جنگ آزادی 1857ء تحریک پاکستان کی خشت اول ہے۔ پاکستان کے حصول کی بنیاد 1857ء تا 1900ء کے حالات‘ واقعات اور معاملات نے رکھ دی تھی۔ اس بنیاد کا بیج سرسید احمد خان کی علی گڑھ تحریک نے رکھاجو بعدازاں آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام 1906ء اور قیام پاکستان 14 اگست 1947ء کی صورت میں تکمیلی منازل تک پہنچی۔ قائداعظم نے قیام پاکستان کے وقت بجا فرمایا تھا کہ پاکستان علی گڑھ یونیورسٹی کے میدان میں بنا ہے۔ یعنی علی گڑھ کے فارغ التحصیل طلباء اور اساتذہ نے تحریک پاکستان میں کلیدی کردار ادا کیا ۔یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے دیگر علمی و ادبی‘ اصلاحی و فلاحی اداروں نے بھی قیام پاکستان کے حصول میں علماء و مشائخ کے ساتھ بھرپور مدد فراہم کی اس ضمن میں جامعہ ملیہ‘ دلی‘ دارالندوہ‘ دارالمصنفین،دیو بند وغیرہ بھی تحریک پاکستان کا بالواسطہ اور بلاواسطہ حصہ رہے ہیں ۔ مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا ظفر احمد عثمانی کو مغربی و مشرقی پاکستان میں جھنڈا لہرانے کا اعزاز ملا۔پاکستان امت کی امانت ہے۔ یہ سب کا ہے کسی ایک فرد‘ گروہ یا پارٹی کا نہیں۔ لہٰذا اس کی ترقی‘ استحکام‘ سلامتی بھی سب کی ذمہ داری ہے۔1945-46ء کے الیکشن میں متحدہ ہندوستان کے تمام مسلمانوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔ قیام پاکستان کے وقت مسلمانان ہندایمان‘ اتحاد‘ تنظیم کے تحت ایک تھے۔ قومی اور مذہبی یکجہتی ہی مضبوط‘ محفوظ اور مستحکم پاکستان کی ضمانت ہے۔برصغیر میں تین دیرپا اثرات کی حامل نسلیں اور قومیں آئی ہیں۔ آریائی برہمن وسط ایشیا سے براستہ افغانستان آئے اور پنجاب‘ کشمیر اور یوپی کو اپنا مسکن بنایا۔ مسلمان تین اطراف سے برصغیر میں آئے۔ پہلا راستہ تجارتی تھا جو دکن سے شروع ہوا۔ دوسرا اور تیسرا راستہ بلوچستان‘ سندھ اور افغانستان تھا اور انہوں نے پورا برصغیر اپنے نظام اور انتظام کے زیر نگیں کرلیا۔ انصاف‘ عدل اور رواداری مسلمانوں کا قلمی زیور رہا ہے۔ بنگال حافظ شہاب الدین غوری کے ماتحت کماندار اختیار الدین محمد بن مختار خلجی نے تن تنہا 1199ء میں فتح کیا۔ تیسری قوم برطانوی انگریز تھے جنہوں نے اپنی سازشی فتوحات کا آغاز بنگال اور دکن میں میسور ٹیپو سلطان کی سلطنت خداد سے خاتمے سے کیا لہٰذا انگریزوں کے دور حکومت میں ہندو مسلم نشاۃ ثانیہ کی تحریکوں نے بھی بنگال‘ بنارس‘ بمبئئی یعنی بنگال اور دکن سے کیا۔ بنگال انگریز نے 23 جون 1957ء میں پلاسی کی سازشی جنگ سے حاصل کیا تھا ۔ پلاسی میں سراج الدولہ سے میر جعفر نے اور انگریزوں کے ساتھ میسور کی جنگ میں ٹیپو سلطان سے میر صادق نے غداری کی۔ علامہ اقبال نے بجا کہا تھا کہ: جعفر از بنگال و صادق از دکن ننگ ملت‘ ننگ دیں‘ ننگ وطن شریف الدین پیرزادہ نے اپنی کتاب بعنوان پاکستان کی بنیاد Foundation of Pakistan میں لکھا ہے کہ مسلمانوں کی پہلی سیاسی پارٹی محمڈن ایسوسی ایشن کلکتہ میں 1856ء میں بنی جس کے صدر فضل الرحمن اور سیکرٹری محمد مظہر تھے جبکہ نواب عبداللطیف اپریل 1863ء میں کلکتہ میں محمڈن لٹریری سوسائٹی قائم کی جس کے کم از کم پانچ سو اراکین تھے جو متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں کے نمائندہ تھے۔ سرسید احمد خان نے 1866ء میں برٹش انڈیا ایسوسی ایشن علی گڑھ بنائی جو ہندو مسلم مشترکہ تاریخی ورثہ کی نمائندہ جماعت تھی۔ اس کے صدر راجہ جے کشن داس اور سیکرٹری سرسید احمد خان تھے۔ مذکورہ سوسائٹی نے برطانوی انگریز سرکار سے ایک مقامی یونیورسٹی قائم کرنے کی تجویز دی اور اس یونیورسٹی میں ذریعہ تعلیم اردو یا ہندی نے ایک ہندو مسلم مخاصمت بحث یا لڑائی کو جنم دیا جس نے بالآخر مسلمانوں نے خلاف ہندو انگریز گٹھ جوڑ کے تانے بانے بھی کھول کر رکھ دیئے۔ انہوں نے تعلیمی ادارے بنائے اور سیاست سے دور رہے۔ اٹھارویں صدی کے مسلمانوں کے جداگانہ تشخص کے تحفظ کی تجاویز دی۔ علی گڑھ کے طلباء اور اساتذہ نے اردو زبان کے حق میں تنظیم بنائی۔ نواب محسن الملک اور نواب وقار الملک اس تنظیم کے سرپرست تھے انگریز سرکار نے جبراً علی گڑھ اساتذہ اور نواب صاحبان کو اردو تنظیم کی سرپرستی سے علیحدہ کیا۔ تقسیم بنگال 1905ء انگریز سرکار انتظامی فیصلہ تھا مگر پسماندہ مشرقی بنگال مسلم اکثریتی صوبہ بن گیا جس کے خلاف ہندو انتہا پسندوں کو ملک گیر مہم چلائی اور 1911 میں بنگال کو متحدہ صوبہ بنا دیا گیا۔ دریں حالات علی گڑھ اور بنگالی عوام و خواص اور اکابرین نے مسلمانوں کے جداگانہ تحفظ کے لیے آل انڈیا مسلم لیگ 1905 میں قائم کی جس نے انگریز سرکار سے منٹو مارلے اصلاحات1909ء میں مسلمانوں کے لیے جداگانہ تشخص کا اصول منوا لیا جس نے میثاق لکھنو 1916ء میں ہندوئوں سے بھی جداگانہ تشخص تسلیم کرالیا۔ یہاں یہ امر دلچسپ ہے کہ ہندوئوں کی احیائی تحریکوں نے بھی بنگال سے جنم لیا جس میں برہمن سماج کا قیام 1828ء میں راجہ موہن داس رائے نے کیا اور بعدازاں آریہ سماج تحریک کا آغاز دیانند سرسوتی نے 1875ء میں کیا جس نے فیصلہ کیا تھا کہ ہندوئوں کو عیسائی بننے سے روکا جائے۔ آریائی برہمن نسلی کے تحفظ اور سرداری کی اجارہ داری کو قائم رکھ جائے مگر بعدازاں دونوں تنظیموں نے فیصلہ کیا کہ آریائی انگریز اور غیر آریائی مسلمانوں کے خلاف لڑکنا مشکل ہے لہٰذا انہوں نے بقول آریہ سماج کے صدر کشب جندرسین مسلمانوں کے خاتمے میں مدد کرے گا۔ اسی تناظر میں آل انڈیا نیشنل کانگرس بنی اور چیٹرجی نے مسلمانوں کے خلافرسوائے زمانہ ناول لکھاجس کا نغمہ بندے ماترم ساری ہندو قوم اور بھارت کا قومی ترانہ ہے۔ بندے ماترم بھی بنگال بلکہ تمام ہندی مسلمانوں کو ختم کرنے کے عزم سے شروع ہوتا ہے کہ کالی ماتا پیاسی ہے اسے مسلمانوں کا خون چاہیے اور آج بھارت میں مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ علامہ اقبال اور قائداعظم کی تعلیمات ہیں کہ دوست اور دشمن کی شناخت کبھی نہ بھولو: ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے اس ملک کو رکھنا میرے بچوں سنبھال کے