت ایک فکر مسلسل اور جہد مربوط ہے۔ قیام پاکستان کے ابتدائی چند برسوں میں انہوں نے تحریک ختم نبوت سے لے کر اہانت رسول تک کے تازہ ترین واقعات میں اپنی دینی حساسیت اور جذباتیت کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا اور آج تک وہ اس حساس ترین مسئلے پر اپنے اظہار کو اولین معاشرتی ترجیح سمجھتے ہیں۔ دینی اساس یا دینی شعائر کے تحفظ کے لیے انہوں نے تحریکیں چلائیں۔ یہ الگ بات ہے کہ سیاسی عناصر کو بھی ان تحریکوں کا حصہ بننا پڑا۔ بسااوقات ان تحریکوں کی قیادت سیاستدانوں کے ہاتھ آ گئی۔ یا کبھی ایسا بھی ہوا کہ مذہبی قیادت نے قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مقاصد کو حاصل کرلیا اور پاکستان کی شناخت بہرحال اسلام سے وابستگی ہی برقرار رہی۔ تازہ ترین احوال میں آسیہ کیس میں غالب اکثریتی مسلمانوں کی جانب سے احتجاج اور غم و غصے کا اظہار جس انداز سے ہوا، وہ کافی پیچیدگی کی جانب گامزن رہا۔ احتجاج کو مزاحمت کا سامنا ہوا تو عوام الناس کی جانب سے ردعمل اور شدید ہوا۔ کچھ غیر محتاط اور افسوسناک مناظر نے جنم لیا او رحالات مزید خرابی کی جانب بڑھے۔ حکومت کی جانب سے دانشمند اور دوراندیش افراد نے خرابی کو خطرناک بگاڑ تک نہ پہنچنے دیا اور اس میں وفاقی وزیر برائے مذہبی امور ڈاکٹر نورالحق قادری نے متحمل مزاجی اور سیاسی فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے گرم ترین حالات میں اصلاح کا باوقار اور آبرومندانہ حل تلاش کرلیا اور قوم ایک بڑے فساد سے محفوظ ہو گئی۔ مساجد کو تالے لگانا اور عام مسلمانوں پر نماز کے لیے خانہ خدا تک کے راستے بند کرنا ہر نئی خرابی کو جنم دینا ہے۔یہ ریاست مدینہ کی اتباع کرنے والوں کے دور میں ہورہا ہے ۔ اگر کسی فرد کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ قانون کی زد میں ہیں تو ارباب بست و کشاد اور ریاستی قوت کے ذمہ داران وضاحت کریں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں شہریوں سے ان کے بنیادی دینی حقوق سلب کرنا کیا قانون شکنی نہیں ہے۔ عوام کے طے شدہ حقوق جو آئین پاکستان فراہم کرتا ہے۔ ان سے روگردانی نہیں ہے؟ کوٹ رادھا کشن میں ہمارے ایک محقق کتاب دوست عالم دین علامہ محمد احمد برکاتی کو جو نہایت متحمل مزاج اور امن پسند راسخ العقیدہ مسلمان ہیں ان کے بھائی اور اسی سالہ والد بزرگ عالم دین کو پابند سلاسل کردیا گیا ہے۔ حالانکہ ان دونوں کا کسی تحریک یا گروپ سے تعلق نہیں یہ حقیقت سب اہل نظر پر عیاں ہے کہ سیکولر پاکستان کی سوچیں صاحبان اقتدار کے دماغوں میں موجود رہتی ہیں اور وہ اپنی سوچ ہی کو لفظوں کے پردوں میں چھپا کر نئے پاکستان کی بات کرتے ہیں۔ یہ پاکستان خدا اور رسول ؐ کی امانت ہے۔ اس کا اول آخر نظریہ غلبہ دین ہے۔حکومت وقت اپنے فیصلوں پر نظرثانی کرے اور ان معقول لوگوں کو اپنے مشوروں میں شامل کرے۔ جو متحمل مزاج ہیں اور دور رس نگاہوں سے حالات کا جائزہ لیتے ہیں۔ عوام میں مسلمانوں کے بنیادی دینی حقوق غضب کرنے سے جو نیا خاموش اشتعال پیدا ہورہا ہے اس کے اثرات کسی بھی وقت ہمارے ملکی سیاسی حالات پر نئے بحران کو راستہ دیں گے۔ پھر خرابی اور ناقابل حل خرابی کا ماحول پیدا ہوگا۔ حکمرانوں کو تحمل اور بردباری سے حالات کی اصلاح کے بارے میں تدبر و تفکر کرنا چاہیے۔دینی جماعتیں اور سیاسی جماعتیں اس افسوسناک اقدام پر لب کشائی کیوں نہیں کرتیں۔