سی پیک پر وزیر اعظم کے معاون خصوصی خالد منصور نے سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی میں کہا ہے کہ چینی کمپنیاں سی پیک پر کام کی رفتار سے مطمئن نہیں۔کمیٹی سے سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ چینی سفیر نے انہیں بتایا ہے کہ تین سال کے دوران سی پیک پر کچھ نہیں ہوا۔ تین سال سے سی پیک پر کچھ نہیں ہوا۔اس فقرے کے بعد سی پیک کے ساتھ کون سا لاحقہ استعمال کیا جائے؟مرحوم یا کالعدم؟اصحاب لغت رہنمائی فرمائیں۔ کچھ نہ ہونے یا کام کی رفتار سے مطمئن نہ ہونے کا شکوہ دراصل تجاھل عارفانہ ہے۔2014ء میں جو میلہ لگا تھا اور جو 2018ء کے انتخابات میں مکمل ہوا‘اس میلے کا ’’پرائم‘‘ مقصد یہی سی پیک کا رومال چرانا تھا۔اس دوران اور بہت سے رومال ہائے غنیمت بھی چرائے گئے تو اسے بونس سمجھئے۔ اب آپ یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ رومال واپس کرو تو پھر بتایئے میلہ لگانے کا کیا فائدہ۔میلہ بھی وہ ،جس نے کنبھ میلے کو بھی مات کر دیا۔اب تک جتنے منصوبے مکمل ہونے تھے‘ہو جاتے تو ہمارا جی ڈی پی 7کے ہندسے سے بھی آگے نکل جاتا یعنی ہم بھی بنگلہ دیش جیسے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو جاتے لیکن ہم نے تو صومالیہ ماڈل اختیار کرنے کا ’’صائب‘‘ فیصلہ کیا۔اب مردہ زندہ ہونے سے رہا۔ ٭٭٭٭٭ پی ٹی آئی کے ایک سخت حامی دانشور جو برسوں سے پی ٹی آئی کے فضائل لکھتے آ رہے ہیں‘یکایک یوٹرن لے گئے۔جمعے کو ان کا جو کالم آیا‘اس میں انہوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے ایسے لتے ئے ہوئے ہیں کہ کیا ناقدین نے لئے ہوں گے۔ ہر کھرا وزیر اعلیٰ ہائوس جاتا ہے گویا کھروں کا گھنٹہ گھر ہو گیا۔یہ تو اعزاز کی بات ہے۔ماضی میں جو کام ہزاروں افراد مل کر کرتے تھے‘آج جنوبی پنجاب کا ایک فرزند تن تنہا کر رہا ہے۔داد دیجیے گھنٹہ گھر کو اور اس سے بھی زیادہ داد دیجیے اسے جس نے یہ گھنٹہ گاڑا۔ ٭٭٭٭٭ شنید ہے کہ حکومت میڈیا اتھارٹی والا بل‘ابھی فیک نیوز والا‘فی الحال ایک طرف رکھنے پر آمادہ ہو گئی ہے۔ یعنی آگے چلیں گے دم لے کر۔مطلب یہ کہ کچھ عرصہ بعد دوبارہ مہم جوئی کا ارادہ ہے۔ حکومت نے سود و زیاں کا حساب تو لگا لیا ہو گا۔اس بل کاآغاز بھی رسوائی کی کمائی سے ہوا اور تعطل کی صورت میں انجام بھی رسوائی کی کمائی پر ہوا۔انجام کا لفظ سوچ سمجھ کر لکھا ہے۔دوبارہ مہم جوئی کا موقع نہیں ملنے والا۔اسے ستاروں کا علم نہیں‘نوشتہ دیوار سمجھئے۔ اور حضور‘دیوار پر الیکٹرانک دھاندلی کے منصوبے کا انجام بھی لکھا ہے۔کچھ اور باتوں کی فکر کیجئے صاحب‘یہ دونوں معاملے تو آخری آرام گاہ میں ہی ابدی آرام فرمائیں گے۔ ٭٭٭٭٭ وزیر اعظم نے کچھ ہی دن پہلے فرمایا تھا کہ ٹیکس چور ٹیکس دیتے نہیں اور سہولتیں ما نگتے ہیں۔محبان وطن نے اسی وقت بزبان حال اور بزبان تجزیہ نگاران ٹی وی سکرین پر مطالبہ کر دیا تھا کہ ٹیکس چوری سنگین جرم بلکہ قوم سے غداری ہے۔ وزیر اعظم عمران خاں نے ایک صدارتی آرڈیننس کے تحت ٹیکس چوروں پر 5سے 35فیصدبجلی ٹیکس لگا دیا ہے۔یعنی تمام قوم کو نان فائلرز ڈیکلئر کر کے یہ ٹیکس اب جبراً وصول کر کے قومی مفاد کا تقاضا پورا کیا جائے گا جو بجلی کے نرخوں میں بار بار کے ان گنت اضافوں اور پھر نئے نئے جدت طراز ٹیکسوں کے نفاذ (جیسا کہ جس کا بل 25ہزار ہو گا‘اسے 30ہزار ادا کرنا ہوں گے) کے باوجود پورا نہیں ہو سکا تھا۔جو اصحاب ٹیکس دیتے ہیں‘قانونی طور پر گنجائش رکھی گئی ہے کہ سال کے آخر میں ان کو وصول شدہ اضافی رقم واپس کر دی جائے گی لیکن عملاً یہ ممکن نہیں۔یہ ’’ناممکن‘‘ بھی قومی مفاد میں ہے۔ غیر محب وطن افراد کہیں گے کہ آدھی سے زیادہ آبادی( یہ آبادی اب تو خیر سے دو تہائی ہو گئی ہے) تو اتنی آمدن رکھتی ہی نہیں کہ اس پر ٹیکس واجب ہو اس لئے یہ زیادتی ہے۔ یہ بات تصدیق طلب ہے کہ ٹیکس واجب ہے یا نہیں،یہ بات تصدیق طلب ہے اور یہ لوگ ٹیکس نہیں دیتے‘تصدیق شدہ ہے ۔چنانچہ کارروائی تصدیق شدہ امر پر ہو گی۔ غریب ہو یا امیر یہ ایڈوانس جبری ٹیکس تو سارے ہی ٹیکس چوروں کو دینا ہو گا۔گویا حکومت نے ایک اور وعدہ پورا کر دیا۔امیر ہو یا غریب ‘قانون سب پر لاگو ہو گا۔اچھا‘اب یہ فضول اعتراض اٹھانے کی قطعاً اجازت نہیں ہے کہ جو طبقات فی الواقعی ٹیکس لگائے جانے کے اہل ہیں‘ان سب کو تو ایمنسٹیاں اور چھوٹ دے دی گئی ہے بلکہ سب سڈی بھی اور قرض معافی بھی۔ شہباز شریف کا خیال ہے کہ قوم اپنا پیٹ کاٹنے کی اس کارروائی پر تنگ آمد بجنگ آمد ہو جائے گی اور خانہ جنگی چھڑ جائے گی تو عرض ہے کہ خانہ جنگی بری بات نہیںبات نہیں، بہت اچھی بات ہوا کرتی ہے۔اس میں سب برے لوگ مارے جاتے ہیں‘صرف اچھے اچھے‘باقی رہ جاتے ہیں۔یقین نہ ہو تو روانڈا،برونڈی وغیرہ جا کر بچشم خود ملاحظہ فرمالیجیے۔ ٭٭٭٭