آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ: خلوص نیت سے افغان مسئلے کا پرامن سیاسی حل چاہتے ہیں۔پاکستان افغان امن و استحکام کے لئے کاوشیں جاری رکھے گا۔دوسری جانب افغان طالبان نے 6روز کے دوران 10صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کر لیا ہے۔افغان فورسز کی مسلسل پسپائی کے بعد افغان صدر نے آرمی چیف عبدالولی احمد زئی کو برطرف کر کے ہیبت اللہ کو نیا آرمی چیف مقرر کر دیا ہے۔ افغان طالبان کے ہاتھوں روس کے بعد امریکہ شکست ہوئی ہے۔لیکن امریکہ روس کی طرح گھٹنوں کے بل گرنے سے پہلے خطرے کو بھانپ گیا،اسی بنا پرافغانستان سے طالبان کواپنی واپسی کی ضمانت د یتے ہوئے اپنابوریا بستر باندھ کر وہاں سے نکل گیا۔ 18برس کے دوران امریکہ نے افغانستان میں اربوں ڈالر خرچ کیے لیکن وہ اپنی مرضی کے نتائج حاصل نہیں کر سکا، شدید مزاحمت کے بعد امریکی اور نیٹو افواج کے لئے دو ہی راستے تھے یا تو طالبان کے ہاتھوں اپنے فوجیوں کو مرواتے رہتے یا پھر واپس چلے جاتے ۔امریکہ نے دوسرے راستے کا انتخاب کر کے واضح کر دیا ہے کہ وہ اب کسی صورت اشرف غنی اور اس کے حواریوں کے اقتدار کو طول دینے کے لئے اپنے مزید فوجیوں کی قربانی نہیں دے گا۔امریکی صدر جوبائیڈن نے دو روز قبل واضح کر دیا ہے کہ افغان حکومت کو امن و امان قائم کرنے کے لیے اب آگے آنا ہو گا ۔ہم مزید کسی کی حفاظت نہیں کر سکتے ۔ان اٹھارہ برسوں میں امریکی ایجنسیوں نے بھرپور زور لگایا کہ کس طرح طالبان کے اندر سے بغاوت کروائی جائے تاکہ یہ لوگ آپس میں لڑیں اور امریکہ بغیر کسی مزاحمت کے افغانستان کی معدنیات پر قابض ہو جائے، بسا آرزو کہ خاک شدہ کے مصداق امریکہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکا۔دوسری جانب طالبان نے بھی اپنی صفوں میں اتحاد و اتفاق برقرار رکھ کر سپر پاور کو باور کرایا کہ وہ موت سے نہیں ڈرتے۔اسی جذبے کے بل بوتے پر انتہائی کم وقت میں طالبان نے دس صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کر لیا ہے۔مزار شریف کا محاصرہ بھی جاری ہے۔ اگرچہ اس وقت طالبان کی تیزی کے ساتھ پیش قدمی جاری ہے لیکن ماضی کے برعکس انہوں نے نا صرف افغانستان کے متحارب گروپوں بلکہ دنیا بھر کے ممالک کے ساتھ مذاکرات شروع کر رکھے ہیں۔حیران کن امر یہ ہے کہ دنیا کی اعلیٰ یونیورسٹیوں کے تعلیم یافتہ، سفارت کاری کی باریکیوں سے واقف، بڑے بڑے منجھے ہوئے سفارت کار بھی ٹیبل ٹاک میں طالبان کو زیر نہیں کر سکے ۔طالبان نہ صرف میدان جنگ کے فاتح بن کر سامنے آ رہے ہیں بلکہ مذاکرات کے میدان میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں۔اشرف غنی اور اس کے حواری نہ صرف طالبان سے خوفزدہ ہیں بلکہ سرکاری فورسز کے ہزاروں اہلکار طالبان کی صفوں میں شامل ہو چکے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ میدان جنگ میں گھوڑے تبدیل نہیں کئے جاتے لیکن شکست کے خوف سے اشرف غنی نے دو آرمی چیف تبدیل کر دیے ہیں جبکہ وزیر خزانہ نے استعفیٰ دے کر فرار ہونے میں عافیت سمجھی ہے۔اس کے باوجود افواج پاکستان نے دو روزہ کور کمانڈر کانفرنس میں یہ فیصلہ کیاہے کہ ہم خلوص نیت سے افغان مسئلے کا پرامن سیاسی حل چاہتے ہیں۔جبکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی کہاہے : افغان امن عمل میں ہمارا کردار مثبت رہا ہے، لیکن اس کے باوجود افغان صدر اشرف غنی کے الزامات افسوسناک ہیں۔افغان صدر کا رویہ تو شروع سے ہی افسوسناک ہے۔لیکن اب پی ٹی ایم جیسی افغانستان کی لے پالک جماعتوں نے بھی سوشل میڈیا پر پاکستان کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیاہے۔چند روز قبل پی ٹی ایم کے پلیٹ فارم سے 150ٹرینڈز ریاست کے خلاف چلائے گئے، جن میں 37لاکھ ٹویٹس کی گئیں۔اسی طرح پی ٹی ایم نے 14اگست 2020ء کو بلوچستان سولیڈیریٹی ڈے ٹرینڈ چلایا تھا۔ اس ٹرینڈ کو بھارت سے ایک دن میں ڈیڑھ لاکھ ٹویٹس ملی تھیں۔سارے ٹرینڈ شروع پی ٹی ایم ہی کرتی ہے، جبکہ اسے بھارت سے سپورٹ ملتی ہے۔اس وقت بھی پاکستان اور بھارت کے خلاف افغانستان اور بھارت کے اکائونٹس استعمال ہو رہے ہیں۔جو ہمہ وقت پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرنے میں جتے ہوئے ہیں ۔افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان میں چھوٹا سا مسئلہ بھی بن جائے تو انٹرنیشنل میڈیا اسے سر پر اٹھا لیتا ہے لیکن جب بات بھارت کی آتی ہے تو دنیا خاموش ہو جاتی ہے۔اس وقت پاکستان کے خلاف بھارت ‘افغانستان اور ان کی پروردہ جماعتوں نے ایک محاذ بنا رکھا ہے۔گو پاکستان اس چومکھی لڑائی کو بہتر انداز میں ہینڈل کر رہا ہے لیکن ہمیں سوشل میڈیا کی جنگ کا مؤثر جواب دینے کے لئے فی الفور ایسے افراد کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے، جو پاکستان میں بیٹھ کر غیرملکیوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔اگر کسی کو اشرف غنی سے اتنی ہی ہمدردی ہے تو اس سے سوال کرے کہ ہلمند پر بمباری کر کے ہزاروں بے گناہ شہریوں کو موت کے گھاٹ کیوں اتارا جا رہا ہے۔انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کن علاقوں میں ہو رہی ہیں۔اس کا بھی انصاف کے ساتھ جائزہ لینا چاہیے۔طالبان تو اس بارے اعلان کر چکے ہیں کہ وہ ایک غیر جانبدار کمیشن کو اپنے زیر انتظام علاقوں کا دورہ کرانے کے لئے تیار ہیں تاکہ دنیا کو پتہ چل سکے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کہاں ہو رہی ہے۔اشرف غنی کو اقتدار سے چمٹے رہنے کی ضد چھوڑ دینی چاہیے تاکہ افغانستان میں امن و امان قائم ہو سکے اور افغان قوم سکھ کا سانس لے سکے۔