دلوں کے ساتھ یہ اشکوں کی رائیگانی بھی کہ ساتھ آگ کے جلنے لگا ہے پانی بھی بجا رہے ہو ہوائوں سے تم چراغ مگر ہوا کے بعد کہاں ان کی زندگانی بھی ہوا چراغ گل کرتی ہے تو اسے شعلہ بار بھی کرتی ہے۔ زندگانی کا یہی فلسفہ ہے کہ یہ ہوا کی آمدوشد ہے اور یوں حیات کا قافلہ رواں دواں ہے۔ یہ تو کوئی بھی نہیں جانتا کہ نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے‘ کس کو معلوم کہ اس کی کتنی صبحیں طلوع ہوں گی۔ دیکھیے وبائیں آتی ہیں اور چلی جاتی ہیں آپ اس میں احتیاط کا دامن نہ چھوڑیں اور حتی الامکان تدبیر بھی کریں پھر اس کے بعد توکل۔اس حوالے سے گھبرانے کی ضرورت نہیں کہ نتائج آپ کے اختیار میں نہیں ہیں۔ ایک بات طے ہے کہ آپ اللہ کی ماننا شروع کر دیں اور آپ اللہ سے جس بھی قسم کی امید رکھیں گے آپ مایوس نہیں ہونگے۔ اللہ صبر شکر کرنے والوں استغفار کو معمول بنانے والوں اور دعا کے لئے ہاتھ پھیلانے والوں کو کبھی مایوس نہیں کرتا کسی استاد نے کہا تھا ناں: مری مانوں چلو منجھدار میں موجوں سے ٹکرائیں وگرنہ دیکھنا ساحل پہ سارے ڈوب جائیں گے مشکل میں ہمت نہیں ہارتے‘ اس کا سامنا کرتے ہیں اپنی صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہیں اور اللہ پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں خود حکومت پینک پھیلا رہی ہے لمبے لمبے فگرز دیے جا رہے ہیں لوگوں کو ڈرایا سہمایا اور دھمکایا جا رہا ہے۔ بات حکمت سے بھی ہو سکتی ہے اگر ایسا نہیں تو پھر آپ قانون لاگو کریں آپ عوام کو ڈی مورلائز کیوں کر رہے ہیں آپ نفسیاتی طور پر ان کی قوت مدافعت کو کم کر رہے ہیں آپ کی سمجھ میں ہی نہیں آ رہا کہ کرنا کیا ہے۔ اسد عمر کو دیکھ لیں کون سی بات اس کی آج تک ٹھیک ثابت ہوئی ہے سیدھا سادا ناکامیوں کا دوسرا نام۔ ہم نے مان لیا کہ اتنے گھمبیر حالات ہیں مگر آپ نے اب تک کیا کیا ہے کہ ڈاکٹرز کو بھی آپ حفاظتی سامان تک مہیا نہ کر سکے اور فٹا فٹ امریکہ کو ماسک بھیجنے لگے۔ لوگ تو بیچارے پہلے ہی ستائے ہوئے ہیں۔ آپ ان کا حوصلہ بننے کی بجائے کبھی شبلی فراز سے کہلوا دیتے ہیں کہ لوگ آپ کے تخمینے سے کم مرے ہیں۔ آپ زندگی کی بات کیوں نہیں کرتے ہزاروں لوگ صحت یاب ہوئے ہیں۔ کوئی ہوتا ہے کہیں کام بنانے والا اک بگڑتا ہے تو سو کام سنور جاتے ہیں ہم لوگوں کو آسائشیں پہنچائیں۔ آپ تنخواہیں تک بڑھا نہیں سکتے۔ لوگ اس حوالے سے زرداری کا 50فیصد اضافہ یاد کرتے ہیں۔ شریف برادران بھی اتنے سنگ دل نہیں تھے سفید پوش تو کسی سے مانگ بھی نہیں سکتے۔ اگر آپ انصاف کی بات کریں گے تو ایک منٹ میں صاف ہو جائیں گے۔ اب نیب نیب کرتے ہیں مگر اس نیب کا اس سے بڑا عیب کیا ہو گا کہ ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم۔اور اپوزیشن کے خلاف فولاد بنے ہوئے ہیں۔ کوئی آپ سے پوچھے کہ آپ نے جہانگیر ترین کو نااہل ہونے کے باوجود پوری پارٹی کے سر پر سوار کیوں رکھا۔ وہ ڈپٹی پرائم منسٹر کیوں بنا۔ پھر خسرو بختیار کا کیا کہنا کہ خسروانہ روایت جاری ہے۔ وہ جو پختون خواہ کے پردہ نشین ہیں۔ ایسے ہی ایک شعر ذہن میں آ گیا: فیصلہ تونے کیا ہے سو اسے مانتے ہیں ورنہ حقدار تو ہم بھی کسی انعام کے تھے کبھی آپ سینے پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ آپ نے اپنا پہلا وصف یہ بتایا تھا کہ آپ کبھی جھوٹ نہیں بولتے اور ہم بھی اس پر یقین رکھتے تھے۔ اس کے بعد آپ نے ایک ہزار ایک جھوٹ بولے جن میں یو ٹرن ابھی شامل نہیں ہیں۔مگر ہم نے پھر بھی آپ سے محبت کی کہ میں ایسے بات سنتا ہوں کہ تو جھوٹانہیں لگتا۔ مگر آپ کچھ ڈلیور تو کر جاتے کسی ایک ڈاکو چور پر تو گرفت کر لیتے۔ یہ میں آپ کے بکل میں چور کی بات کر رہا ہوں عادی ڈاکو چور تو باہر نکل گئے۔ آپ کا زور چلتا ہے تو بے چارے ناچار لاچار اور غریبوں پر ۔ ابھی میرے گھر کا بل پندرہ ہزار سے اوپر آیا ہے ابھی گرمیاں اچھی طرح آئی نہیں۔ آٹا اور چینی کے بارے میں وزیر اعظم حیران ہیں کہ یہ مہنگا کون کر رہا ہے ۔ منیر نیازی یاد آتے ہیں: پوچھتے ہیں کہ کیا ہوا دل کو حسن والوں کی سادگی نہ گئی میرے پی ٹی آئی کے دوست میرے کالموں میں تلخی محسوس کرتے ہیں مگر مجھے مطمئن نہیں کر پاتے بار بار یہ کہا کہ کرپشن کی رپورٹ تو پہلی بار منظر عام پر آئی۔ قبلہ نتیجہ کیا نکلا۔ پٹرول سستا ہوا تو نتیجہ کیا ہے۔ لوگوں کو تو ریلیف چاہیے مگر اب تو وہ ریلیف کے نام پر سہم جاتے ہیں۔ تھک ہار کر ہماری باتوں کا جواب آتا ہے کہ خان کے پاس ٹیم اچھی نہیں۔ میں کہتا ہوں اچھی بری تو ایک طرف ٹیم اس کی اپنی نہیں۔ بھان متی کا کنبہ ہے۔ اتحادی ہیں تو ان کا اپنا رونا ہے۔ لوگ بہت باریک بین ہیں۔ مثلاً ایک پوسٹ میں دیکھ رہا تھا لکھا تھا لندن میں شراب کی دکان اور پنجاب میں ترجمے کے ساتھ قرآن اس کے پیچھے کہانی بڑے لوگوں کی سمجھ میں آ گئی ہو گی۔ اب لوگ یہ تجزیہ کرنے لگے ہیں کہ کیا پچھلی حکومتوں کی کرپشن نے زیادہ نقصان پہنچایا یا اب کی نااہلی نے۔ اب تو وہ گانا بھی غائب ہے کہ روک سکو تو روک لو تبدیلی آئی رہے۔ یہ سب عجیب نہیں لگتا کہ نیا پاکستان بنانے والا آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کا دعویٰ کرنے والا اور یہاں شہد اور دودھ کی نہریں بہانے جیسے دلکش وعدے کرنے والا پہلے مرغیوں اور انڈوں کے کاروبار کا مشورہ دیتا تھا اب وہ لوگوں کو ٹڈیاں پکڑنے پر انعام کا لالچ دے رہا ہے: کچھ نہ کہتا قسم ہے لفظوں کی صرف ہوتا جو قافیہ رکھنا کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے۔ مجھے امید ہے کم از کم خان صاحب سچ پڑھ تو لیتے ہونگے۔ سچ مچ جھوٹ جھوٹے کو بدصورت بنا دیتا ہے۔ سچائی بقول کیٹس کے خوبصورتی ہے اور خوبصورتی سچ ہے: تم ہی اگر نہ سن سکے قصہ غم سنے گا کون کس کی زبان کھلے گی پھر ہم نہ اگر سنا سکے